افغانستان سے پاکستان تک: ذمہ داری کی ضرورت


افغانستان ایک بار پھر اُس دوراہے پر کھڑا ہے کہ اگر راستہ درست نہ اختیار کیا گیا تو ایسی صورت میں افغان سرزمین تو خونی غسل کرتی ہی رہے گی مگر پاکستان بھی اس کے اثرات سے متاثر ہوئے بنا نہیں رہ سکے گا۔ افغانستان میں کسی حل تک پہنچنے کے لیے ضروری ہے کہ اس بات کا مکمل ادراک موجود ہو کہ حالات اس حد تک خراب کیوں ہو گئے اس کے لیے ماضی کو ہلکا سا کریدنا ہو گا۔ ظاہر شاہ کی حکومت افغانستان میں رواں دواں تھی دوسرے لفظوں میں ایک ریاست موجود تھی اس کا ایک آئینی سربراہ بھی موجود تھا مگر عوام کو نئے نئے لولی پاپ دینے والوں نے اس بات کی پروا کیے بنا ء کہ اگر یہ نظام ٹوٹ گیا تو اس کی جگہ کون سا نظام آئے گا یا بے یقینی اور بدامنی مستقل ڈیرے ڈال لے گی، سوشلسٹ نظریات کی بنیاد پر ظاہر شاہ کی آئینی حکومت کو سردار داؤد کے ذریعے ماضی کا قصہ بنادیا۔

عوام کو بھی خوش کن نعروں کے ذریعے بہلایا جانے لگا حالانکہ تباہی برق رفتاری سے چلی آرہی تھی۔ ظاہر شاہ نے بھی پاکستان سے کچھ معاملات پر اختلافات رکھے ہوئے تھے مگر سردار داؤد نے معاملات سے زبانی کلامی سے بڑھا کر پاکستان میں عملی مداخلت تک پہنچا دیا۔ کیمونسٹ پارٹی سے بھی ان کے اختلافات بڑھ گئے لویہ جرگہ کے ذریعے انہوں نے افغانستان میں یک جماعتی نظام حکومت قائم کرنے کی بھر پور کوشش کی اور ان تمام کوششوں میں جس کی بنیاد افغانستان میں ترقی اور پختون عصبیت قرار دیتے تھے۔

وہ افغانستان میں عوام ڈھانچے کو تباہ کرتے چلے گئے نتیجتاً ایک دن خود بھی قتل ہو گئے اور اپنے پیچھے افغان ہی قاتل اور افغان ہی مقتول کی سیاست چھوڑ گئے جو آج تک جاری ہے۔ افغانستان کے حوالے سے آج تک سرگرمیاں دوبارہ زوروشور سے جاری ہیں اور وہاں پر امن کو بحال کرنے کی غرض سے خطے اور دنیا کے اہم ممالک میں مختلف سرگرمیاں دیکھنے میں آرہی ہیں جہاں یہ حقیقت ہے کہ افغان طالبان کو مکمل شکست نہیں دی جا سکی وہاں پر اس کا انکار بھی ممکن نہیں ہے کہ امریکہ دنیا کی سب سے بڑی اقتصادی اور فوجی طاقت ہے اور وہ اپنے مفادات کو مدنظر رکھے بنا افغانستان کے معاملات میں کوئی دوسرا راستہ اختیار نہیں کرے گا اگر ہم صدر ٹرمپ کے گزشتہ کچھ عرصے کے بیانات کا جائزہ لیں تو یہ حقیقت بالکل روز روشن کی مانند سامنے آن کھڑی ہوتی ہے کہ ٹرمپ فوجی موجودگی کو اب زیادہ اہمیت نہیں دے رہے بلکہ وہ اپنی قوم کو بدستور سپر پاور رکھنے کے لیے ٹیکنالوجی کی بالا دستی کا مشن سنبھالے ہوئے ہیں۔

اور وہ یہ سمجھتے ہیں کہ امریکہ پر نائن الیون کی مانند کوئی دوسرا حملہ ہونے کا امکان بہت تھوڑا رہ گیا ہے اب صرف ان کے سامنے یہ سوال درپیش ہے کہ افغانستان میں معاملات کو کیسے نبٹایا جائے کہ جس میں ان کی کوئی سبکی بھی نہ ہو اور ان کے سامنے جو قوتیں جہاں کھڑی رہی ہیں ان قوتوں کو بھی سبق سکھا دیا جائے اور یہ سبق دوبارہ دہشتگردی کی بڑی لہر کی صورت میں اس خطے میں سامنے آجائے گی۔ افغان طالبان سے جہاں مذاکرات جاری ہیں وہیں پر افغانستان میں داعش کو پھلنے پھولنے کا مکمل موقعہ فراہم کیا جارہا ہے تاکہ وہ افغان طالبان کے سامنے لاکھڑے کر دیے جائیں مزید تشویشناک امر یہ ہے کہ داعش کی یہ موجودگی پاکستان سے منسلک علاقوں میں دیکھنے میں آرہی ہے اس لیے اس کے نتائج پاکستان کو بھی برداشت کرنا پڑے۔

یہ بات اب کوئی ڈھکی چھپی نہیں کہ شام کے بچے کھچے داعشی عناصر کو افغانستان میں پناہ دی جارہی ہے اور تین اہم ممالک کے آرمی کے سربراہان جو بظاہر متحارب بھی ہیں ایک اجلاس میں یہ فیصلہ کم وبیش دوسال قبل کر چکے ہیں کہ داعش کو مکمل طور پر شام سے افغانستان میں منتقل کر دیا جائے اوراس کے اثرات اب واضح طور پر سامنے بھی آرہے ہیں ان حالات میں پاکستان کی جانب سے نہایت بیدار مغزی کی ضرورت موجود ہے جنیوا معاہدہ کی مانند اگر کوئی غلطی از سر نو دہرائی گئی تو اس کے نتائج پورے خطے اور بالخصوص پاکستان افغانستان کے لیے ہولناک ہوں گے۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ اگر امریکہ اور افغان طالبان کسی معاہدے کی طرف بڑھتے ہیں تو ایسا معاہدہ نہایت جامع ہونا چاہیے اور اس میں دیگر تمام فریقوں کی زمینی حقائق کے مطابق رضامندی نہایت ضروری ہے۔ معاہدہ قابل عمل بھی ہونا چاہیے پاکستان اس وقت بظاہر اس معاملے میں بہت متحرک ہے اس لیے اس کی ذمہ داری بھی بہت زیادہ ہے لیکن واضح طور پر محسوس ہو رہا ہے کہ اس حوالے سے پاکستان کے دفتر خارجہ اور جہاں کہیں سے ہدایات لی جارہی ہیں ان کی تیاری نہایت کمزور ہے۔

وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی ابھی حال ہی میں افغان طالبان اور امریکہ کے مذاکرات کے بعد چار ملکی دورہ کیا لیکن دیگر ممالک نے اس دورے کو کتنی اہمیت دی اس کا اندازہ اس بات سے اچھی طرح لگایا جا سکتا ہے کہ روس، چین اور ایران کے سربراہان مملکت اور حکومت میں سے کسی نے ان سے ملاقات کرنے کی زحمت گوارا نہیں کی۔ اس سے اس دورے کی اہمیت کا اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔ اس کی کچھ دیگر وجوہات بھی بالکل سامنے ہیں جب سے موجودہ حکومت برسر اقتدار آئی ہے خارجہ محاذ پر پہ در پہ جو سنایا جاتا ہے بعد میں اس کے بالکل برعکس سامنے آتا ہے اس سے دنیا میں ساکھ کا مسئلہ درپیش ہے۔

مثلاً سعودی عرب سے ملنے والے قرضے پر ایک ابہام کی کیفیت کو قائم کیا گیا ہے حالانکہ یہ سود پر ہے متحدہ عرب امارات کے قرضے بھی سود پر ہیں اس کو بیان کرنے سے کیا بات روکتی تھی۔ سمجھ سے بالا تر ہے۔ حالانکہ یہ سب کچھ تو کھل کر سامنے آنا ہی تھا ایک بات ہو سکتی ہے کہ گزشتہ نواز شریف حکومت کے دور میں سعودی عرب کی جانب سے رقم تحفے میں دی گئی اور وہ بعد میں بھی اسی حیثیت میں رہی اس کا مقابلہ کرنے کے لیے یہ شوشے چھوڑے گئے لیکن بین الاقوامی تعلقات میں ایسے شوشے چھوڑنے سے ماسوائے اپنے ملک کو نقصان پہنچانے کے اور کچھ حاصل نہیں ہوتا افغانستان اور پاکستان ایک فیصلہ کن موڑ پر ہے غیر ذمہ داری کا خمیازہ آنے والی نسلوں کو ہی بھگتنا ہو گا لہذا بہت سوچ سمجھ کر۔ چونکہ صرف دلفریب نعرے کسی بھی ملک کو سردار داؤد کے بعد کا افغانستان بنا سکیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).