سالِ نو


ایک تو کل رات سال ہی بدل گیا، پتہ بھی نہی چلا اتنی جلدی
ایک تو وقت کتنی جلدی بدل جاتا ہے
ایک تو میری خواہش بڑی عجیب ہے (خواہش خواہش ہوتی ہے آپ کی ہے تو منفرد ہوگی عجیب کیوں ہوئی؟ )
ہماری خواہش کا ہم خود احترام ہی نہیں کرتے
ایک تو میں بے وقوف بہت ہوں ( یہ الہام کب ہوا تھا؟ )
ایک تو میں بے وقوف ہوں (کب پتا چلا)

ایک تو مجھے کچھ سمجھ نہیں آتا
ایک تو مجھ سے کچھ ہوتا نہیں ہے
ایک تو سب کو میں ہی ملتا ہوں تنگ کرنے کے لئے
ایک تو ہر کوئی مجھے ڈاؤن کرتا ہے
ایک تو زندگی کے خسارے سارے میرے لئے
ایک تو سب مسئلہ میرے ساتھ ہی ہوتے ہیں
ایک تو میں موٹی ہوں موٹا ہوں
ایک تو میں چھوٹی /چھوٹا بہت ہوں
ایک تو میرے پاس پیسے ہی نہیں ہے

اک تو سب کو میں ہی ملتا/ملتی ہو کام کرنے کے لئے
ایک تو میرے ساتھ ہر وقت برا ہوتا ہے
ایک تو کوئی میری سنتا نہیں
ایک میری بیوی / شوہر ایسا ہے
ایک تو میرے بچے توبہ
ایک تو میرا سسرال توبہ
ایک تو سب بے وفا ہیں
ایک تو میرا غم اور تکلیف کوئی سمجھ ہی نہیں سکتا
ایک تو پتہ نہیں میں پیدا کیوں ہوا ہوئی ہوا
زندگی اچھی ہوتی ہے اگر ایک تو بس یہ نہ ہوا ہوتا تو

ایک تو ہم تمام عمرپتہ نہی کس اَن دیکھے خواب ایک تو کی خواہش میں اپنے آج کو برباد کر ڈالتے ہیں کبھی سوچا ہے آج کا وقت ہی نہ ہوتا تو کیا ہوتا اگر ہم ہی نہ ہوتے تو کیا ہوتا ہم ہیں زندگی کی یہ سارے کاروان بھی چلتے رہیں گے زندگی کے مسائل ہماری زندگی کو روک نہیں پاتے ہاں ہم نے ہر بات پہ ہار ماننا سیکھ لیا ہے ہر وقت روتے رہنا ہے رونا ہے اذیت میں مبتلا رہنا ہے اور دوسروں کو اذیت دیتے رہنا اپنا وتیرہ بنالیا ہے۔ اگر اگلی سانس نہ آئی تو پھر کیا کریں گے؟ اس ایک تو والے خواہشوں کے انبار سے اپنے ماضی سے، ایک تو والی غلطی سے نکل کر دیکھئے زندگی بہت خوبصورت ہے۔

دنیا آپ کو کیا دیتی ہے، اس سے زندگی پہ فرق نہی پڑتا، فرق اس بات سے پڑتا ہے کہ اس ملی ہوِئی شہ کو ہم کیسے برتتے ہیں۔ جیسے ایک کہاوت ہے نا، پھینکیے والے آپ کی طرف پتھر پھینکتے ہیں، یہ آپ پہ منصحر ہے آپ دیوار بنا کر ٹکریں ماریں یا پُل بنا کر گزر جائیں۔

پتھر بھی کیا خوب شہ ہے، بنانے والے مورتی بنا لیتے ہیں پوجا کے لیے، جبکہ تراشنے والے کتبہ تراش دیتے ہیں قبروں کاجبکہ موسیکار پتھر میں محبت کا خدا ڈھونڈتے ہیں۔ راہ میں پڑا ہو تو ٹھوکر لگ جائے، ہاتھ میں ہو تو سنگسار کر دے۔ ذرا بلند کھڑے ہوں تو پہاڑ بن جائیں جسے ہمت ولے ایک ٹانگ پہ سر کر لیتے ہیں، اور رونے والے غموں کا پہاڑ بنا لیں۔ توڑنے والے اسے کنکریٹ بنا لیتے ہیں، اور بنانے والے عمارتیں بنا لیتے ہیں پتھر سے۔ جس چاند پہ نیل آرمسٹرنگ کو پتھر نظر آئے، اُسی چاند میں شاعر محبوب دیکھتا ہے۔ بعض دفعہ کہنے والوں کے الفاظ پتھریلے ہوتئے ہیں، اور کبھی کبھار سننے والوں کے کان پتھرا جاتے ہیں۔ سنار پتھر کو زیور میں جڑ دیتا ہے، اور کچھ سینے میں پتھر جڑا لیتے ہیں۔

پتھر کی شکل بدل جانے سے، پتھر کا نام نہی بدلتا، ہاں کام بدل جتا ہے۔ بالکل اسی طرح، پھینکنے والے نے جس بھی نیت سے پھینکا ہو کوئی فرق نہی پڑتا، ہاں ہم اُسے کس استمعال میں لاتے ہیں فرق اِس سے پڑتا ہے۔ ہم انسان بڑی کمزور یادشت رکھتے ہیں۔ تعریفیں بھول جاتے ہیں، نفرتیں یاد رکھتے ہیں۔ جو پتھر کسی نے برسوں پہلے کبھی مارا تھا، وہ روز اُٹھا اُٹھا کر خود کو مارتے ہیں۔ قصور مارنے والے کا نہی ہوتا، قصور ہمارا ہوتا ہے۔ مارنے والے کے پاس جب ہو ہی پتھر تو وہ پھول تو کہاں سے لائے۔ اگر دوسروں کا پھینکا ہوا پتھر، زندگی کا دیا ہوا سبق آپ کو روز زخمی کرتا ہے، اور کر رہا ہے تو سمجھ لیں کمی آپ میں ہے کہ آپ اُس پتھر کو صرف اپنے زخموں کو ہرا رکھنے کے لیے استمعال کرتے ہیں۔ اپنی سوچ بدلیں، آپ بل جایئں گے۔

جیسے ہندسہ بدل جانے سے سال بدل جاتا ہے وہی سال کے تین سو پینسٹھ 365 دن وہی باون 52 ہفتے وہی ہفتے کے سات 7 دن اور وہی دنوں کے چوبیس 24 گھنٹے حتٰی کہ دن کے نام بھی وہی اور تو اور 2018 سے 2019 آٹھ سے نو تک کا سفر نیا تو کچھ بھی نہیں کیونکہ گنتی بھی وہی۔

بقول جون ایلیاء ”نئے اور پرانے سال میں کوئی معنی نہی ہے زمانے میں نہ لمحہ ہیں، نہ ساعتیں، نہ دن ہیں نہ ہفتے، نہ مہینے اور نہ سال“
بس کلینڈر کا ڈیزائن بدل جاتا ہے تو اسی طرح خود کو بدلنا پڑے گا اور سب کچھ بدل جائے گا نہیں تو 2018 کی رات ہنگاموں سے بھرپوراور 2019 کی صبح وہی غم اور تکلیفوں سے بھرپور جو سالوں سا لئے پھرتے ہیں بقول

فارس مغل
تم
سالِ نو کی رات ہو
ہنگامو سے بھرپور
میں اُسی رات کی صبح ہوں
تنہا اور خاموش!

ایک تو میں ایک تو یہ ہے ایک تو یہ مسئلہ کرتے کرتے زندگی گزر جائے گی زندگی آپ کو کیا دے رہی ہے اس سے کبھی فرق نہیں پڑنا چاہیے ہم زندگی کو کیسے گزارتے ہیں ہم کیسے لیتے ہیں زندگی کو یہ چیز ہماری زندگی کو متاثر کرتی ہے۔ جب آپ بدل جاِیں گے تو پھر اُسی پتھر سے آپ اپنا محل بنائیں گے نہ کے اپنے زخم کو ہرا کروائیں گے۔

خود کو بدلیں ایک تو کیا
سب پتھر بدل جائیں گے
سال تو ہر سال بدلتے ہیں
پر خود کوسوچ کو کسی بھی لمحہ بدلا جا سکتا ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).