بنگلہ دیش، اسلامسٹ نوجوان اور دہشت گردی


\"usman

ڈھاکہ میں گزشتہ کچھ عرصے سے جاری دہشت گردی سے دل مشوش و حزیں تھا ہی، مگر ایک ریستوران میں ہونے والی تازہ ترین خونچکاں واردات نے اس خادم کو خصوصا ملول کیا۔ جس محلے میں یہ دردناک واقعہ پیش آیا، یہ خادم اسی گلی کی ایک عمارت میں، بلکہ موقع واردات کے عین پڑوس میں، ایک سال سے کچھ اوپر، قیام پزیر رہ چکا ہے۔ یوں تو خون ناحق کہیں بھی بہے، باعث کلفت ہوتا ہے، لیکن جانی پہچانی جگہوں پر ٹوٹنے والی مصیبت کا درد ذرا فزوں تر لگتا ہے۔ ابتدائی اطلاعات کے مطابق، حملہ آور اکثر نوجوان اور ڈھاکہ کے اسی محلے میں واقع ایک منہگے، انگریزی ذریعہ تعلیم والے تعلیمی ادارے کے سابق طلبہ، چنانچہ جدید تعلیم سے بہرہ ور اور کھاتے پیتے گھرانوں کے چشم و چراغ تھے۔ حملے کا ہدف بننے والوں میں اکثر غیر ملکی تھے جو مختلف امدادی اداروں میں کام کرتے تھے۔

اپنی پیشہ ورانہ ذمہ واریوں، بنگلہ بولی اور تحریر میں معمولی سدھ بدھ، اور اس سے بڑھ کر اہل بنگلہ دیش کی عمومی وسیع القلبی کی بدولت اس خادم کو ملک کے طول و عرض میں بلا مبالغہ ہزاروں لوگوں سے بات چیت کا موقع ملا۔ اس خداداد موقع کے ہاتھ آنے سے بہت سی غلط فہمیوں کا ازالہ ہوا اور اہل بنگلہ دیش کے عمومی سماجی و سیاسی رویے کا اجمالی سا اندازہ ہوا۔ پاکستان اور پاکستان کے ساتھ اس قوم کے سابق تعلق کے بارے میں جن چشم کشا تاثرات سے آگاہی ہوئی، ان کے بیان کے لئے تو ایک دفتر چاہیے ہو گا۔ سر دست مذکورہ بالا متشدد رجحانات کے حوالے سے مختصراً کچھ عرض کرنا مقصود ہے۔

احباب واقف ہیں کہ بنگلہ دیش کی تحریک آزادی خالصتاً سیکولر اقدار کے بل بوتے پر لڑی گئی ۔ اکثر اہل بنگلہ دیش کے تاثر کے مطابق مغربی پاکستان، خصوصا پنجاب سے تعلق رکھنے والے بالا دست طبقات نے انہیں مطیع رکھنے کے لئے مذہب کے نعرے کو خوب استعمال کیا، لہذا وہاں مذہبی سیاست کے بارے میں کئی وسیع، اہم اور مقتدر حلقوں میں یک گونہ ناگواری یا کم از کم تشکیک فراواں ہے۔ اس کے باوجود یہ امر بھی حقیقت ہے کہ کم از کم انفرادی، روحانی اور کچھ حد تک سماجی سطح پر، اس مسلم اکثریتی ملک میں مذہب کی پرچھائیں بہت گہری ہے۔ دنیا کا سب سے بڑا تبلیغی اجتماع ڈھاکہ کے قریب واقع ٹونگی نامی قصبے میں ہوتا ہے جس میں لاکھوں لوگ شرکت کرتے ہیں۔ لا محالہ، تمام مسلم آبادیوں کے مانند، بنگلہ دیش کے بھی کچھ حلقوں میں ’اسلامی‘ سیاست سے وابستگی پائی جاتی ہے جس کا اظہار انتخابات میں ان کے چند نشستیں حاصل کر پانے میں ہوتا ہے۔ فی الحال ’اسلامی‘ سیاست کی صیابت، یا اس کی اصل سے بحث نہیں ہے، بس یہ توجہ دلانا مقصود ہے کہ بنگلہ دیش میں آبادی کا کچھ حصہ اس طرز سیاست میں یقین رکھتا ہے اور اس کا انکار کرنا، پشتو محاورے کے مصداق، سورج کو انگلی سے چھپانے جیسا لا حاصل ہے۔

’اسلامی‘ سیاست کی علمبردار جماعتوں میں سب سے نمایاں ’جماعت اسلامی بنگلہ دیش‘ ہے جو مولانا مودودی کی سیاسی فکر اور فہم دین کی مؤید ہے، مگر اس کے ساتھ ساتھ اپنے منشور کے مطابق بنگلہ دیش کی سالمیت اور آزادی پر بھی یقین رکھتی ہے۔ بارہا منتخب ہونے والے اس جماعت کے ارکان پارلیمان، اپنے ملک سے وفاداری کا حلف اٹھا چکے ہیں اور اہم سیاسی عہدوں پر بھی فائز رہ چکے ہیں۔ گزشتہ عشرے کی ابتدا سے اب تک بنگلہ دیش میں ’عوامی لیگ‘ بر سر اقتدار ہے۔ اندرونی سیاسی حرکیات کے زیر اثر، ’عوامی لیگ‘ مدت سے اپنے حامیوں سے یہ وعدہ کرتی آئی ہے کہ وہ موقع ملنے پر، جنگ آزادی کے دوران ’جنگی جرائم‘ کے مرتکب ہونے والوں پر مقدمہ چلا کر انہیں سزا دے گی۔ اس بار ایوان اقتدار میں پاؤں مضبوط کر کے عوامی لیگ نے اس وعدے کو عملی جامہ پہنانے کا ڈول ڈالا اور ’جنگی جرائم کا بین الاقوامی ٹریبونل‘ قائم کیا۔ روز اول سے ہی اس عمل کی قانونی، اخلاقی اور افادی حیثیت پر مختلف حلقوں کی جانب سے انگلیاں اٹھائی جا رہی ہیں اور غیر جانبدار حلقوں کی نظر میں یہ سارا عمل غیر شفاف، اور سیاسی انتقام کا ایک حربہ ہونے کے سوا کچھ نہیں۔

اس مقدمے کی قانونی اور اخلاقی حیثیت سے قطع نظر، عملی طور پر اس کا تمام تر زور بنگلہ دیش میں ’اسلامی‘ سیاست کے علمبرداروں کو بالعموم، اور ’جماعت اسلامی بنگلہ دیش‘ کو بالخصوص، دیوار سے لگانے پر رہا ہے۔ اس خادم سمیت بہت سے لوگوں کو سیاست میں مذہب کے عمل دخل اور اس باب میں جماعت اسلامی کے طرز فکر سے گہرا اختلاف ہے، مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ بہت سے لوگ، بنگلہ دیش سمیت کئی ممالک میں ’اسلامی‘ سیاست کے حلقہ بگوش ہیں اور ایک جمہوری بند و بست میں انہیں یہ وابستگی رکھنے اور اس کے مطابق، آئینی و قانونی دائرے کے اندر، سیاسی عمل میں حصہ لینے کا حق حاصل ہے۔ اس خادم کو ’جماعت اسلامی بنگلہ دیش‘ کا اپنے ملک کے سیاسی بند و بست پر سوال اٹھانے کا حق اتنا ہی عزیز ہے جتنا کہ اپنے ملک میں سیکولر حلقوں کے لئے یہی حق۔

اس نظریاتی نکتے کے علاوہ اس معاملے کا ایک افادی پہلو بھی ہے۔ جب قانونی طرز سیاست کی علمبردار جماعتوں کا آئینی طریقوں سے، اپنے پسندیدہ نظام کے نفاذ کے لئے آئینی جد وجہد کرنے کا حق سلب کر لیا جاے، تو اس کے بعد یہ فرض کر لینا نہ صرف غلط بلکہ خطرناک حد تک احمقانہ ہوگا کہ معاشرے میں اس مخصوص نظریے کے حامی بھی ناپید ہو چکے ہیں۔ الٹا اس کا بدیہی نتیجہ یہ نکلے گا کہ مذکورہ نظریے کے وابستگان میں آئینی طرز سیاست اور مکالمے کی روایت سے مایوسی پیدا ہو گی۔ ایسے میں آئین، مکالمے اور باہمی برداشت سے بیزار اور جبر و تشدد کے قائل گروہوں کی بن آے گی۔ بلکہ نوجوانوں کو بہکانے کے لئے ’مظلومیت‘ کا کارڈ بھی ان کے ہاتھ آ جاے گا۔ ایسے میں کہ اس قسم کے گروہوں کو اگر اندرون یا بیرون ملک سے مادی وسائل کی کمک بھی میسر ہو، تو پھر تشدد کے سرطان کا پھیلاؤ فزوں تر ہی ہوگا۔ دوست جانتے ہوں گے کہ روایتی علماء اکثر و بیشتر جماعت اسلامی سے غیر متفق اور اس کے ناقد رہے ہیں اور اس جماعت کا حلقہ اثر زیادہ تر جدید تعلیم یافتہ، درمیانے طبقے کے افراد پر مشتمل رہا ہے۔ ڈھاکہ میں پیش آنے والے خونیں واقعے میں اس طبقے سے تعلق رکھنے والے نوجوانوں کی مبینہ شرکت بنگلہ دیش کے مقتدر حلقوں کے لئے لمحۂ فکریہ ہونی چاہئے اور جائز اور آئینی اختلاف رائے کو جبر سے دبانے کے طرز عمل پر نظر ثانی کا باعث ہو تو مناسب ہو گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments