اس مرتبہ رمضان کیسے گزرا ؟


 

ہمیشہ کی طرح یہ رمضان بھی اپنے ساتھ رحمت، مغفرت اور بخشش کا پیغام لے کر آیا۔ لوگوں نے اس رمضان میں بہت تزکیہ نفس کیا اور \"abdurصدقہ خیرات سے اپنے مال کو پاک کرنے کے ساتھ ساتھ معاشرے میں توازن برقرار رکھنے کی کوشش کی۔ جو کہ اس کا اصل مقصد تھا۔ ماہ رمضان تین عشروں پر مشتمل ہوتا ہے۔ جس میں پہلا عشرہ رحمت کا، دوسرا مغفرت اور تیسرا جہنم سے نجات کا کہلاتا ہے۔

پہلا عشرہ:اس عشرے میں اللہ کی طرف سے رحمت کا نزول ہوتا ہے۔ اور لوگ رحمت حاصل کرنے کے لیے اللہ سے رجوع کرتے ہیں۔ اللہ کے نبی ﷺنے اس عشرے کی دعا کو ایسے بیان کیا ہے۔ دعا: اے زندہ اور قائم رب! میں تیری رحمت کے حصول کی فریاد کرتا ہوں۔ کہ اے میرے رب میں تجھ سے رحمت کی دعا کرتا ہوں مجھ پر اپنی رحمت فرما۔ اور زندگی کے تمام معاملات میں توازن پیدا کر تا کہ میری زندگی اسلام کے بتائے ہوئے راستے پر چلے۔

دوسرا عشرہ:اس عشرے میں اللہ تعالی اپنے بندوں کو معاف کرتا ہے اور لوگ معافی کے طلبگار ہوتے ہیں۔ اللہ کے نبی ﷺنے اس عشرے کی دعا کو ایسے بیان کیا ہے۔ دعا: میرے رب! میں اپنے گناہوں کی مغفرت چاہتا ہوں اور تیری جانب پلٹتا ہوں۔ کہ اے اللہ مجھ سے پہلے جو گناہ ہو چکے میں ان سب کی تہہ دل سے معافی مانگتا ہوں اور تو بڑا رحیم و کریم ہے۔ تیرے پاس کسی چیز کی کمی نہیں مجھے معاف فرما۔

تیسرا عشرہ:اس عشرے میں جہنم کی آگ سے پناہ مانگی جاتی ہے۔ اللہ کے نبی ﷺنے اس عشرے کی دعا کو ایسے بیان کیا ہے۔ دعا:ا ے اللہ! مجھے جہنم کی آگ کے عذاب سے بچا لے۔ کہ اے اللہ ہم پر رحمت فرما، ہمیں معاف کر کیونکہ جہنم کی آگ کا عذاب بہت خطرناک ہے۔ اور میں اس آگ سے پناہ مانگتا ہوں۔

اس ماہ صیام میں ہمارے میڈیا پر کچھ ایسے واقعات دیکھنے کو ملے جو لوگوں کی توجہ کا مرکز بنے رہے۔ سب سے پہلے بات کرتے ہیں کہ رمضان کے پہلے عشرے میں وقوع پذیر ہونے والے واقعے کی۔ جس میں نادیہ مرزا کے پروگرام میں موجود جمیعت علماءاسلام کے سینٹر حافظ حمد اللہ اور تجزیہ نگار ماروی سرمد کے درمیان تلخ کلامی ہوئی۔ اس پروگرام میں دونوں طرف سے نازیبا الفاظ کہے گئے۔ پگڑیاں اچھالی گئیں۔ دونوں اطراف سے جملے کسے گئے، عورت کو کمزور اورڈرپوک سمجھنے والوں کی بولتی بند ہوگئی۔ لیکن کیا ایک ذمہ دار مرد اور عورت کے درمیان ایسے الفاظ کا تبادلہ ہونا چایئے تھا ؟ اس پروگرام کے بعد ماروی سرمد کی طرف سے محترم حافظ صاحب پر کیس دائر کر دیا گیا۔ جس کی وہ اب تک پیشیاں بھگت رہے ہیں اوریہ مسئلہ ہمارے ٹی وی چینلز کی ہیڈ لائنز پر چھایا رہا۔ رحمت کا عشرہ انہیں مباحث میں کیسے گزر گیا، پتا ہی نہیں چلا۔

آئیے چلتے ہیں اب دوسرے عشرے کی طرف، حالیہ دنوں میں اپنی فحش تصاویر اور ان سنسر ویڈیوز کی وجہ سے توجہ کی مرکز بنی رہنے والی ماڈل قندیل بلوچ اور ان کی فراخ دلی کے چرچے۔ مفتی عبدالقوی کی چھوٹی سی دعوتی گزارش پر ملاقات کا اہتمام کیا گیا۔ آج کا معاشرہ مولوی اور علماءکو دقیا نوسی اور رجعت پسند سمجھتا ہے۔ جبکہ قبلہ مفتی صاحب کی گفتگو سے روشن خیالی اور جمال پرستی جھلکتی نظر آرہی تھی۔ موصوف کی دین پسندی دوران ملاقات بھی غالب رہی اور بطور یاد گار لمحات سیلفی اور ویڈیو کا خاصہ انتظام کیا گیا۔ الیکڑانک میڈیانے اس موقعے کو مال غنیمت جانتے ہوئے خاصی پزیرائی بخشی۔ اس ساری لوک داستان کے عروج و زوال میں مغفرت کا عشرہ کیسے گزرا پتا ہی نہیں چلا….

تیسرا عشرہ جہنم سے آزادی کا اور اوریانیت اپنے عروج پر…. اس عشرے میں ایک نامی دانشور اوریا مقبول جان کی طرف سے کیو موبائل کی جانب سے رمضان پر بنائے جانے والے ایڈ پر ایک ایسی گفتگو جس نے سب کو حیران کرکے رکھ دیا۔ اس تشہیر میں ایک ایسی نوجوان لڑکی کی کہانی دکھائی گئی ہے جو میدان کرکٹ میں اپنا نام اور مقام بنانا چاہتی ہے، لیکن اس کا والد لڑکیوں کی اس سرگرمی میں شمولیت پسند نہیں کرتا۔ باپ کی رضامندی کے خلاف اس لڑکی کا کھیل میں حصہ لے کر کامیاب ہوتے ہوئے کیو موبائل سے اپنی ماں کو خوش خبری سنانا اس تشہیر کا بنیادی مقصد تھا۔ اچھا تصور تھا لیکن باﺅلنگ کے دوران لڑکی کو دوڑتے ہوئے آگے سے اس قدر قریب سے دکھانا اوریا مقبول جان کے نزدیک بہت ضروری نہیں تھا۔ اوریا مقبول جان کی طرف سے اس کمرشل کو خاصا زیر بحث لایا گیا۔ بحث کی جو کسر انہوں نے چھوڑی وہ ان ناقدین نے پوری کر دی جو اوریا مقبول جان کے نظریے کے مخالف تھے۔ اس صورت حال میں حامیوں نے بھی اپنے جذبات کا کھل کر اظہار کیا۔ اس ساری کہانی کا سب سے زیادہ فائدہ کیو موبائل والوں کو ہوا، اس بحث کے بعد ہر شخص نے موبائل کی کمرشل لازمی دیکھی، گویا کمپنی والوں کا بھلا ہو ہی گیا۔ ان سب مباحث میں اس قدر گرم روزے کیسے گزر گئے پتا ہی نہیں چلا


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments