!سرائیکی صوبہ نہیں بن سکتا، مینا کہیں زیادہ مقبول ہے


میں ایک ڈاکیومنٹری بنانے کے سلسلے میں ایک بار ڈی جی خان گیا اور وہاں کے ایک درمیانے درجے کے زمیندار میاں صاحب کا مہان بنا۔ میاں صاحب سرائیکی اور اردو ادب سے بہت شغف رکھتے تھے اور ہر بات کو زبردستی فلسفہ کا رنگ دینے کی کوشش کرتے گو کہ انہیں فلسفہ کی ذرا شد بد نہیں تھے۔ ہمارے ہاں بھی ایسا ہی ہوتا ہے جو جتنی احمقانہ بات کرے اسے اتنا ہی بڑا فلسفی کہہ کر یہ اقرار کر لیا جاتا ہے ہم اس کی یاوہ گوئی کے سامنے ہتھیار پھینک رہے ہیں۔

دوسری بات بزرگوار میں یہ تھی کہ اچھے خاصے کھاتے پیتے گھرانے سے تعلق کے باوجود غریب معتقدوں کو غیر شعوری طور پر یہ احساس دلاتے رہتے تھے کہ وہ سب پنجابی استعمار کے غلام ہیں اور ان کے دکھ اسی استعمار کی وجہ سے ہیں مثلاً کسی نے محفل سے اٹھنے کی کوشش کی تو میاں صاحب بولے، ”کدھاں ویندے ہے جے؟ “ اور وہ صاحب بولے، ”چھوٹی دھی بھکی ہو سی۔ گھر کے شے کو نا۔ ویندا پیاں“ اور میاں صاحب نے ایک دلدوز چیخ نما انداز میں کہا ”ہائے اساں قیدی تخت لہور دے“ اور سب کے دل شدت غم سے ڈوبنے لگے ۔

میں نے پوچھا کہ جناب آپ اپنے چنے ہوئے نمائندوں سے کیوں نہیں پوچھتے کہ جنوبی پنجاب کو صوبہ بنانے میں کیا امر مانع ہے۔ سب نے یک زبان ہو کر مخدوموں، سجادہ نشینوں، گیلانیوں، لغاریوں، مزاریوں، کھوسوں اور گاپانگوں کو برا بھلا کہنا شروع کر دیا۔ جعفر لغاری کا ذکر کرتے ہوئے اس کی بیوی مینا لغاری کا ذکر کرنا کوئی نہیں بھولتا۔ میں ذرا پرانی بات کر رہا ہوں سنا ہے اج کل زرتاج گل ہر دل کی دھڑکن ہیں۔ میرا ذاتی خیال یہ ہے کہ جنوبی پنجاب کے نام پر خوب سیاست چمکے گی کیونکہ الگ صوبہ کا صوبے تو کوئی بھی بنانا نہیں چاہتا اور اگر چاہے گا بھی تو کر نہیں پائے گا کیونکہ پہلی بات تو کوئی اتنے بڑے صوبے پر اپنا اقتدار کم نہیں ہونے دینا چاہتا، دوسری بات نئے صوبے کو دینے کے لیے فنڈز نہیں ہیں اور این ایف سی ایوارڈ پہلے ہی دکھ رہا ہے، تیسری بات یہ کہ ریاست بہاولپور کو سرائیکی وسیب کے ساتھ مفادات کے ٹکراؤ کی صورت میں پیش کیا جائے گا، چوتھی بات یہ کہ سارے بڑے سیاستدان اپنی اپنی پارٹی میں صوبہ پر سیاست کرنے کے لیے تو آواز اٹھا سکتے ہیں لیکن پارٹی لیڈر شپ کے خلاف کھڑے نہیں ہو سکتے۔ پانچویں بات یہ کہ وسیب میں صوبہ کی تڑپ تو چاہے ہو لیکن اس مسئلہ پر کوئی بغاوت وغیرہ نہیں کی جا سکتی۔ اب بلاول بھی آ رہے ہیں جنوبی پنجاب میں اچھل اچھل کر تقریریں کرنے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ جب میں دوسرے لوگوں سے ملا اور بتایا کہ میں میاں صاحب کا مہمان ہوں تو انہوں نے ناک بھوں چڑھا کر کہا کہ، ”اچھا وہ جو سیٹلر ( نو آباد ) ہیں“۔ میں بہت حیران ہوا کہ میاں صاحب کا خاندان تو پچھلے چالیس برس سے ڈی جی خان میں مقیم ہے تو نو آباد کار کیسے ہوگئے۔ بات ذرا لمبی ہو گئی۔ میں نے میاں صاحب سے پوچھا کہ ڈی جی خاں میں کچھ بڑے لوگوں کا بتائیں جن کا انٹرویو ڈاکیومنٹری میں شامل کر سکوں تو میاں صاحب تڑپ کر بولے، ”بڑے لوگ آپ کی نظر میں کون ہوتے ہیں؟ “۔

میں سمجھ گیا میاں صاحب کا خیال ہے کہ میں کسی سیاستدان کا پوچھ رہا ہوں۔ میں نے فوراً جواب دیا، ”بڑے لوگوں سے مراد اپنی علاقائی زبان میں شاعری کرنے والے، کہانیاں لکھنے والوں، موسیقی ترتیب دینے والے“۔ یہ سن کر میاں صاحب کو این گونہ تسکین پہنچی۔ انہوں نے عزیز شاہد سمیت بہت سے لوگوں سے ملاقات کروائی اور ظاہر وہ سب دھرتی سے جڑے، شعر و ادب کے متوالے تھے۔ جنوبی پنجاب نے یا تو ”مجاہدین“ پیدا کیے ہیں اور یا شاعر۔

یہاں آپ کو نظریاتی طور پر شدت پسند مارکسسٹ بھی ملتے ہیں اور انتہا پسند بھی۔ شاعری، افسانہ، ماہیہ، ٹپہ جنوبی پنجاب کے غریب عوام کی تخلیق ہے ورنہ زمیندار ٹائپ لوگ تو کھیتوں میں مزدور کرنے والی عورتوں کو پھانسنے کے چکر میں رہتے ہیں ( یقیناً سب لوگ ایسے نہیں۔ اوروں میں اور طرح کی علتیں ہیں جن کا ذکر یہاں مناسب نہیں)۔ وہ لوگ جو جنوبی پنجاب سے آ کر لاہور یا دوسرے بڑے شہروں میں مقیم ہوئے وہ اپنے کسی بھی سطح پر اکٹھے نہیں اور نہ ہی ان میں جنوبی پنجاب ایک علیحدہ صوبہ بنانے کی تڑپ موجود ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).