تبدیلی آئی رے


تبدیلی کا ہر کوئی ثمر سمیٹ رہا ہے خواص سے لے کر عوام تک، جس کے پاس بھی جائیں، وہ تبدیلی کی بات کرتا ہے۔ دوکاندار ہو یا حجام، موٹر مکینک ہو یا راج گیر، ٹیلر ماسٹر ہو یا جوتے مرمت کرنے والا، ایک ہی لفظ ان کہ منہ سے ادا ہوتا ہے اور وہ لفظ ہے، تبدیلی ۔

اگلے روز جوتے پالش کروانے کے لیے موچی کے پاس گیا۔ جوتے پالش ہو گئے تو جیب سے بیس روپے نکال کے دینے لگا۔ پٹھان بولا خوچہ بیس نہیں تیس۔ پوچھا کیوں؟ کب سے ریٹ بڑھا دیے؟ کہنے لگا جب سے تبدیلی آئی ہے۔ پالش مہنگی ہو گئی ہے مجبوری میں ہمیں بھی ریٹ بڑھانے پڑے۔ تبدیلی آنے سے قبل میں گاڑی کا آئل 1750 روپے میں تبدیل کرواتا تھا اب اُسی کمپنی کا آئل دو ہزار میں تبدیل ہوتا ہے یہ بھی تبدیلی کا ثمر ہے جس کو ہم دونوں ہاتھوں سے سمیٹ رہے ہیں

میں چونکہ ٹھہرا سڑک چھاپ صحافی میری اُٹھک بیٹھک عام لوگوں کے ساتھ ہوتی ہے گرم سرد کمروں میں بیٹھ کر میں قوم کو بھاشن نہیں دیتا۔ قارئین کے سامنے وہی چیزیں لاتا ہوں جو حقائق پر مبنی ہو

میری دوستی ٹیلر ماسٹر سے بھی ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ کالر پہلے سے سو روپے فی درجن مہنگا ہو گیا ہے، اس لیے ہمیں سلائی کے ریٹ بڑھانے پڑے ہیں ۔

یہ ہے وہ تبدیلی جس نے عوام کا سوا ستیا ناس کر دیا ہے۔ کچھ چیزیں مسلط کی جاتی ہیں اور کچھ کو لایا جاتا ہے۔ اس تبدیلی کو بائیس کروڑ عوام پر مسلط کیا گیا، جس کا خمیازہ ہم بھگت رہے ہیں۔ جنھوں نے انہیں مسلط کیا، وہ کل بھی مزے میں تھے اور آج بھی کیونکہ انھوں نے اپنی جیب سے کوئی چیز خریدنی نہیں۔ وہ چلتے ہی سرکار کے پیسوں پر ہیں۔ سرکار کے پیسوں میں اربوں کا خرد برد کر دیں، انھیں پوچھنے والا کوئی نہیں۔ کہتے ہیں کہ ہم سپیریر ہیں اور باقی کیڑے مکوڑے ۔

تبدیلی نے ملک کی معشیت کا بیڑا غرق کر دیا ہے۔ دو روز قبل خواص کی ایک محفل میں بیٹھا ہوا تھا۔ پتہ چلا کہ ایک آدمی بینک میں دس لاکھ روپے جمع کروانے گیا۔ بینک والوں نے اُسے بٹھا دیا کہ بتاؤ یہ پیسے کہاں سے آئے؟ وہ ٹھہرا کاروباری آدمی، کسی طرح اس نے بتایا، تب جا کر اُس کی جان چھوٹی۔ معلوم ہوا ہے کہ تبدیلی سرکار کے ان اقدامات کی وجہ سے لوگوں نے بینکوں کا رخ کرنا چھوڑ دیا ہے۔ سرمایہ تیزی سے بیرون ملک منتقل ہو رہا ہے۔ معشیت کا بھٹہ بیٹھ رہا ہے

تبدیلی سرکار کہتی ہے کہ نئے ٹیکس لگانے سے غریب متاثر نہیں ہوا۔ غریب نہ صرف متاثر ہوا بلکہ اس کی مت مار دی گئی۔  چوبیس کلو میٹر کے پاکستان میں بیٹھ کر فیصلے کرنے والوں کو کیا معلوم کہ غریب کی کیا ضروریات ہیں

اس نوجوان سے پوچھا جائے جو بے روزگار ہے اور بوڑھی بیمار ماں کی دوائی کے لیے اسے کتنے پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں جب کچھ نہ بن پڑے گا تو وہ اپنی ماں کو تڑپتا ہوا نہیں دیکھ سکے گا پھر وہ نوجوان جرائم کی دنیا میں قدم رکھے گا

تبدیلی سرکار روزانہ بھاشن دیتی تھی کہ قوم پُلوں، سڑکوں سے نہیں بنتی بلکہ انسان سازی کرنے سے بنتی ہے یعنی پیسہ انسانوں پر خرچ کرنا۔ نواز دور میں مُلک میں سڑکیں بن رہی تھی۔ آپ کے دور میں انسان سازی تو دور کی بات، جو پراجیکٹ جاری تھے، وہ بھی بند ہو گئے ۔

ملک میں جمود کی کیفیت ہے۔ معشیت کا پہیہ رکا ہوا ہے۔ دو قدم آگے کی طرف اُٹھائے جاتے ہیں، دس قدم پیچھے ہو جاتے ہیں۔ شور تھا کہ جو شخص حکومت میں ہو گا، وہ کاروبار نہیں کرے گا۔ یہ رزاق داود کیا کر رہے ہیں؟ ان کا کتا کتا اور ہمارا کتا ٹومی؟ جب سے تبدیلی سرکار آئی ہے حاصل وصول کچھ نہیں ہوا الا خالی کھوکھلے نعروں کے، لیڈر وہ ہوتا ہے جو قوم کو مسائل کی دلدل سے نکالتا ہے اور اُنھیں کامیابی کی ہمالیہ پر جا بٹھاتا ہے۔ یہاں صرف بتایا جاتا ہے کہ پچھلی حکومت چور تھی۔ ارے وہ چور تھے، آپ نے کیا کیا؟ کون سے تیر مار لیے؟ وقت کا پہیہ تیزی سے گھوم رہا ہے۔ عوام کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا ہے۔ کچھ کرنا ہو گا۔ خالی نعروں سے گزارا نہیں ہو گا ورنہ عوام تبدیلی مسلط کرنے والوں سمیت آپ کو گریبان سے پکڑ کے سڑکوں پر گھسیٹیں گے۔

بشارت راجہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بشارت راجہ

بشارت راجہ شہر اقتدار سے پچھلی ایک دہائی سے مختلف اداروں کے ساتھ بطور رپورٹر عدلیہ اور پارلیمنٹ کور کر رہے ہیں۔ یوں تو بشارت راجہ ایم فل سکالر ہیں مگر ان کا ماننا ہے کہ علم وسعت مطالعہ سے آتا ہے۔ صاحب مطالعہ کی تحریر تیغ آبدار کے جوہر دکھاتی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ وسعت مطالعہ کے بغیر نہ لکھنے میں نکھار آتا ہے اور نہ بولنے میں سنوار اس لیے کتابیں پڑھنے کا جنون ہے۔

bisharat-siddiqui has 157 posts and counting.See all posts by bisharat-siddiqui