خوجی نے شیر مارا
رتن ناتھ سرشار کے کلاسیک ناول فسانہ آزاد سے ایک ورق تو آپ پڑھ ہی چکے ہیں۔ تو آج ایک کہانی پڑھتے ہیں اس وقت کی جب دگلے والی پلٹن کے جی دار کمیدان خواجہ بدیع الزماں المعروف بہ میاں خوجی نے افیم پی کر ایک محفل میں شیر کا شکار کیا۔ انہی کی زبانی سنتے ہیں۔
اور ایک بات خوب احتیاط سے نوٹ کر لیں، اگر میاں خوجی کے بنکارنے یا قرولی وغیرہ بھونکنے میں آپ کو عصر حاضر کے کسی شخص کی جھلک نظر آتی ہے، تو یہ آپ کا ظرف نظر ہے۔ آپ کو میاں خوجی میں جس کی مشابہت بھی نظر آئے، وہ آپ کا اپنا فیصلہ ہے اور خاکسار آپ کے حسن نظر سے متفق ہو بھی سکتا ہے اور نہیں بھی۔
ٹھیک ہے کہ آج کل بھی کچھ لوگ نظریاتی ’چنیا بیگم‘ چڑھا کر اپنے تئیں دگلے والی پلٹن کے کمیدان بنے ایسے ہی مست ہاتھی کو تھپڑ مارنے کا قصہ سناتے ہیں، لیکن یہ ان کا اور آپ کا آپس کا معاملہ ہے۔ ہمیں اس سے بھلا کیا علاقہ۔
بھئی قسم ہے خدا کی، جیسے ہی جنگل میں پہنچا ہوں عجب تماشا دیکھا۔ واللہ باللہ ثم باللہ دیکھتا کیا ہوں، کہ ایک شیر ببر دم پھلاتا درخت کے سائے میں کھڑا ڈکار رہا ہے اور ابا جان کی قسم یہ دیکھیے کہ واللہ مجھ سے اور اس سے کوئی چار ہی پانچ قدم کا فاصلہ ہو گا۔ حضرت میری اٹھتی جوانی اور گینڈا بنا ہوا۔ اور بھئی اللہ گواہ ہے کہ میں اپنی طاقت آزمائی بھی کر چکا تھا۔ ایک دفعہ مکنا (مست) ہاتھی کو بڑھ کر طمانچہ مارتا ہوں تو دم دبا کر یہ بھاگا وہ بھاگا۔ میرا زعم بیجا تو تھا ہی نہیں۔
میں نے آؤ دیکھا نہ تاؤ، بس شیر کو ایک دفعہ ہی ڈپٹ دیا۔ ’بھلا بے آگے قدم بڑھایا اور میں نے بھرپور ہاتھ جمایا‘۔ تب تو شیر اور بھی غرایا۔ بس اس پر مجھے بھی غصہ آ گیا۔ پھر تو حضرت قسم ہے جناب باری کی بندہء درگاہ بھی جم گئے۔ اور زناٹے سے ہاتھ تول کر ولایتی [تلوار] کا ہاتھ جو چھوڑا، تو شیر نے تیورا کر منہ موڑا۔
میں نے کہا ’او گیدی، نامعقول، تو شیر ہے کہ بھیڑ ہے‘۔ یہ کہہ کر میں جھپٹ پڑا۔ اور جھپٹتے ہی میاں کی دم جو دبائی تو ہاتھ میں تھی۔ پھر بھاگا۔
میں نے غل مچایا ’ابے او لنڈورے‘۔ واللہ ہے بڑھ کر ایک ہاتھ ولایتی کا دیا، کاسہ سر چیرتی ہوئی پیر کے بر تک پہنچ گئی۔
اتنے میں مجھے خیال آیا ایں، بار خدایا میں مسلح، وہ نہتا، یہ تمغائے شجاعت نہیں۔ معاً خدا گواہ ہے تلوار پھینک کر چمٹ گیا۔ ہاتھوں ہاتھ دستی کھینچی، اور کولے پر لاد کر دھم سے زمین پر دے پٹکا۔ چاروں شانے چت، وہ پچھاڑا۔
تین دفعہ تال ٹھونک، یا علی کہہ کر اٹھا۔ مگر اپنی جان کی قسم، اس وقت داد دینے والا کوئی نہیں ادھر ادھر دیکھا، سناٹا۔ اتنے میں جنگل کے بھورے ریچھ نے آ کر ڈنڈ مل دیے (کہ واہ صاحب، کیا رستم زماں ہیں آپ)۔
- ولایتی بچے بڑے ہو کر کیا بننے کا خواب دیکھتے ہیں؟ - 26/03/2024
- ہم نے غلط ہیرو تراش رکھے ہیں - 25/03/2024
- قصہ ووٹ ڈالنے اور پولیس کے ہاتھوں ایک ووٹر کی پٹائی کا - 08/02/2024
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).