پاکستان انسانی تاریخ کی شانداریت کی معراج پر ہے


صاحبان، قدردان و فارغ نقادان، مانتا ہوں کہ راقم پچھلے کئی ہفتوں سے لکھنے یا نہ لکھنے کی بے مقصدیت کا شکار ہے۔ یار دوست، عزیز اور رشتے دار بھی کہتے ہیں کہ مت لکھا کرو، ملتا کیا ہے، ہوتا کیا ہے اور فرق کیا پڑتا ہے؟ میرے پیارے اور میں اس خوف کابھی شکار ہیں کہ کوئی شدید ذہین صاحب یا صاحبہ، میری ایویں کی لکھی ہوئی کسی بونگی کو اپنی رپورٹ میں یہ لکھ کر نہ اوپر بھیج دیں کہ مبشر اکرم، پاکستان کی نظریاتی سرحدوں کی عین مخالفت میں یہود و نصاریٰ و ہنود و افغانوں و پٹواریوں اور اپنے گھر میں پالی ہوئی بِلی، لُونا، کے ہاتھوں میں کھیل رہا ہے۔

مشاہدہ یہی ہے کہ نیچے کا لکھا ہوا، اوپر تک بے مہار ہی دگڑ دگڑ دوڑے چلا جاتا ہے اور کہیں تو ظہور الہٰی صاحب کو بھینس چوری میں سزا ہوتی ہے تو کہیں پاکستان کی نظریاتی اور قانونی سرحدوں کی محافظ منصف عدالتیں بھٹو صاحب کو پھانسی پر جھولا دینے کے تیس برس بعد، جیو ٹی وی پر افتخار احمد صاحب کے پروگرام جوابدہ میں کہہ دیتی ہیں کہ پھانسی کا فیصلہ شاید درست نہیں تھا۔

تاریخی طور پر یہ بات ثابت ہے کہ پاکستان میں ریاست اور ریاستی اہلکاروں نے بنی نوع انسانی میں شانداریت کی روایات کو ہمیشہ ہی زندہ رکھا ہے۔ مگر واللہی کہ جتنی شانداریت اور کراداری معراج کی بارشیں پچھلے دو تین برسوں میں برسنے میں آئی ہیں، میں اپنی شخصیت کو ان کی خوشبودار پھوار سے معطر پاتا ہوں۔ اور یہ اس زمین کی تقریبا 25000 سالہ ڈاکیومنٹڈ انسانی تاریخ میں پہلی مرتبہ پاکستانی شانداریت کی یہ عظیم مثالیں ہی ہیں کہ جنہوں نے مجھے اپنے لکھنے کے حوالے سے مقصدیت اور بے مقصدیت کی پینگ کے ہُلکاروں میں سے نکالا اور میں نے یہ فیصلہ کیا کہ اس سے پہلے کہ ہمارے چیف جسٹس صاحب ریٹائر ہو جائیں، دیسی مرغیوں اور انڈوں کے سپیشلسٹ ہمارے وزیرِ اعظم صاحب کے پانچ سال پورے ہو جائیں اور کہیں اور بھی کوئی ریٹائرمنٹ ہو جائے، مجھے شانداریت کی پھوار میں بھیگتے ہوئے، اپنے احساسِ تشکر کو زبان دینا لازم ہے۔

مثلا، کتنے ہی تو کارنامے و کامیابیاں ہیں کہ جن کو تحریر کرنے کے لیے بھی کم از کم ملکوال کی نہر لوئرجہلم کے پانی کے برابر روشنائی تو چاہیے ہو گی۔ جیسا کہ عزیر بلوچ کو سزا دی، عابد باکسر کے معاملہ کو منطقی انجام تک پہنچایا۔ ڈاکٹرعاصم کی سینکڑوں ارب روپوں کی کرپشن پر انہیں اتنی سخت سزا دی کہ وہ آج آزاد پھرتے ہیں۔ شرجیل میمن صاحب کے معاملہ میں بہترین انصاف ہوا۔ کوئٹہ میں ڈیوٹی دینے والا اک پولیس اہلکار مجید اچکزئی نے کچل کر قتل کر دیا، اچکزئی صاحب، کہ ان جیسے ناخداؤں کو کون پوچھ سکتا ہے وہاں، چند دن بعد قہقہے لگاتے جیل سے مہمان نوازی کروا کر فارغ کر دیے گئے۔

احد چیمہ اور فواد حسن فواد پر کرپشن کے الزامات ایسے ثابت کیے کہ وہ اپنی نسلوں کو بھی سِول سروسز میں کبھی نہ آنے کی تلقین کر کے جائیں گے۔ اسحاق ڈار صاحب پر بھی الزام بھرپور طریقے سے ثابت کیا اور انہیں کڑی سزا دی۔ نئے اسلام آباد ائیرپورٹ میں سالوں سے جاری کرپشن کے معاملہ پر بھی تاریخی فیصلہ آیا۔

سولہویں گریڈ کے اک احتسابی افسر کے گھر سے کروڑوں روپے برآمد ہوگئے، اور ان کو ایسی کڑی سزا ملی کہ ان کی چیخیں اگلی کہکہشاں تک گئیں، ہاں مگر، ان کا نام کسی کو معلوم نہیں۔ ایم کیو ایم کے وہی پرانے رہنما، جب ایم کیو ایم پاکستان بنا بیٹھے تو وہ اک دم ہی پاک صاف ہو گئے اور شاندار ریاستی کارگزاری ایسی رہی کہ الطاف حسین اس وقت شاید تحصیل پھالیہ کے لاک اپ میں بند ہیں۔ اصغر خان کیس میری نوجوانی میں شروع ہوا اور درمیانی عمر میں پہنچ کر نامعلوم کیوں مجھ سے پہلے ہی مر گیا۔

گنڈا پوری شہد کی بوتل پورے پاکستان نے دیکھی اور بس پھر دیکھتے ہی رہے۔ بلدیہ ٹاؤن میں سینکڑوں افراد کے زندہ جل جانے کے مقدمہ پر اک منطقی فیصلے نے بھی عوام کے دل جیت لیے۔ شاہ رخ جتوئی سندھ کی کسی جیل میں آج بھی سڑ رہا ہے، یہ بھی یقینا اسی شانداریت کی ہی بدولت ہے۔ پھر بنی گالہ کے اک محل کے جعلی این او سی کو درگزر کرنے اور پھر ریگولرائز کرنے کی اجازت سے حق کا علم ہی تو بلند ہوا۔

شانداریت کی دیگر مثالوں میں راؤ انوار صاحب کی رہائی و ریٹائرمنٹ بھی شامل ہے۔ اب انہیں اللہ کے ہاں سے حاضری کا اِذن ہوا ہے تو وہ اب اپنے تمام کردہ و ناکردہ گناہ بخشوا کر جنت کے حقدار بھی ٹھہریں گے۔ پنجاب کی 56 کمپنیز، صاف پانی کرپشن، سستی روٹی کرپشن، ارسلان افتخار کیس، میمو گیٹ مقدمہ جس میں میاں نواز شریف صاحب کالی ویسٹ کوٹ پہنے جون آف آرک بنے ہوئے تھے کے علاوہ آج ہی کے دن کی خبروں میں بحریہ ٹاؤن کے اکاؤنٹس کی بحالی بس ان چند شاندار مثالوں میں سے چند اک ہی تو ہیں۔

بلاشبہ پاکستان کا مستقبل، اس کے ماضی کی طرح بہت روشن ہے، اور اس کو روشن تر کرنے کے لیے میں اپنے محترم چیف جسٹس صاحب کی ”ڈیم بناؤ، ملک بچاؤ“ مہم کا اک ادنیٰ سپاہی بھی ہوں۔ دل کو گداز کر دینے والے مدُھر ترانے ”ہم یہ ڈیم بنا لیں گے“ میں اتنی مقصدیت ہے کہ میرا دل پھٹا جاتا ہے کہ جنابِ محترم چیف جسٹس صاحب کی ریٹائرمنٹ جو اب صرف بارہ دن دور ہے، کے بعد اس ڈیم اور میرے ملک کا کیا بنے گا؟ مگر اک تسلی یہ ہوتی ہے کہ ”آئی ایم پاکستان موومنٹ، “ جو دنیا کی اک جانی اور مانی تحریک ہے، اس کارِ خیر کے وزن کو اٹھا لے گی اور یہ کام مکمل ہو جائے گا۔

تمام انسانی تاریخ میں پاکستانی شانداریت کے ایورسٹ میں سے صرف اک کنکر کے اک ذرے کو ہی تو میں نے دیکھا ہے تو آنکھیں چکا چوند ہیں۔ اس کنکر کو پورا دیکھنے اور پھر ایورسٹ کو پورا دیکھنے کا جو لشکارا ہے، وہ تو خردِ انسانی کے فریم سے بھی باہر ہوگا۔

اب اتنی شانداریت میں، مبشر اکرم، بقول مرزا اطہر بیگ صاحب، یہ گھسیٹا کاری کیوں نہ کرتا بھلا؟ ویسے بھی بقول مرحوم نصرت فتح علی خان صاحب، میری پہچان، میرا پیغام، میرا نام، میرا ایمان صرف اور سب سے پہلے پاکستان ہی تو ہے۔

پسِ تحریر: ایمانداری سے کہتا ہوں کہ یہ سنجیدہ توصیف اپنے وطن میں بہنے والے شاندار ٹیلنٹ کے دریا سے متاثر ہو کر لکھی گئی۔ حال ہی میں جاری ہونے والی دودھ اور شہد کی انقلابی نہروں میں اٹھنے والی لہروں پر سواری کرتے ہوئے ابھی تو سارے پاکستان کو بہت لطف آ رہا ہے۔ اس پر پھر کبھی سہی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).