یہ وہ والی شمسہ نہیں تھی



شادی سے پہلے میں گوجرانوالہ کے ایک مخلوط تعلیمی ادارے میں بطور اُستاد پڑھاتا تھا. فارغ اوقات کے دوران مرد اور خواتین ٹیچرز کے بیٹھنے لیے الگ الگ کی بجائے ایک ہی مشترکہ سٹاف روم تھا. جہاں سبھی بیٹھ کر بچوں کی نوٹ بُکس اور ہوم ورک سے لے کر اگلے پرییڈز کی تیاری بھی وہیں کرتے تھے. خواتین اساتذہ میں شمسہ نام کی ایک ٹیچر تھی. جو کمال کی خوبصورت تھی. اس کے حُسنِ کے ساتھ ساتھ، حُسنِ اخلاق، رکھ رکھاؤ اور ذہانت کے بھی پورے سکول میں چرچے تھے . اسی لئے شروع ہی سے وہ میری توجہ کا محور بن گئی .
اکثراوقات ہم دونوں اپنی پسند اور ناپسند کے ساتھ ساتھ تعلیم سیاست، معاشرت اور دیگر موضوعات پر کھل کر گفتگو کرتے. سکول کا ماحول چونکہ خاصا کنزرویٹو تھا. اور اوپر سے” تاڑنے والے بھی قیامت کی نظر رکھتے ہیں” کے مصداق جلد ہی دیگر سٹاف میں ہمارے متعلق جھوٹی سچی چہ میگوئیاں ہونے لگیں.
زیادہ تر لوگ سمجھتے تھے اور بعض تو برملا کہتے تھے کہ ہو نہ ہو، ضرور کوئی” لو” کا چکر ہے. میرے منہ پر جب کوئی ایسے کہتا تو میں ہمیشہ ایسے مواقع پر ٹال مٹول سے کام لیتا.اور یہ سلسلہ بنا ایک دوسرے سے کسی خاص تعلق کا اظہار کیے ایسے ہی چلتا رہا.
پنجاب پبلک سروس کمیشن میں مقابلے کے امتحان میں کامیابی کے بعد مس شمسہ کی سرکاری جاب ہو گئی تو وہ ٹیچر کی جاب سے استعفیٰ دے کر اپنی نئی ملازمت جائن کرنے کے لیے قصور چلی گئی. جس کا ظاہر ہے مجھ بھی اندر ہی اندر صدمہ پہنچا اور یوں بقولِ شاعر:
دل کی بات دل میں رہی، بات نہ ہونے پائی
ہائے اس گل سے پھر ملاقات نہ ہونے پائی
بہرحال اس کے بعد کہتے ہیں نا کہ “پھر چراغوں میں روشنی نہ رہی”، میرا بھی وہاں اس کے بغیر جی نہ لگا، بمشکل میں نے تین ماہ اس سکول میں پڑھایا اور دوسرا روز کے آنے جانے کی سفری مشقت سے تنگ آ کر میں گجرات واپس چلا آیا.اور یہاں کے ایک سکول میں پڑھانا شروع کر دیا.
شمسہ کی ان کہی محبت اور جدائی کے صدمے نے ابتداء میں بہت تڑپایا اور کلاپایا ، مگر کہتے ہیں نا کہ” وقت سب سے بڑا مرہم ہے” ، آہستہ آہستہ حالات معمول پر آتے گئے.
گجرات میں بھی جب ٹیچنگ شروع کی تو والدین کی طرف سے میری شادی کا اصرار بڑھنے لگا تو چند ماہ بعد میرے والدین نے اپنی رضامندی سے کسی اور جگہ میری شادی کروادی…
شادی کے چند ہفتے ہی گزرے ہونگے کہ ایک دن اپنے دوستوں کے ساتھ بیٹھا گپ شپ لگا رہا تھا…کہ میرے موبائل فون پہ ایک میسیج آیا کہ “خدا کرے کہ آپکی ازدواجی زندگی کامیابی سے چلتی رہے…میں آپکو بڑا مس کرتی ہوں…خدا کرے آپ خوش رہیں
love and regards”
شمسہ
پیغام پڑھ کر میں بڑا خوش ہوا کہ شمسہ مجھے ابھی تک نہیں بھولی…میرا جی چاہتا تھا میں اسے فون کروں..اس سے باتیں کروں….لیکن دوستوں کے درمیان ہونے کی وجہ سے صرف مختصراً جواب کے طور پر شکریے کے ساتھ ” محبت بھرا ” میسج کردیا……اور ساتھ لکھ دیا کہ “میسیج کرتی رہا کریں….یہ دوستی جاری رہنی چاہئے ”
دوستوں کی محفل سے فارغ ہوکر گھرآیا تو اپنی اہلیہ محترمہ کے چہرے سے سخت ناگواری کے اثرات نظر آرہے تھے.
گھر میں داخل ہوتے ہی اس نے غصے سے کہا کہ “شمسہ کا فون آیا تھا، اس نے سب کچھ مجھے بتادیا ہے، جو بھی آپ نے اس کو میسیج کیا ہے. آپ کو میں بڑے اعلی کردار کا مالک سمجھتی تھی… شریف بندہ سمجھتی تھی… آپ نے یہ کیا کر دیا” .
راز فاش ہونے پر میں اپنی بیوی کو سب کچھ صاف صاف بتا کر معزرت کرنے ہی والا تھا کہ اس نے بڑی روانی سے کہا کہ …” میری محلے میں ایک شمسہ نام کی سہیلی ہے، میں نے اس کو اپنا اور آپ کا نمبر موبائل نمبر دیا تھا..کہ اگر مجھ سے کسی وجہ سے بات نہ ہوسکے تو میرے شوہر سے بات کرلینا، وہ مجھے بتادین گے، مگر آپ نے تو اس سے پیار کی پینگیں اور” پتنگیں” ہی چڑھانا شروع کردی”.
اصل معاملے کی سمجھ آنے کے بعد، اب میں نے اپنی والی شمسہ کی بابت اپنی غلطی کی معافی مانگنے کا ارادہ ترک کر دیا اور نہ صرف چپ کرکے رہ گیا بلکہ اپنی اور ٹیچر شمسہ کی بات بھی چھپا گیا.
اور روایتی شوہر وں والی رعب دار آواز کے ساتھ اہلیہ سے کہا کہ دیکھو!.. “دراصل میں کسی کام سے چند منٹوں کے لئے باہر نکلا تھا اور اپنے دوستوں کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا کہ میرے ایک شرارتی دوست نے جوابی میسیج کردیا، میں تمھیں بتانے ہی والا تھا، تم نے مجھے بولنے کا موقع کب دیا” ..اور یوں اپنا مدعا چھپانے کے لئے الٹا میں نے اسے جھاڑ دیا… بہرحال وہ مطمئن ہوگئی ….اور اپنے شک کی وجہ سے مجھ سے معذرت کرنے لگی…اسے کہتے ہیں کہ” الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے”.
آپ سمجھ گئے ہوں گے کہ دونوں کا نام شمسہ تھا…اور میں نے سکول والی شمسہ سمجھ کر اہلیہ کی سہیلی شمسہ کو میسج کر دیا تھا…لیکن یہ تو بیوی والی شمسہ نکل آئی .
پہلی دفعہ محسوس ہوا کہ پیار چھپتا نہیں، لیکن میں پھر بھی چھپا گیا تھا .لیکن اب تو کسی زمانے میں دل میں بسی شمسہ کو چاہے یک طرفہ ہی تھی،نکال ہی دیا ہے.
آخر میں چلتے چلتے آپ ایک پتے کی بات بتائیں، اگر آپکی بیوی یا گرل فرینڈ آپ پہ شک کرنے لگے تو گھبرانے کی بات نہیں یہ تو اس کی محبت کی علامت ہے…اور اگر آپ پکڑے جائیں …تو اس کی ناراضگی سے مت گھبرائیں یہ تو اس کی وفا کی علامت ہے-*

(رفاقت گوندل: بیک وقت صحافی / استاد اور ہومن رائٹس ایکٹیوسٹ ہیں. آج کل گجرات میں ایک بڑے پرائیویٹ کالجز گروپ کے ایک ادارے کے ساتھ سیاسیات کے پروفیسر کے طور پر منسلک ہیں )


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).