ادبی منظر نامہ 2018



ایک ایسا وقت جب یہ شور وغوغا بلند ہوکہ ادب پھل پھول نہیں رہا ، اُردو ادب اپنی موت مر رہا ہے ۔ کتاب کلچر کو نیٹ کی دنیا نے بُری طرح نگل لیا ہے۔ دنیا جو ایک بالکل نئی کروٹ لے چکی ان گزشتہ دو دودہائیوں میں ، نئے انداز اور رویے ہمارےدروازوں پر دستک دے رہے ہیں بلکہ دستک دے کر ہماری زندگی کا حصہ بن چکے ہیں۔ وہاں ان سوالوں کو اور آج کے ادب کو دیکھنے اور اس پہ بات کرنے کی پہلے سے زیادہ ضرورت ہے۔ اس بات پر غور کرنے کی اور ان مفروضوکو غلط ثابت کرنے کی کہ کیا واقعی اردو زبان زوال پزیر ہے۔

کیا اردو ادب تخلیق نہیں ہو رہا ، ایسا ادب جو بین الاقوامی ادب کا مقابلہ کر سکے۔ کیا کتاب کلچر ہمارے بیچ سےغائب ہو چکا ہے؟ کتاب کی جگہ واقعی نیٹ اور سوشل میڈیا لے چکا ؟

ان سوالوں کا جواب ڈھونڈنا ناگزیر اس لئے بھی ہو جاتا ہے کہ نئی صدی کے دوسری دہائی اختتام پذیر ہے اور یہ گزشتہ بیس تیس برس ایک مکمل بدلے ہوئے اور نئے سماج کے دعویدار ہیں جہاں سیاست ہماری جزباتی دنیا میں بری طرح مدخیل ہو چکی۔ عام شخص کا سیاسی شعور مزید بالغ ہو چکا ہےا ور جہاں بہت سے نئے مسائل ، موضوعات بن کر انسانی نوع کے سامنے ایک بڑے سوال کی صورت کھڑے ہیں۔

اردو زبان کا شمار برصغیر کی اہم زبانوں کی ایک خاص لڑی میں ہوتا ہے ، ایک ایسی زبان جس کے پڑھنے اور بولنے والے دنیاکے ہر خطے میں موجود ہیں۔ جو سرزمین پاکستان کی قومی زبان ہے جب کہ یہ ہندوسان میں جنم لینے والی ایک بڑی آبادی میں بولی اور سمجھی جاتی ہے ۔ہندوستان سے اردو ادب میں مسلسل حصہ بھی ڈالا جا رہاہے لیکن اس کے باوجود اردو ادب زوال پذیر ہے کا سلوگن کیوں گردش عام ہے؟

ان حالات میں اس سوال کی معنی خیزی نہ صرف ادب کے لکھاری کے لئے بڑھ جاتی ہے بلکہ قاری بھی اس سوال کو پوچھنے میں حق بجانب ہے۔ پاکستان اور ہندوستان کے ہر دور کا سماج ایک گھٹن، انتشار اور شدت پسندانہ رویوں کا ثمر کاٹ رہا ہے۔ پاکستان میں غیر مستحکم جمہوری اقدار، اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت جو کہ کبھی مخلتف اداروں کے مارشل لاء جیسی صورتحال اختیار کر لیتی ہے اور ہندوستان میں شدت پسند متشددہندو سیاست جو اردو کو لگاتار ایک اقلیت کی زبان بنا رہی ہے ، اردو کو بنگال میں دھکیلا جا رہا ہے۔ یہ وہ مسائل ، چیلینجز اور سوال ہیں جو اردو ادیب کو درپیش ہیں اور جن کو جواب ڈھونڈنے میں ہی شاید اس کا حل بھی پنہاں ہے۔

یہ ایک ایسا عہد ہے جہاں پاکستان سقوط ڈھاکہ جیسے سانحہ کے بعد مارشل لاء کے جبر اور پھر اپنی سرحدوں سے داخل ہو کر شہر مدخیل جنگ سے نبرد آزما رہا ہے،سانحہ آرمی پبلک سکول پشاور ابھی اتنا تازہ ہے کہ زخموں سے لہو رستا ہے۔

یہ ہے ہمارے آج کا منظر نامہ جو ادب اور ادیب کے لئے چیلینج کی مانند کھڑا ہے اور سوال پوچھتا ہے کہ کیا آج کا ادیب اس سے نبرد آزما ہونے کے لئے تیار ہے ؟ اگر ہمارے پاس اس سوال کا کوئی واضع جواب ہے تو یقینا ہم باقی سوالوں اور مسائل کی جانب مثبت پیش رفت کے قابل ہوں گے۔ یہ سوال اپنی جگہ ہیں مگر کتاب اور ادبی جرائد کا تسلسل، اس کی اشاعت، اس کا تذکرہ ناگزیر ہی نہیں ہے بلکہ خوش آئند بھی ہے اور اس دعوے کی نفی بھی کہ ادب زوال پذیر ہے اور ناپید ہو رہا ہے۔

2018ء جو کہ اب ہمیشہ کے لئے مہمان ہوا چاہتا ہے اس کے حوالے سے گر گتب و جراید کا جائزہ لیا جائے تو ہمارے پاس کہنے کو بہت کچھ ہے اور صورتحال یقینا خوش آئند اور امید افزا ہے۔قرۃالعین حیدر کہتی ہیں ” پتھر وقت کی منجمد صورت ہیں۔” اور گر یہی بات کسی اچھی کتاب کے بارے میں کہی جائے تو کچھ غلط نہیں۔ اس سال ایسی بہت سی کتابیں آئیں، ایسا بہت کام ہوا جو نہ صرف قابل ذکر ہے بلکہ اسے اردو ادب میں ایک گراں قدر اضافہ سمجھا جائے گا۔

سب سے پہلا تذکرہ محترم مستنصر حسین تارڑ کے ناول “منطق الطیر ، جدید” کا ہے ۔ تارڑ صاحب کے ناول کے کچھ اختصاصات ہیں جن میں پرندے سرفہرست ہیں ۔ فرید الدین عطار کے یہ پرندے مستنصر حسین تارڑ کی باطنی دنیا میں ہی نہیں پھرپھڑاتے بلکہ یہ پرندے ان کی ادبی کائنات میں بھی پرواز کرتے ملتے ہیں۔ یہ پرندے “خس و خاشاک زمانے” میں بھی منسوب ٹھہرتے ہیں۔ یہ تارڑ کے ساتھ محو پرواز رہتے ہیں۔ ایسا ناول لکھنے کی ہمت مستنصر حسین تارڑ جیسا کہنہ مشق ادیب ہی کر سکتا تھاجس کے ساتھ مطالعہ کی کثرت ہم رکاب ہے وہ چاہے سفر کی صورت ہو یا کتاب کی۔ تارڑ ہر صورت مطالعہ کے خوگر ہیں اور یہی ان کی تحریر کو ایک لازوال چاشنی عطا کرتی ہے ۔ انہوں نے ان گزشتہ دو سے تین دہائیوں میں اردو ادب کو بلا مبالغہ ایسے بڑے ناولز سے نوازا جس کو اہم عالمی ادب کے سامنے فخر سے رکھ سکتے ہیں ۔ اس میں بہاؤ، راکھ ، اے غزال شب، اور خس و خاشاک زمانے اور قربت مرگ میں محبت جیسے بڑے ناول شامل ہیں۔

خالد فتح محمد بھی ان ناموں میں شامل ہیں جنہوں نے اردو ادب میں معتبر اضافہ کیا ہے ۔ ان کا اسلوب سادہ اور دلنشین ہے بغیر کسی الجھاؤ کے وہ اپنی سوچ قاری تک پہنچا دیتے ہیں ۔” شہر مدفون” اور خلیج کے بعد ان کا تازہ ناول سانپ سے زیادہ سراب آیا ہے۔

محمد الیاس بھی ان معتبر ناموں میں شامل ہیں جنہوں نے گزشتہ دو دہائیوں میں اردو ادب میں گراں قدر اضاٖفہ کیا ہے ۔ متعدد افسانوی مجموعے اورناول ان کے کریڈت پہ ہیں۔ کہر ، برف ، بارش ، پروا اور دھوپ جیسے بڑے ناول وہ اردو ادب کو دے چکے ہیں اور امسال ان کا ناول عقوبت امید ہے کہ اشاعت ہو کر سامنے آجائے گا۔ جس میں ان کے دو ناولٹ شامل ہیں۔

اختر رضا سلیمی بھی ایک اہم ناول نگار کی صورت ابھر کر سامنے آئے ہیں۔ گزشتہ برس ان کے پہلے ناول جاگے ہیں خواب میں شائع ہوا جب کہ دوسرا ناول جندر بھی شامل اشاعت ہوا۔ اس سال ان کے دو ناولوں کا خوب تذکرہ رہا۔ ہزارہ کے پس منظر میں لکھے گئے یہ دونوں ناولز یقینا ایک گراں قدر اضافہ ہیں۔

سید کاشف رضا کا ناول چار درویش اور ایک کچھوا اس برس کا ایک اہم اور عمدہ ناول ہے۔ ناول کا بیانیہ آغاز میں دئے ژاں بور دیاغ کے اس بیان کی بہترین مثال ہے کہ آج کا فن حقیقت میں مکمل طور پر گھس گھسا چکا ہےا ور دوسرے باب کے آغاز میں ژاں بور دیاغ کا کہنا ہے کہ اول تو یوں کہ فن بنیادی حقیقت کا عکس ہے اور ناول پڑھتے ہوئے یہ گمان ہوتا ہے کہ اس کا بیانیہ حقیقت میں گھس گھسا چکا ہے یا کسی حقیقت کا عکس ہے۔ پاکستان کی سیاست کا ایک باب بے نظیر کی شہادت اور طالبان کی کاشت کاری ایسے موضوعات کی عکس بندی مصنف نے کچھ ایسے کی ہے کہ گویا کوئی فلم سامنے چل رہی ہے جس مین مصنف خود کسی کچھوے کے خول میں جا چھپا ہے۔سید کاشف رضا ایک عمدہ ناول نگار کے صورت میں سامنے آتے ہیں۔

آمنہ مفتی کا ناول پانی مر رہا ہے بھی قابل تذکرہ ہے۔ گو یہ ناول زیر مطالعہ نہیں رہا ۔وہ ایک عمدہ لکھاری اور ڈرامہ رائٹر ہے۔ فارس مغل بھی ایک تیز رفتار لکھاری ہیں اور یکے بعد دیگرے ان کے دو ناول سامنے آئے ہیں۔ ہم جان ان کا پہلا ناول تھا اور اس برس ان کا دوسرا ناول سو سال وفا سامنے آیا ہے۔ سو سال وفا بلوچستان جو ایک سلگتا ہوا حساس صوبہ ہے اور ایک ایسا مسئلہ جس پر بات کی بہت ضرورت ہے ، اسی حساسیت کے پس منظر میں لکھا گیا ہے ۔ یہ ایک سیاسی اور رومانوی ناول ہے ۔ ایک حساس اور سنجیدہ موضوع کو ایک محبت کی کہانی کی صورت میں پیش کیا گیا ہے اور وہ اپنی سوچ کے ابلاغ میں کامیاب رہا ہے۔ فارس کے ہاں رومان کی چاشنی اس قدر زیادہ ہے کہ وہ بیک وقت اس کی تحریر کی خوبی بھی بنتی ہے اور خامی بھی ٹھہرتی ہے۔ اس کے پاس وہ تمام لوازم ہیں جو ایک شہ پارہ تخلیق کر سکتے ہیں۔ کردار نگاری ، وسیع مطالعہ، عمدہ کردار نگاری و منظرنگاری دل پر براہ راست دستک دیتے جملے ، کہانی کو سلیقے سے بیان کرنے کے سبھاؤ مگریہ اس کے کرداروں اور کہانی کی ٹریٹمنٹ ہے کہ ناول ایک رومانوی اور سماجی ناول بن جاتا ہے ۔ یہی طریق اس کے گزشتہ ناول ہمجان میں بھی نظر آتا ہے۔ یہ وقت فارس مغل جیسے اچھے لکھاری کےلئے سنبھل کر لکھنے کا ہے کہ اردو ادب کو ا س سے بہت سی امیدیں وابسطہ ہیں۔

محترم مشرف عالم ذوقی افسانے اور ناول کی دنیا کا وہ اہم نام ہے جو اب اساتذہ میں شمار ہوتے ہیں ۔گزشتہ دو دہائیوں میں وہ معاشرتی سلگتے مسائل اور عالمی و سماجی بدلاؤ کو اپنے ناولز کا موضوع بناتے رہے ہیں۔ اس برس ان کی

ایک ہی تسلسل میں پانچ طویل کہانیاں ، ہندوستان کےسیاسی پس منظر اور گھٹن کی بہترین عکاس رہیں جب کہ یہ کہانیاں اب ایک افسانوی مجموعے کی صورت کتابی شکل دھار چکی ہیں۔

ڈاکٹر ناصر عباس نئیر جو ایک معتبر ادبی نقاد ہیں کا افسانوی مجموعہ راکھ سے لکھی کی کتاب اس سال کا قابل قدر اضافہ ہے۔

امین بھایانی کا یہ دوسرا افسانوی مجموعہ بے چین شہر کی پر سکون لڑکی ہےجو سامنے آیا ہے۔ محترم حمید شاہد کی رائے فلیپ پر شامل ہے ۔ امین بھایانی کے افسانوں کا مطالعہ کرتے ہوئے یہ احساس ہوتا ہے کہ وہ ایک درد مند اور حساس لکھاری ہیں اور اصلاح معاشرہ کے جزبے سے مغلوب ہیں اور یہی ان کے قلم کی تحریک ہے۔ اس مجموعے کا ایک قابل ذکر افسانہ نفرت سے محبت 2025ء ہے۔ ہندوستان و پاکستان کی سیاست ، مسئلہ کشمیر اور مابین جنگوں کے پس منظر میں یہ امین ھایانی کا ایک عمدہ افسانہ ہے۔

سید ماجد شاہ کے افسانوی مجموعے ق کے بعد ان کا دوسرا مجموعہ ر،ہے جو ان کے مختصر افسانوں و افسانچوں پہ مشتمل ہے۔

سبین علی نوجوان لکھاریوں میں ایک عمدہ اضافہ اور اہم نام ہیں مختلف اور اہم موضوعات پر قلم اٹھاتی ہیں ۔ صاحب مطالعہ اور عمدہ تنقیدی فکر رکھتی ہیں۔ ان کا افسانوی مجموعہ گل معلوب حال ہی میں منظر عام پا آیا امید کی جانی چاہئے اردو ادب میں یہ ایک اہم اضافہ ثابت ہو گا۔

جواد حسنین بشیر جواد جو اب مسافر کے قلمی نام سے لکھتے ہیں کے یکے بعد دیگرے دو افسانوی مجموعے آئے ہیں ۔ پہلا مجموعہ سفر ناتمام تھا اور اس برس دوسرا مجموعہ ہاتھ ملاتا دریا اور مقدس بیٹی منظر عام پر آیا۔ جو ایک جرت آمیز افسانہ نگار ہیں اورنئے موضوعات پہ لکھنے کے خوگر ۔روایتی موضوعات کے علاوہ جدید موضوعات و مسائل پر بھی ان کی گہری نظر ہے ۔ امید ہے کہ وہ آنے والے وقتوں میں اہم افسانہ نگار ثابت ہوں گے۔

اگر اس برس ادبی جرائد کی جانب نگاہ ڈالی جائے اور ایسےدور میں کہ یہ سودا محض دیوانگی کا ہے ، اردو جرائد جن کو نہ اشتہارات تک رسائی ہے نہ سرکاری سرپرستی حاصل اور نہ ہی مارکیٹ تک یہ پہنچ پاتے ہیں ان تمام تر مسائل کے باوجود ادبی جراید علم و ادب کی شمع روشن رکھے ہوئے ہیں۔

ادبی جرائد کی بات آئے تو صف اول میں بہت سےجرائد آن بان سے کھڑے ہیں۔ لوح،مکالمہ، اجرا ، سویرا، چہار سو ، نقاط اور تسطیر یہ رسالے اپنے عمدہ معیار کو برقرار رکھے ہوئے ہیں۔

لوح نے بہت جلد خود کو صف اول میں شامل کیا ہے۔ لوح کا افسانہ نمبر اس دہائی کا ہی نہیں آنے والی دہائیوں کا بھی ایک قابل فخر کارنامہ ہے جس کا ذکر آنے والے وقتوں میں ہوتا رہے گا اور ہر شمارے میں ایک خصوصی گوشے کا اہتمام ہر شمارے کو خاص نمبر بناتا ہے۔ اتنا ضخیم اور معیاری رسالہ نکالنا یقینا محترم ممتاز شیخ صاحب کا قابل فخر کارنامہ ہے۔ مکالمہ مبین مرزا کی ادارت میں نکلنے والا ایک معتبر جریدہ ہے جو اب ماہانہ تسلسل کےساتھ شائع ہو رہا ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).