ہوا کے ہاتھ پہ لکھی کہانی


وہ اتنی معصوم تھی، یا وقت کے اپنے بے رحم تھپیڑوں نے اس سے جذبوں کا اظہار اور رد و قبول کا سلیقہ چھین لیا تھا، لیکن اس کی ہر ادا ساحرانہ اور ہر انداز قاتلانہ تھا، معصوم سی مسکراہٹ، بے نیازی کا سا انداز، میک اپ سے عاری سانولی سی رنگت کے پر کشش خدو خال، سلیقے سے ترشے ناخن اور فیشن کے تقاضوں سے بے نیاز اکثر قمیض پاجامہ، اس پہ ستم اس کا بولنے کا رنگ ڈھنگ، پوری یونیورسٹی رشک و حسد میں چلی گئی، لڑکوں کی آپس کی رقابتیں اور لڑکیوں کے حاسدانہ جملوں سے بے پروا وہ اپنے کام سے کام رکھے اور اپنی تعلیم سے وابستہ آگے بڑھ رہی تھی۔

وہ یونیورسٹی کی پوزیشن ہولڈر تو نہ تھی لیکن پھر بھی اس کے تعلیمی اطوار سے پڑھاکو لڑکے و لڑکیاں بِدک گئے، ان سب چاہتوں کو رقابتوں میں ڈھلتے دیکھنے کے باوجود اس نے کسی کو پذیرائی نہ بخشی اور نہ اپنے وقار پہ حرف آنے دیا۔ وہ شاید بزدل سماج میں غیرت کے مظاہرے کے انجام سے ناواقف تھی، ان رال ٹپکاتے ہوؤں میں یونیورسٹی کے بوڑھے عاشق اور دولت مند گھرانوں کے زیادہ سے زیادہ شکار پھانس کر اپنا سٹیٹس شو کرنے والے لاڈلے سرِ فہرست تھے، جب اس کی گڈ بک میں کوئی بھی نام انٹری نہ پا سکا تو مردانہ ہوس اپنی انا کی تسکین کے لیے بے رحمی و سفاکی پر اُتر آئی۔

انتقام کی سلگتی یہ آگ ایک دن سچ مچ آلاؤ بن گئی ایک شب جب وہ ہاسٹل کی جانب آرہی تھی، بھیڑیوں کا ایک غول اندھیرے سے نکلا اور پھر فضا میں دم توڑتی چیخیں لمحے کو اُبھریں اور تحلیل ہوگئیں۔ صبح ہاسٹل کے راستے پہ اس ذرا سے ویرانے میں بکھرے کٹے پھٹے وجود کی کسی راہگیر نے زمانے کو خبر دی۔ پھر کیا تھا اک قیامت بپا ہوگئی، سب پارسا ظالموں پہ لعنت ملامت کرتے سڑکوں پہ نکل آئے اس شدید عوامی رد عمل نے حکومت کو ہلا کر رکھ دیا۔

اور اس احتجاج کا کریڈٹ اس شخص کو دیا جا رہا تھا جس نے مقتولہ کی پہلی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل کی اور پھر دیوانہ وار ظالموں کے خلاف میدان میں نکل گیا اور خلقتِ شہر فوراً پیچھے چل پڑی لیکن۔ یہاں تاریخ خود کو دہرا رہی تھی سانحے کی شب بھیڑیوں کے غول کے ساتھ جھپٹنے والے گروہ کا سرغنہ ہی اب اپنے اِس شکار کے لیے انصاف مانگنے نکلا تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).