حامد میر اور جھکی جھکی نگاہیں


سچ کہنا اور سچی بات کرنا واقعی بہت اچھی بات ہے اور سچ کا سامنا کرنا اس سے بھی اچھی بات۔کیا واقعی ہر سچ کا پرچار کرنے والا سچ کا سامنا کرنے کی ہمت رکھتا ہے؟ میر صاحب آپ بھی تیس سالہ غلاظت کا سارا بوجھ پی ٹی آئ کی حکومت پر ڈالنے کی کوشش نہیں کر رہے؟ آپکا موقف بہت واضح ہے مگر کیا یہ موقف ان تمام قارئین نے اسی طرح سمجھ لیا ہے جس طرح سے آپ نے بیان کیا ہے یا اب یہ نکتہ نظر دو دو لائنوں میں اور اقتباسات کے ساتھ کسی اور ہی مقاصد کے لئے استعمال ہو گا۔کیا یہ کالم ملک میں پھیلتی فوج کے خلاف نفرت کو ہوا دیتا دکھائ نہیں دیتا چاہے آپکا مقصد اس سے سچائی کی آواز بلند کرنا ہی کیوں نہ ہو؟ کیا یہ کالم اپنے اندر واضح طور پر ن لیگ کی وکالت کرتا اور پی ٹی آئ کی ہجو نہیں کرتا؟ اور اگر آپ کا خیال ہے کہ آپکے سامنے ایسا کوئ مقصد نہیں تو آپ جیسا بڑا صحافی یہ ضرور جانتا ہو گا کہ اسکے “ٹوٹے “ہزاروں لوگوں کو بجا طور پر اس معانی کا پراپیگنڈہ کرنے میں مدد دیں گے جو بجا طور پر آپ کا مطمع نظر نہ تھا۔
جنرل اسلم بیگ اور اسد درانی کو سزا دلانے کی خواہش میں آپ یہ ذکر کرنا بھول گئے کہ آج سے پچیس سال پہلے پیسے لیکر قومی خدمات سر انجام دینے والے اس میں شریک جرم تھے۔جنہوں نے رقوم لیکر پارٹیاں بنائیں،پھر حکومتیں کیں وہ بھی اس کے ثمرات میں برابر کے شریک تھے۔پھر دو ہزار بارہ کے بعد وہ فایدہ اٹھانے والی قوتیں حکومت کر کے جا بھی چکیں اپنی ان تمام قومی خدمات کے ساتھ جن کی قیمت دن رات اندھیروں میں رہنے والی قوم ،پانی اور وقت پر پکی روٹی کو ترستی قوم نے چکائ ہے۔کتنی بار سچائی کا راگ الاپتے صحافت کے بڑے سورماؤں نے اصغر خان کیس پر کارروائی کا مطالبہ کیا اور کارروائی نہ ہونے کی صورت میں انصاف نہ ہونے کا واویلا کیا؟لیکن ایک ایسی حکومت کے آتے ہی آپ نے بار ندامت ان کے سر جڑ دیا جنکا اس کرپشن میں کوئی ذکر نہ تھا۔ پچھلے دس سال کیا ایف آئی اے اس وقت کی حکومت کے ماتحت نہیں تھا؟ پھر واضح طور پر عوام کو یہ تاثر دینا کہ یہ محض عمران خان کے ماتحت ہے اور اس سے پہلے کسی بھی حکومت کا اس پر کوئ اختیار نہ تھا، کرپشن کے ان تمام سورماؤں کی کرپشن کو سچائی قرار دے کر اور موجودہ حکومت کو انتقامی کاروائیوں میں مصروف قرار دے کر آپ خود اپنے بیان سے ان کو شہ اور تقویت نہیں دے رہے؟کیا یہ محض اتفاق ہے کہ اتنے بڑے کالم میں آپ نے ن لیگ کے ہر قصور سے صرف نظر کیا ہے یا پھر دو پارٹیوں کی ہجو کرتے آپ غلطی سے تیسری کا ذکر بھول گئے؟

میر صاحب ہم وہ نسل ہیں جن کے شعور کا سفر جیو کے سفر کے ساتھ شروع ہوا اور اچھائی یا برائی کے پیمانے ہم نے جیو کے کیپیٹل ٹاک اور کامران خان سے سیکھنے شروع کئے۔اور یقین کیجئے کہ جب بھی آپ نے کسی بھی لٹیرے کو “بہت ہی اچھی شخصیت کے مالک اور شریف النفس”انسان کہہ کر مخاطب کیا ہم نے اس پر من و عن یقین کیا۔ یہ بہت بعد میں جانا کہ یہ تو صرف ان پروگرامز کا پروٹوکول ہے کہ کہ سامنے چاہے لٹیرا،غاصب اور دنیا کا سب سے رزیل ترین فرد بیٹھا ہو اسے انہیں الفاظ سے مخاطب کیا جائے گا۔اور ملک کے طول و عرض میں پھیلے کتنے ہزاروں لاکھوں لوگ محدود سوچ اور علم کے باعث صرف آپ کے الفاظ پر آمین کہیں گے اور اس پر ایمان لے آئیں گے۔آپ ضرور اپنے الفاظ کی طاقت سے بے خبر تو نہیں تو پھر اس طاقت کے استعمال میں ایسی لاپرواہی کیوں؟ کسی بھی صحافی سے اسکی طاقت کے ناجائز استعمال پر کتنی بار مواخذہ ہوا؟ صرف کچھ ٹی وی پر بیٹھے صحافت کے سورماؤں کی وجہ سے ساری دنیا کالے کو گورا سمجھنے لگتی ہے،اور میٹھے کو زہر، تو کیا عوام الناس کو یہ یقین دلایے جانے والوں کے خلاف بھی کوئی سچ میدان میں نہیں اترنا چاہیے؟

کیا پچھلے تیس سال میں ان پیسے لیکر قومی خدمات سر انجام دینے والوں نے ان پیسے دینے والوں کو مضبوط نہیں کیا؟ کیا نااہل، بے ایمان حکومتوں نے خود اپنی جھولی کے اختیارات اپنے مفاد کی خاطر تھالی میں رکھ کر طاقت کے ان داتاوں کو تقویت نہیں دی؟ کیوں پچھلے تیس سال کی حکومتوں نے سفید ہاتھی کو نکال نہیں ڈالی؟ اس لئے کہ انکے پاس امانت، دیانت، کردار اور خلوص نیت اور قابلیت نہ تھی۔ اور جب ان سب کے ہوتے وہ ملک کو لوٹتے کھسوٹتے اقتدار پر براجمان رہے تو پردے کے پیچھے کی جانے والی ساری مفاہمتوں کے ذمہ دار بھی تھے اور شریک جرم بھی۔ تو پھر جرم صرف اسد درانی اور جنرل اسلم بیگ کا ہی کیوں؟ پھر ہمیشہ جمہوریت اور حکومت ہی مظلوم کیوں اور فوج ہی بدنام کیوں؟آپ نے صحیح کہا کہ احتساب سب کا ہونا چاہیے اور سزائیں سب کو ملنی چاہیں۔مگر اسکا کچھ بوجھ تو پچھلی دو حکومتوں پر بھی لادیں جنکی جھولی میں ان وارداتوں کے ثمر بھی گئے اور جن کے دور حکومت میں مقدمات بھی کھڈے لائن لگے رہے ۔ ہمیں آج کے پاکستان میں کچھ ایسے بھی لوگ چاہیں جنکے سچ کو ہم آدھا ادھورا سچ نہ کہہ سکیں جنکی بات پر کم دیکھنے اور کم سمجھنے والی عوام بند آنکھوں سے آمین بھی کہے اور محفوظ بھی رہے۔صحافت میں بھی ہمیں کچھ ایسے سورماؤں کی ضرورت ہے جو سچ کی آواز محض تب نہ اٹھائیں جب چوٹ انکو لگے یا ان کے ذاتی مفادات کو ٹھیس لگے ۔ سچ کا پرچار ضرور کریں مگر سچ کو صرف اپنی غرض اور مفاد کی خاطر استعمال کرنا بھی ایک جھوٹ ہی تو ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).