سوشل میڈیا اور تبدیل ہوتے رویے


\"anas\"سنہ 2005 میں انجینئرنگ یونیورسٹی، لاہور میں میرا پہلا سال جس ہاسٹل میں گزرا اس کے بالکل سامنے فٹ بال گراونڈ تھا، ہاسٹل سے گراونڈ کے راستے میں ایک تنگ سی کینٹین بھی تھی، جو پہلے سال کے نوخیز طلبا کے لئے کسی نعمت سے کم نہ تھی، کینٹین کے باہر لگی کرسیاں یارانِ نکتہ داں کو دعوتِ عام دیا کرتی تھیں۔ یہ ہاسٹل کیونکہ باقی یونیورسٹی سے بالکل علیحدہ ایک کنارے پر واقع تھا لہٰذا مغرب کے بعد یہاں کی رونقیں بہت تیزی سے کم ہو کر کینٹین تک محدود ہو جایا کرتی تھیں۔ اللہ بھلا کرے ریٹائرڈ فوجی وائس چانسلر صاحب کا جنہوں نے کینٹین والوں کو 12 بجے رات تک لازمی بند کرنے کے احکامات جاری کر کے ہم جیسے آوارہ گردوں کی کمر میں خنجر گھونپ دیا تھا۔

مغرب کے بعد میس کے دروازے کھل جاتے، اور میس ہال میں چمچوں اور پلیٹوں کی آوازیں اکثر کسی نہ کسی بحث مباحثہ کی آواز میں دب جایا کرتی تھیں۔ رات کا کھانا کھانے کے بعد میس ہال سے شروع ہوا یہ مباحثہ ملحقہ کینٹین پر منتقل ہوجاتا اور حسب شوق سگریٹ اور چائے کے کشوں کے ساتھ کم از کم رات کے 12 بجے تک جاری رہتا تھا۔ گھر سے دوری اور پنجابی سے عدم واقفیت کی بناء پر اکثر ان مباحثوں میں میری شرکت بطور مبصر ہی ہوا کرتی تھی، لیکن بہت جلد دوستوں کی حوصلہ افزائی نے ان مباحثوں میں بطور تجزیہ کار شرکت پر مجبور کر دیا۔ ان مباحثوں کی دو خاص باتیں تھیں: ایک ہر بندہ اپنی چائے اور سگریٹ کا بل خود ادا کرتا تھا دوسرا ہر روز جب مجلس اختتام کو پہنچتی تو اپنے اپنے کمروں تک واپس پہنچنے سے پہلے سب لوگ ساری باتیں بھول چکے ہوتے تھے۔

ہاسٹل کی کینٹین میں ہوئے ان مباحثوں اور مناظروں میں دینی موضوعات سے لے کر سیاسی موضوعات تک زیر بحث آتے لیکن مجال ہے جو کبھی بات کا رخ ذاتیات کی طرف مڑا ہو یا بحث کے اختتام پانے کے بعد کسی قسم کا طعن و تشنیع سننے کو ملا ہو۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ہمارے ساتھ ایک عامر نامی لڑکا ہاسٹل میں رہتا تھا عامر بھائی کا کمال یہ تھا کہ وہ کیمپس سے لے کر کینٹین تک ہر جگہ ایک مخصوص رنگ کی پگڑی پہن کر رکھتے تھے اور ان کے ساتھ جب بھی میس میں کھانا کھانے کا اتفاق ہوا جس اعلیٰ طریقے سے وہ پلیٹ صاف کرتے تھے وہ قابل دید منظر ہوا کرتا تھا۔ ان کے ساتھ اکثر دینی موضوعات پر گپ شپ رہا کرتی تھی لیکن اختلاف کبھی بھی ایک حد سے آگے نہیں بڑھا۔ ایک دن خبر ملی کہ عامر بھائی کی طبیعت خراب ہے تو تمام تر فقہی، سیاسی و نظریاتی اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ہم سب ہی عامر بھائی کی عیادت کے لئے ان کے کمرے میں گئے۔ یہ اور اس جیسے کئی واقعات نے ایسی ذہنی تربیت کی کہ سخت ترین اختلاف رکھنے والوں سے بھی ہمیشہ جدا ہوتے ہوئے بغل گیر ہو کر دعائے خیر کے ساتھ الوداع کیا۔

پھر یوں ہوا کہ ہمارے دیکھتے ہی دیکھتے سماجی رابطے کی ویب سائٹس کا جنم ہوا لیکن ہماری خوش قسمتی کہ ریٹائرڈ فوجی وائس چانسلر صاحب نے یونیورسٹی میں دستیاب انٹرنیٹ پر ان ویب سائٹس کے استعمال پر پابندی لگائے رکھی اور ہماری فکری و اختلافی مجالس ہر بدلتے ہاسٹل کے ساتھ صرف اپنی جگہ تبدیل کرتی رہیں۔

گزشتہ چند دنوں سے الیکٹرانک اور سوشل میڈیا پر اوریا مقبول جان کے حق میں اور خلاف ٹاک شوز سے لے کر فیس بک پوسٹس تک آپ سب کی نظروں سے گزری ہوں گی۔ ایک جانب ذاتیات پر حملے ہیں تو دوسری طرف الحاد کے فتوے ہیں، ایک گروہ اوریا مقبول جان کی شان میں قصیدہ خواں ہیں تو مخالفین اوریا کی ذہنی پسماندگی پر نوحہ خواں ہیں، لیکن اس معرکہ حق و باطل میں دونوں طرفین متانت، سنجیدگی اور برداشت کا دامن ہاتھ سے چھوڑ بیٹھے اور ہمارے تیزی سی تبدیل ہوتی اقدار کا پول کھول دیا ہے۔ چاہے وہ دائیں بازو کے ٹھیکیدار ہوں یا اشتراکی نظریہ کے پشتی بان \”اوریا\” کے معاملے نے دونوں کا پردہ چاک کر دیا ہے۔

کل ایک دوست کے دفتر ایک کام کے سلسلے میں جانا ہوا، میڈیا سے کمزور سا تعلق ہونے کی وجہ سے مختلف ٹی وی چینلز اور میڈیا ہاوسز میں کبھی کبھار چکر لگتا رہتا ہے، ایک تلخ حقیقت یہ ہے کہ صحافی برادری کا دفتر میں سب سے زیادہ وقت فیس بک پر گزرتا ہے۔ خیر جس دوست کے پاس بیٹھے تھے کمپیوٹر کی اسکرین پر دیکھتے دیکھتے اچانک اس نے افسوسناک چہرہ بنا لیا، میرے ذہن میں خیال آیا شاید کسی قریبی عزیز یا جاننے والے کی وفات کی خبر آئی ہے۔ میرے استفسار پر موصوف نے سکرین میرے سامنے کر دی جس پر ان کے کسی دوست نے محمود خان اچکزئی کا نام لکھ کر ننگی گالیاں لکھی پوسٹ شئیر کی تھی، جس دوست نے شئیر کی وہ اتفاق سے تعلیم کے شعبے سے وابستہ اور استاد کے رتبے پر فائز ہیں۔

سوشل میڈیا  نے یقیناً روایتی میڈیا کی اجارہ داری کو تقریباََ ختم کر کے رکھ دیا ہے، تازہ ترین معلومات تک بغیر کسی روک ٹوک کے رسائی کو آسان کر دیا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ اس نے ہمارے رویوں پر بھی گہرا اثر چھوڑا ہے۔ ہم اختلاف رائے کے حق کو ناحق استمعال کرتے ہوئے، مخالفت کے دریا میں اس قدر تیزی سے بہتے ہیں کہ برداشت اور متانت کے جزیروں پر رکنا گوارا نہیں کرتے۔ گزارش صرف اتنی ہے کہ کسی کو غلط ثابت کرنے کے لئے اپنے آپ کو کتنا گرانا ہے یہ پہلے طے کرلیں، معلومات کے اس طوفان میں جہاں بڑھتے ہوئے قدموں کو روکنا قریب قریب ناممکن ہے کسی بھی پوسٹ کو شئیر یا لائک کرنے سے پہلے ایک دفعہ رک کر دوبارہ غور سے پڑھ لیا کریں کہ کیا واقعتاََ یہ پوسٹ آپ کی شخصیت کی صحیح طور پر نمائندگی کر رہی ہے؟ اختلاف رائے انسانی فطرت ہے لیکن اس فطرت پر شیطانی جبلت غالب ہو کر آپ سے انصاف کا دامن چھڑوا تو نہیں رہی؟

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments