عمران خان، مہاتیر محمد اور نیا پاکستان


دسمبر 2007 تھا۔ جب پہلی بار عمران خان کو قریب سے دیکھا اور کچھ بات چیت کی، فوزیہ قصوری، روئیداد خان، اویس خالد اور راجہ ذوالفقار سمیت بیس دیگر افراد بھی موجود تھے۔ تحریک انصاف کی اسلام آباد اور راولپنڈی کے یہ ابتدائی لوگ تھے۔ جو اب شاید سوائے عمران خان کے ایک بھی تحریک انصاف کا حصہ نہیں ہے۔ سوال و جواب کا سیشن تھا۔ زیادہ تر سوالوں کے جواب فوزیہ قصوری اور روئیداد خان دے رہے تھے۔ راقم کا سوال براہ راست عمران خان سے تھا کہ آپ کے پاس تبدیلی کے لئے سیاسی اور معاشی کون سا پروگرام ہے کہ لوگ پیپلزپارٹی اور دیگر جماعتوں کو چھوڑ کر تحریک انصاف میں شامل ہوجائیں۔

عمران خان نے جواب دیتے ہوئے کہا تھا کہ وہ مہاتیر محمد کی طرح سمال انڈسٹری سے ملکی معیشت کو مضبوط کریں گے۔ عمران خان آج پاکستان کے وزیر اعظم ہیں۔ پچھے دنوں انہوں نے ملائیشیا کا سرکاری دورہ کیا اور ڈاکٹر مہاتیر محمد سے ملاقات بھی کی ہے۔ مہاتیر محمد 22 سال ملائیشیا کے وزیراعظم کی حیثیت سے حکمران رہے۔ آج پھر اقتدار مہاتیر کے پاس ہے۔ مہاتیر کا سابقہ طرز حکمرانی بہت سادہ اورواضح تھا۔ ملائیشیا کے حکمران طبقات کی ایسی پرتیں جن سے تھوڑا سا بھی شک ہوتا کہ وہ مہاتیر حکومت کے ناقد ہیں، انہیں مقدمات بنا کر جیل میں بند کردیا جاتا۔ جب تک مہاتیر محمد کی حکومت رہی تمام تر سیاسی مخالفین جیلوں میں بند رہے یا وہ ملک چھوڑ گئے۔ وہ مخالفین کے لئے دہشت بنے رہے۔ صحافیوں، ججوں کے خلاف اقدامات کیے۔

مہاتیر کا نعرہ بھی کرپشن کے خلاف رہا۔ امریکہ کے مخالف تھے۔ پارٹی اور حکومت میں اپنی مرضی کرتے۔ تنقید کی بالکل پرواہ نہ کرتے۔ مہاتیر کی یہ ایک معمولی سی جھلک ہے جو آپ عمران خان میں بھی دیکھ سکتے ہیں۔ اگر ہم مہاتیر محمد کی معاشی پالیسوں کی بات کریں تو ملائیشیا مہاتیر کے دور میں شدید مالی و معاشی بحرانوں کا شکار رہا ہے۔

معاشی حوالے سے مہاتیر کی پالیساں ملکی معیشت کو سنبھالنے میں تو ناکام رہی مگر سیاسی پالیسوں کے باعث مہاتیر لمبے عرصے تک اقتدار پر قابض رہے ہیں۔ عمران خان 22 سال تو شاید حکمران رہنے کا نہیں سوچ رہے ہوں گے مگر مہاتیر کی راہ چلنے کی کوشش میں دس سال کی مضبوط حکمرانی کا خواب ضرور دیکھ رہے ہیں۔ اپوزیشن میں رہتے ہوئے بھی عمران خان کی طرز سیاست مہاتیر سے مشابہ نظر آتی ہے۔ جس طرح عمران خان نے نواز شریف سمیت پیپلزپارٹی کو ہدف تنقید بناکر اپنے اقتدار کا راستہ ہموار کیا۔

وزارت عظمیٰ کی کرسی پر بیٹھ کر بھی مخالفین کی نیندیں حرام کر رکھی ہیں۔ عمران خان پاکستان کے مہاتیر محمد بننے کے لئے حالات بظاہر تو بہت موافق ہیں لیکن اس طرح سہل اور آسان نہیں ہیں۔ جس طرح عمراں ن خان سمجھ رہے ہیں۔ ہر عہد کے اپنے تقاضے ہوتے ہیں۔ آج کا عہد کچھ تقاضے تو پورے کرتا ہے کہ عمران خان مہاتیر محمد جیسا طرز حکمرانی اختیار کریں مگر حالات کے بہت سے تقاضے ایسے ہیں کہ شاید عمران اور اس کی ٹیم چاروں شانے چت ہوجائے۔

غیرجانبداری اور سیاسی وابستگی سے بلاتر ہوکر تجزیہ کریں تو پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری حالات کے تقاضوں کو بخوبی سمجھ ر ہے ہیں۔ شاید اقتدار سے باہرہیں اس لیے حالات کے تقاضوں کا درست ادراک حاصل ہے۔ 92 سالہ مہاتیر محمد آج پھر ملائیشیا کا وزیراعظم ہے مگر آج وہ اپنے سابقہ دور کی غلطیوں کا ازالہ چاہتے ہیں اور بدلے ہوئے مہاتیر محمد ہیں۔ عمران خان کو انتہائی سنجیدگی سے ملکی مسائل کا حل تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔ عوام کو جو امید دلائی ہے۔ اس امید پر پورا اترنے کے لئے ٹھوس پالیساں مرتب کریں۔ کرپشن، قبضہ مافیا، شدت پسندی، انتہاپسندی سمیت مذہبی تفرقہ بازی کے خلاف اقدامات قابل تحسین ہیں۔ ایسے ہی ا قدامات کے باعث مہاتیر محمد کوجدید ملائیشیا کا بانی کہا جاتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).