ننگا معاشرہ


سعادت حسن منٹو کا افسانہ ہو یا منٹو پر بنی کوئی فلم ہم اس سے دور کیوں بھاگتے ہیں، نظریں کیوں چراتے ہیں؟ کیا یہ ہمارے معاشرے کی عکاسی کرتی ہے؟ کیا ہمارا معاشرہ اتنا پاک ہے کہ ہمیں اب اصلاح کی ضرورت نہیں ہے؟ ہم تو اصلاح کرنے والے کے کردار پر بھی کیچڑ اچھالتے ہیں مگر ایسا کیوں؟ یا جو کچھ ہم کرتے ہیں ہم اسے دیکھنے کا حوصلہ نہیں رکھتے؟ اپنے معاشرے کو ہم بے حیائی کی تصویر کیوں بنا رہے ہیں؟ سب کر کے بھی کب تک خود کو مذہب کی آڑ میں چھپائے رکھیں گے؟ اشرف المخلوقات کا لبادہ اوڑھ کر یوں ہی کب تک ہم اپنے خدا سے نظریں چرائیں گے؟ اب بس بھی کرو، ذرا پردہ چاک تو کرو تم منٹو کے افسانوں میں کرداروں کی جگہ خود کو پاؤ گے۔

فحاشی کی دنیا میں ہمارا معاشرہ ایک نمایاں مقام رکھتا ہے، غلاظت اس قوم کی رگوں میں خون کی طرح گردش کرتی ہے اور ہوس کا تو کون پجاری نہیں۔ ہم سچ بولنے والے کو تو ویسے ہی گولیوں سے چھلنی کر دیتے ہیں۔ یہ تو ایسی حقیقت کی بات ہو رہی ہے کہ جو انسانیت کا منہ کالا کر ڈالے لیکن ہم انسان ہیں کہ اسے تسلیم نہیں کرتے اور اپنے ہی اعمال ناموں کا اعتراف نہیں کرتے۔ افسوس ہے کہ ہم مذہب کے تالاب میں غسل کر کے خود کو فرشتوں سے بھی پاک تصور کرتے ہیں مگر یہ کیسا معاشرہ ہے کے جدھر ایک مرد غسل کرنے کے بعد پاک ہو جاتا ہے اور عورت ساری زندگی بھی پاک نہیں ہو سکتی۔

ہم معاشرے میں عورت کو کوٹھا چلانے کی اجازت دیتے ہیں مگر تانگہ چلانے کی نہیں۔ منٹو نے کہا تھا کہ میرے الفاظ گندے نہیں میرے الفاظ ننگے ہیں بلک آپ کی سوچ گندی ہے۔ تو پھر اس حقیقت کو تسلیم کرنے سے انکار کیوں کرتے ہیں اور میں تو سمجھتا ہوں کہ اس گندی سوچ کے وجود کا گلہ نہ کاٹا گیا تو ایک ایسا معاشرہ جنم لے گا جس میں کوئی سوچ ہی نہ ہو گی بلکہ سب ننگے ہوں گے۔

ہم نام کے مسلمان ہیں، ہم سر پر ٹوپی اس لیے پہنتے ہیں کیونکہ ہمارا مذہب ہمارے سر پر چڑھ گیا ہے کیونکہ جب مذہب دل سے نکل کر سر پر چڑھ جائے تو ٹوپی پہننی ہی پڑتی ہے۔ خدارا! آخر کب تک سر پر ٹوپی پہن کر یہ ٹوپی ڈرامہ کریں گے، ہمارے سر پر ٹوپی اور ہماری نیت کھوٹی کب تک رہے گی، ہاتھ میں تسبیح لیے کب تک مے خانے کی طرف جائیں گے اور کب تسبیح کے پھرنے سے ہمارے دل پھریں گے۔

یہ چند تلخیاں ہمارے معاشرے پہ داغ ہیں اور اگر ہم انہیں دھو دیں تو ہم واقعی پاک ہو جائیں گے۔ مذہب کو فروغ ملے گا اور انسانیت پھر سے جنم لے گی۔ سماجی برائیاں ختم کر کے ہم اپنا کھویا ہوا مقام حاصل کر سکتے ہیں اور پھر ہم واقعی اشرف المخلوقات کہلانے کے مستحق ہو سکتے ہیں۔

سلمان آصف گوندل
Latest posts by سلمان آصف گوندل (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).