داعش اور بھارت۔سازش یا حقیقت


حال ہی میں بھارت کی قومی تفتیشی ایجنسی یعنی این آئی اے نے دہلی اور اترپردیش میں تقریباً16مقامات پر چھاپہ ماری کرکے 10افراد کو حراست میں لیا۔ ایجنسی کا دعویٰ ہے کہ عالمی دہشت گرد تنظیم داعش یا آئی ایس آئی ایس کے نئے ماڈل حرکت الحرب الاسلام کے بینر تلے یہ افراد 26 جنوری کو یوم جمہوریہ کے موقع پر دہلی کے پولیس ہیڈکوارٹر اور ہندو انتہا پسندو ں کی مربی تنظیم آر ایس ایس کے دفتر پر حملے کی منصوبہ بندی کر رہے تھے۔
اسی دوران سرینگر میں چند نقاب پوش نوجوانوں نے نماز جمعہ کے بعد تاریخی جامع مسجد کے منبر پر جوتے سمیت چڑھ کر داعش کا جھنڈا لہرایا۔ جس سے عوامی حلقوں میں خاصا اضطراب پھیل گیا ہے۔ داعش کے اس نئے ماڈل کی حقیقت اور سرینگر میں جامع مسجد کی حرمت کی پامالی ایک تحقیق طلب امر ہے، مگر جس طرح یہ واقعات ظہور پذیر ہوئے ہیں، اس میں کسی سوچی سمجھی سازش کی بو رچی ہوئی ہے۔
میں نے پچھلے کئی کالمز میں خبردار کرنے کی کوشش کی ہے ، کہ مئی 2019کے عام انتخابات میں واضح اکثریت حاصل کرنے کیلئے وزیرا عظم نریندر مودی کی حکومت اور برسراقتدار بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کسی بھی حد تک جانے کیلئے تیار ہے۔ اقتصادی محاذ پر پے در پے ناکامیوں کی وجہ سے مودی کا جادو پھیکا پڑ رہا ہے۔
دوسری طرف ایودھیا میں رام مندر کی تحریک بھی کچھ خاص زور پکڑ نہیںپا رہی ہے۔ جس سے بی جے پی کیلئے ہندو ووٹروں کو یکجا کرنا ایک ٹیڑھی کھیر ثابت ہو رہی ہے۔ اسی لئے اب ایسا لگتا ہے کہ آزمودہ فارمولہ کا استعمال کرتے ہوئے ایک بار پھر اکثریتی ہندو آبادی کوخوف کی نفسیات میں مبتلا کرکے ووٹ بٹورنے کے کھیل کا آغاز ہو چکا ہے۔
2002ء میں گجرات کے شہر احمد آباد کے قلب میں واقع اکشر دھام مندر کے حملہ کی باز گشت ایک بار پھر سنائی دے رہی ہے۔ اس حملہ کی تفتیش نے سبھی ریکارڈوں کو مات دے دی ۔اس حملہ کے مقدمہ میں سزائے موت سے باعزت بری ہونے والے مفتی عبدالقیوم منصوری نے اپنی کتاب”گیارہ سال سلاخوں کے پیچھے ‘‘ میں عیا ں کر دیا کہ کس طرح سیاسی مقاصد کے حصول کیلئے بے قصور مسلم نوجوانوں کو دہشت گردی کے جھوٹے الزامات میں پھنسا کر قید و بند کی زندگی گزارنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔
نچلی عدالت نے مفتی صاحب اور دیگر متعلقین کو 2006ء کو موت کی سزا سنائی تھی جس کو گجرات ہائی کورٹ نے بھی برقرار رکھا تھا۔ مگر 2014ء میں سپریم کورٹ نے اس فیصلہ کو رد کرکے سبھی افراد کو باعزت بری کرنے کے احکامات صادر کئے۔مفتی صاحب نے اپنی کتاب میں دردناک واقعات کی تفصیل دی ہے، کہ کس طرح ان کو اکشر دھام مندر کے دہشت گردانہ واقعہ میں فریم کیا گیا۔
سخت جسمانی اور روحانی تشدد کے بعد ان کو بتایا گیا کہ وہ باہمی مشورہ اور بات چیت سے اس واقعہ میں اپنا کردار طے کریں، بلکہ مختلف مقدمات میں سے انتخاب کا بھی حق دیا گیا، کہ وہ گو دھرا ٹرین سانحہ، سابق ریاستی وزیر داخلہ ہرین پانڈیا کے قتل، یا اکشر دھام میں سے کسی ایک کیس کا انتخاب کریں ، جس میں انہیں فریم کیا جائے۔
مفتی صاحب بیان کرتے ہیں:” اس ظالم (ڈی آئی جی ڈی ڈی ونجارا)نے دوبارہ میری سرین پر نہایت ہی جنون اور پاگل پن سے ڈندے برسانے شروع کئے، یہاں تک کہ میرے کپڑے خون سے تر ہوگئے تو پولیس والو ں سے کہا کہ ہاتھوں پر مارو ، پھر میری ہتھیلیوں پر اتنے ڈنڈے برسائے گئے کہ ان کا رنگ بدل گیا۔
ونجارا کی نظر میرے پیروں پر پڑی توکہنے لگا کہ موٹا تازہ ہے، بھینس جیسے پیر ہیں، اس کے پیروں پر ڈنڈے برساو، ظالموں نے مجھے گرایا اور ایک موٹا ، مکروہ چہرے والا شخص مجھے الٹا لٹکا کر میری پیٹھ پر بیٹھ گیا، دوسرے لوگ میرے پیروں پر بیٹھ گئے، دو لوگوں نے میرے ہاتھ اور سر کو پکڑ لیا۔
پھر ونار ( ایک اور پولیس آفیسر) نے اسی حالت میں میرے پیروں کے تلوئوں پر ڈنڈے برسانے شروع کئے، جب وہ تھک جاتا تھا ،توکچھ دیر رک جاتا اس پر ونجارا گالی دے کر کہتا اور مارو‘ رک کیوں گئے۔ آخر کار میں بے ہوش ہوگیا۔ پیروں کے تلوے بالکل ہرے ہوگئے تھے، ہاتھوں اور پیروں میں ورم آگیا تھا، چلنا تو درکنار، پیروں پر بھی کھڑا نہیں ہوسکتا تھا۔‘‘
مفتی صاحب کے بقول ریمانڈ سے قبل ان کی باقاعدہ گرفتاری یعنی 40 د ن تک رات بھر ان کے ساتھ ظلم و ستم کا بازار اسی طرح چلتا رہا۔ اس دوران ان کو بجلی کے کرنٹ دیے گئے۔ کتاب میں مفتی منصوری نے گجرات پولیس کے ظلم و تشدد کا ایسا نقشہ کھینچا ہے، کہ کلیجہ منہ کو آتا ہے۔
دوران انٹیروگیشن انکو برہنہ کرکے شرمگاہ میں موٹا ڈنڈا داخل کیا جاتا تھا اور ایک پچکاری کے ذریعے پٹرول داخل کیا جاتا تھا، پیشاب کے سوراخ میں بجلی کا تار لگاکر کرنٹ دیا جاتا تھا۔ پورے کیس کی عمارت اردو میں تحریر ان دو خطوط پر ٹکی تھی، جو پولیس کے بقول مفتی صاحب نے لکھ کر حملہ آوروں کے حوالے کئے تھے، جو بعد میں ان کی جیبوں سے برآمد ہوئے۔
فرانزک لیبارٹری نے مفتی صاحب کے ہینڈرائٹنگ اور ان خطوط کا موازنہ کرنے کے بعد رپورٹ دی ، کہ یہ مفتی صاحب کے تحریر کردہ ہیں۔ جس کا مطلب یہی ہے، کہ مفتی صاحب حملہ آوروں سے واقف تھے، اور ان کی اعانت بھی کی۔ مگر نہ ہی نچلی عدالت اور نہ ہی ہائی کورٹ نے یہ جاننے کی کوشش کی ، کہ جب خود پولیس کے بقول حملہ آوروں کی لاشیں خون اور کیچڑ میں لت پت تھیں، اور ان کے بدن گولیوں سے چھلنی تھے اور ان حملہ آور وںکے جسموں میں 46 گولیوں کے نشانات تھے، تویہ خطوط کیونکر صاف و شفاف تھے۔
معلوم ہوا کہ مفتی صاحب سے یہ خطوط تین دن تک پولیس کسٹڈی میں لکھوائے گئے تھے۔دہشت گردی کی یہ کہانی جس میں 32 بے قصور ہندو ز ائرین کی جانیں چلی گئیں ابھی بھی انصاف کی منتظر ہے۔سوال یہ ہے کہ آخر وہ حملہ آور کون تھے؟ اس حملہ کی پلاننگ کس نے کی تھی؟
کس کو اس حملہ سے فائد ہ حاصل ہوا؟ آخر بے قصور افراد کو گرفتار کرکے کس کی پردہ پوشی کی گئی؟
پچھلے کچھ عرصہ سے داعش کے حوالے سے ملک کے مختلف مقامات سے کچھ ایسے واقعات پیش آرہے ہیں، کہ لگتا ہے کہ مسلم نوجوانوں کو ایک بار پھر پھنسانے کیلئے کوئی جال بچھ رہا ہے۔ آسام پولیس نے گزشتہ مئی میں آئی ایس آئی ایس کے جھنڈے لگانے سے متعلق پوچھ تاچھ کے لئے جب چھ افراد کو حراست میں لیا ۔ تو معلوم ہوا کہ وہ سبھی بی جے پی سے جڑے تھے۔
مقامی میڈیا رپورٹس کے مطابق 7 مئی کی رات ، پولیس نے کارروائی کرتے ہوئے نلباڑی ضلع کے بیلسور علاقے سے بی جے پی کے جن ممبروں کوداعش کے جھنڈے لگانے کے شک میں گرفتار کیا،ان کی پہچان تپن برمن، دوپ جیوتی ٹھکریا، سوروجیوتی بیشیہ، پولک برمن، مزمل علی اور مون علی کے طور پر کی گئی ۔
ان میں سے تپن برمن کانگریس کے سابق کاؤنسلر تھے ، جو پچھلے سال ہی بی جے پی سے جڑ گئے تھے اورگرفتاری کے وقت اس کی ضلع کمیٹی کے ممبر تھے۔واضح ہو کہ 3 مئی کو نلباڑی ضلع میں داعش کا جھنڈا ایک درخت سے بندھا ملا تھا۔ اس پر لکھے پیغام میں لوگوں سے اس گروہ میں ‘ شامل ہونے ‘ کو کہا گیا ہے۔
اسی طرح ایک نیوز چینل نے سرینگر میں داعش کے جھنڈے کے ساتھ کئی افراد کے ویڈیو حاصل کرکے کئی دن تک اس کو اچھالا۔پولیس نے چھان بین کرکے اس جھنڈے کو سینے والے پرانے شہر میں رہنے والے ایک درزی کو جب شامل تفتیش کیا، تومعلوم ہوا کہ چینل کے رپورٹر نے ہی اس جھنڈے کو بنانے کا آرڈر دیا تھا اور پھر ویڈیو بناکر پورے ملک کو ہیجان میں مبتلا کر کے رکھ دیا۔ اس رپورٹر کے خلاف کاروائی نہ کرنے سے معاملہ اور بھی پیچیدہ ہوگیا۔
لگتا ہے کہ ایک باضابطہ پلان کے تحت کشمیر میں حریت پر قد غن لگا کر نیز بھارت نواز کشمیری قوم پرست جماعتوں پی ڈی پی اور نیشنل کانفرنس کیلئے سیاسی زمین تنگ کرکے کے ایک نئے سیاسی وجود کو لانچ کرنے کی تیاریا ں چل رہی ہیں۔ کشمیر میں سیاسی خلا کو پر کرنے کیلئے کئی طاقتیں سرگرم ہوگئی ہیں اور ایک غیر محسوس انداز میں ان کی پشت پناہی بھی ہو رہی ہے۔
خوش قسمتی سے فی الحال ان کا دائرہ محدود ہے، اگر ایسی صورت حال جاری رہی تو نہ صرف کشمیر کے دیگر علاقے اس کی زد میں آسکتے ہیں بلکہ یہ طاقتیں بھارت اور پاکستان کو بھی عدم استحکام سے دوچار کردیں گی۔ جھوٹ کے سہارے بے گناہ افراد کو اپنی تفتیش کی خوراک بنا کر میڈل ترقیاں اور سیاسی مقاصد تو حاصل کئے جاسکتے ہیں، مگر دہشت گردی پر قابو نہیں پایا جاسکتا۔ یہ بات جتنی جلدی نئی دہلی کے ارباب حل و عقد سمجھ سکیں، اس خطے کیلئے بہتر ہوگا۔
بشکریہ روزنامہ نائنٹی ٹو


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).