سندھ میں دو شخصیات اور ایک تاثر کیوں مشہور ہے؟


پاکستان پیپلز پارٹی مسلسل تیسری بار سندھ کی حکمران جماعت ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان پیپلز پارٹی کو جمہوریت کے لیے گراں قدر خدمات کی وجہ سے قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ ابھی بھی وفاقی حکومت کی طرف سے سندھ میں گورنر راج کے نفاذ کو شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔ سندھ حکومت اور پاکستان پیپلز پارٹی کے عہدیداروں، اسمبلی میمبرز، وزیروں اور مشیروں کو کرپشن سے پاک ہونے کا سرٹیفیکیٹ کوئی بھی جاری نہیں کر سکتا مگر یہ بات بھی ریکارڈ پر موجود ہے کہ کرپشن، اقربا پروری، لوٹ مار اور حکومتوں کی غیر تسلی بخش کارکردگی پورے ملک میں ہی نظر آتی ہے۔

سندھ میں دو شخصیات اپنی سخاوت اور طاقت کی وجہ سے بہت مشہور ہیں ایک آصف علی زرداری کہ وہ یاروں کا یار ہے اور ان کے جیل کے زمانے کے ڈاکٹرز، مالشی اور خدمت گار ان کی وجہ سے بڑے بڑے عہدوں پر فائز ہوئے اور آصف علی زرداری کے جگری دوست ڈاکٹر ذوالفقار مرزا جو کبھی اپنے پہنے ہوئے کپڑوں کو بھی آصف علی زرداری کی ملکیت بتاتے تھے ان کی لڑائی کی وجہ شوگر ملز بتائی جاتی ہیں کہ آصف علی زرداری ان سے تمام بنایا ہوا مال سود سمیت وصول کرنا چاہتے تھے۔

دوسری شخصیت فریال تالپر ہیں ان کی طاقت کا اندازہ آپ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ان کے پسندیدہ گلوکار ضامن علی اپنی گاڑی پر سرکاری ہوٹر لگا کر گھومتے نظر آتے ہیں۔ فریال تالپر کو سندھ میں ادی کے نام سے جانا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ جس نے ادی کو حصہ نہیں دیا وہ کبھی بھی ترقی نہیں کر سکتا اور ان کے نوازے ہوئے لوگ بھی بڑے بڑے عہدوں پر برا جمان نظر آتے ہیں۔

پاکستان پیپلز پارٹی بھلے ہی اشتہارات میں کہتی پھرے کہ سندھ کے ہسپتال بین الاقوامی معیار کی عکاسی کرتے ہیں مگر کراچی، حیدر آباد، بے نظیر آباد، دادو، سکھر، خیرپور اور لاڑکانہ کے ہسپتال اس بات کے جواب میں منہ چڑاتے نظر آتے ہیں۔ محکمہ صحت کے اعلیٰ افسران، مشیروں کو تو چھوڑیں ضلعی سطح کے چھوٹے گریڈ کے سرکاری ادویات کے اسٹور کیپر بھی آپ کو کروڑ پتی ملیں گے۔ سندھ کے اکثر و بیشیر محکموں کے سربراہان کو سیاسی پشت پناہی حاصل ہوتی ہے۔

سرکاری زمینوں کو کوڑیوں کے بھاؤ نیلام کرنا، ٹھیکے اپنے من پسند لوگوں کو دینا اور اپنے حواریوں کو صوبے کے بڑے عہدوں پر فائز کرنا سندھ حکومت کا طرہ امتیاز سمجھا جاتا ہے۔ جس صوبے کے پبلک سروس کمیشن جیسے ادارے پر بھی الزام لگ جائے کہ وہ اسسٹنٹ کمشنر جیسی پوسٹوں کی بھرتیاں بھی سیاسی بنیادوں یا رشوت لے کر کرتا ہے تو پھر کہنا درست ہے کہ سندھ میں سب کچھ سب کچھ ممکن ہے۔

سندھ میں سالانہ امتحانات میں سر عام نقل ہونا اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ سندھ حکومت تعلیم سے کتنا پیار کرتی ہے۔ محکمہ تعلیم کے اعلی افسران تو دور کی بات صرف تحصیل اور ضلع سطح پر کلرک اور ہیڈ کلرک کے رہن سہن اور مال و دولت کو دیکھا جائے تو آپ کو ایسا لگے گا کہ جیسے موصوف کی دبئی میں ملیں چلتی ہیں۔ میونسپل کارپوریشن سے لے کر تحصیل کمیٹیوں میں جعلی برتھیاں، لوٹ کھسوٹ کا بازار گرم ہے اور صفائی کے نام پر کروڑوں روپے خرچ کرنے کے باوجود راستے کچرے سے بھرے اور محلوں کی گلیاں گٹر کے بدبودار پانی سے بھری نظر آتی ہیں۔

محکمہ پولیس ہو یا پھر ضلع کا مالک ڈپٹی کمشنر صاحب سب کی شانیں ہی نرالی ہیں۔ شام میں سارے سرکاری اور غیر سرکاری افسران، طاقتور جوان اور سیاستدان سب محفلوں میں جھومتے نظر آتے ہیں۔ جب وزیروں، مشیروں، ایم این ایز، ایم پی ایز اور پارٹی عہدیداروں کے بھائیوں اور بیٹوں میں سرکاری محکمے بٹے ہوئے ہوں کہ فلاں خان پولیس کچہری کو دیکھا گا اور جناب کا بڑا بیٹا محکمہ تعلیم اور صحت میں تقرریوں اور تبادلوں پر وصولیاں کرے گا تو پھر کیوں ہم یہ کہتے پھرتے ہیں کہ پنجاب حکومت میں تین وزیر اعلیٰ ہیں۔ سندھ کے بھی وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ بھی تو ادی کے اشاروں پر اٹھتے بیٹھتے نظر آتے ہیں۔

پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری اپنے انٹرویوز میں کہتے پھرتے ہیں کہ ہمیں آگے والی نسلوں کا سوچنا ہے اور موسمی تبدیلی کی وجہ سے سندھ میں بارشیں نہیں ہوتیں مگر تھوڑی سے نظر کرم اپنے وزیروں، مشیروں، ایم این ایز، ایم پی ایز اور پارٹی عہدیداروں پر بھی ڈالیں کہ انہوں نے کس طرح سے سندھ کے جنگلات کو کاٹ کر اپنی زمینیں بنائی ہیں۔ سندھ کے اکثر جنگلات، ندی نالوں اور جھیلوں پر وڈیروں، جاگیرداروں اور سرداروں نے قبضہ کر کے اپنی آنے والی نسلوں کے لیے زمینیں آباد کر دی ہیں۔

سندھ میں ماہی گیری کے لیے سرکاری ٹھیکہ سسٹم تو ختم کیا گیا تھا مگر کسی مائی کے لال مچھیرے کو یہ جرات نہیں ہے کہ وہ ان وڈیروں کو پیسہ دیے بغیر مچھلی پکڑ سکیں۔ سندھ کے سیاحتی اور ثقافتی مقامات بھی ان وڈیروں جاگیرداروں کی ہوس سے نہ بچ سکے۔ موہنجو داڑو کی زمین پر قبضے کے عدالتی نوٹس کے باوجود بھی یہ طاقتور ابھی بھی اس پر قابض ہیں۔ ایک طرف پاکستان پیپلز پارٹی ہاریوں، کسانوں اور مزدوروں کی بات کرتی ہے اور دوسری طرف پارٹی عہدیداران ان کے حقوق کو پامال کرتے نظر آتے ہیں۔

جس طرح بڑی مچھلی چھوٹی مچھلیوں کو کھا جاتی ہے ٹھیک اسی طرح سندھ میں بڑے بڑے جاگیرداروں نے چھوٹے کسانوں کو ہڑپ لیا ہے اور سندھ حکومت کی سبسیڈیز میں ٹریکٹر ہوں یا چاہے سورج مکھی کا بیج وہ بڑے بڑے زمینداروں کو ہی ملتا ہے جس کا بالواسطہ یا پھر بلا واسطہ تعلق پیپلز پارٹی یا پھر دیگر جماعتوں سے ہی ہوتا ہے۔ جب صوبے میں اس طرح کی صورتحال ہو تو یقیناً الزامات بھی لگیں گے اور سوال بھی پوچھے جائیں گے اس لیے پاکستان پیپلز پارٹی کو چاہیے کہ جمہوریت کے خطرے کو چھوڑ کر کچھ دھیان اچھے طرز حکومت، کرپشن کے خاتمے اور اداروں کی مضبوطی پر دے تاکہ عوام کی خدمت کے ساتھ ساتھ طاقت کا اصل سرچشمہ عوام ہے کا نعرہ بھی شرمندہ تعبیر ہو سکے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).