بلوچ باغی


گزشتہ روز سرکٹ ہاٶس ڈیرہ مراد جمالی میں کمشنر نصیرآباد ڈویژن عثمان علی خان کے زیرصدارت ایک منفرد تقریب کا انعقاد ہوا۔ اس تقریب میں ایف سی کے سیکٹر انچارج بریگیڈیئر ذوالفقار باجوہ ڈی آئی جی پولیس راٶ منیر احمد ضیا اور ڈپٹی کمشنر نصیرآباد قربان علی مگسی بھی شامل تھے۔ اس تقریب کی انفرادیت یہ تھی کہ اس میں 35۔ سے زائد ہتھیار ڈال کر پاکستان کے خلاف باغیانہ سرگرمیاں ترک کر کے قومی دھارے میں شامل ہونے والے بلوچ قوم کے مختلف قبائل کے افراد تھے۔ یہ وہ لوگ تھے جو مبینہ طور پر بھارت کا آلہ کار بنے ہوئے تھے اور اپنے ملک کے خلاف سرگرمِ عمل تھے۔ کمشنر نے میڈیا کو بتایا کہ گزشتہ ڈیڑھ سال کے دوران نصیرآباد ڈویژن سے بلوچ قوم سے تعلق رکھنے والے مختلف قبائل کے 56۔ فراریوں نے ہتھیار ڈال کر قومی دھارے میں شامل ہونے کا دانشمندانہ فیصلہ کیا۔

یہ لوگ اب ملک کے وفادار شہری اور محب وطن بن چکے ہیں جن کی تمام تر وفاداریاں پاکستان کے ساتھ ہیں۔ اس تقریب سے کمشنر نصیرآباد عثمان علی سیکٹر کمانڈر بریگیڈیئر ضیا اور ڈی آئی جی راٶ منیر احمد ضیا نے خطاب کیا۔ مقررین نے اپنے خطاب میں ہتھیار ڈال کر قومی دھارے میں شامل ہونے پر ان کو خوش آمدید کہا اور ان کے اس فیصلے کو دانشمندانہ قرار دیا۔ تقریب کے تمام تر انتظامات نوجوان ڈپٹی کمشنر قربان علی مگسی کے زیر نگرانی بہتر طور پر کیے گئے تھے۔

ان بلوچ بھائیوں میں جوان بزرگ اور نوجوان بھی شامل تھے تاہم اکثریت نوجوانوں کی تھی ویسے ان میں ہر عمر کے لوگ شامل تھے۔ اس تقریب کی ایک خصوصی انفرادیت یہ تھی کہ ان تمام بلوچ بھائیوں کو تقریب کا مہمانِ خصوصی قرار دیا گیا تھا۔ مقررین نے اپنے خطاب میں کہا کہ یہ لوگ آج کی ہماری اس تقریب کے مہمان خصوصی ہیں۔

اس تقریب کو پُر امن بلوچستان کا نام دیا گیا تھا جس کا انعقاد وزیر اعلیٰ جام کمال خان کی ہدایت پر کیا گیا تھا۔ اس موقع پر ان بلوچ مہمانانِ خصوصی کو سردی سے بچاٶ کے لئے کمبل خیمے رضائیاں اور خورد و نوش کی اشیا ٕ فراہم کی گئی تھیں۔ کمشنر نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ صوبائی اور وفاقی حکومتیں ان بلوچ بھائیوں کی بحالی کے لئے ہر ممکن اقدامات کر رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم جو کچھ ان کو فراہم کر رہے ہیں وہ ہمارا فرض ہے ان پر ہمارا کوئی احسان نہیں ہے۔

یہ محض ان کی حوصلہ افزائی کے لئے ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت ان بلوچ بھائیوں کی بحالی کے سلسلے میں روزگار کے مواقع پیدا کر رہی ہے اور ان کے بچوں کی تعلیم کے لئے بھی اقدامات کر رہی ہے۔ ہمارا مقصد یہ ہے کہ ان کو روزگار اور رہاش فراہم کیے جائیں تا کہ یہ دوبارا گمراہی کی طرف نہ بھٹک جائیں بلکہ جو دیگر بھٹکے ہوئے لوگ ہیں وہ بھی ان کی طرح درست اور راہِ راست پر آ کر قومی دھارے میں شامل ہو جائیں۔ ملک کی تعمیر اور ترقی میں بھرپور کردار ادا کریں۔ ان کے بچوں کو تعلیم دی جائے تا کہ وہ علم کے زیور سے آراستہ ہو کر برے اور بھلے میں تمیز کر سکیں پُرامن بلوچستان اور مستحکم اسلامی جمہوریہ پاکستان میں اپنا بہتر کردار ادا کر سکیں۔

کمشنر نے میڈیا سے گفتگو میں بتایا کہ جن جن فراری بلوچ بھائیوں نے ہتھیار ڈال کر قومی دھارے میں شمولیت اختیار کی ہے ان کے تمام تر مقدمات کی تفصیلات مختلف تھانوں سے حاصل کی جا رہی ہیں تاکہ ان کے مقدمات قانونی طریقے سے ختم کیے جا سکیں۔ یہ سب بلوچ بھائی آزادانہ نقل و حمل کر سکیں۔ اب یہ بھی ہماری طرح اس ملک کے محب وطن شہری ہیں ہتھیار ڈالنے کے بعد ان کے بھی وہی شہری حقوق ہیں جو ہمارے حقوق ہیں۔ کمشنر و دیگر مقررین نے کہا کہ حکومت کی بھرپور کوششوں اور سیکوریٹی فورسز کی عظیم قربانیوں اور حساس اداروں کی دن رات محنت اور کاوشوں کی بدولت ملک سے دہشت گردی پر بڑی حد تک قابو پایا گیا ہے۔

انہوں نے اس توقع کا اظہار کیا کہ بلوچستان میں جو باقی بھٹکے ہوئے بلوچ بھائی ہیں وہ بھی بہت جلد راہ راست پر آ کر قومی دھارے میں شامل ہو کر ملک کی تعمیر و ترقی میں اپنا بھرپور کردار ادا کریں گے۔ اس تقریب میں ایک بات شدّت سے محسوس کی گئی کہ اس میں منتخب عوامی نمائندے شامل نہیں ہوئے تھے نہ کوئی وزیر نہ کوئی مشیر اور نہ ہی کوئی ایم پی اے ایم این اے یا کوئی سینیٹر۔ تقریب میں صرف دو قابلِ ذکر قبائلی معتبرین میر عبدالرٶف لہڑی اور میر فرحان خان مگسی تقریب میں موجود تھے اس کے علاوہ میونسپل کمیٹی کے چیئرمین میر غلام نبی عمرانی بھی تقریب میں شامل تھے

بلوچ فراریوں کی اس تقریب سے یاد آیا کہ نواب اکبر خان بگٹی کے سانحے کے بعد ایک عرصے تک بلوچستان میں قومی دن یا تہوار منانا اور قومی پرچم لہرانا تقریباً ناممکن بن چکا تھا۔ 23 مارچ اور 14 اگست کے دن خاموشی سے بلکہ خوف اور پریشانی میں گزر جاتے تھے۔ ملک کی سیاسی مذہبی اور عسکری قیادت کی بہتر حکمت عملی کی بدولت امن و امان کی صورتحال بہتر ہو گئی ہے اور اب بلوچستان میں یومِ آزادی یا جشنِ آزادی کی تقریبات بڑے جوش و خروش کے ساتھ منائی جا رہی ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).