مہک کی مہک


سرشت کے کافر۔ قطرے!

بے چینی اور اضطراب ہر انسان کی فطرت کا خاصاہے۔ قانونِ قدرت سے بغاوت اور ہوس اس کی ایک بڑی وجہ ہے۔ کسی بھی چیز کو حاصل کر لینے کی بھوک، سوچ اور ہوس، انسان کو نت نئے جہان دریافت کرنے پر آمادہ کرتی ہے اور انسان نہ چاہتے ہوئے بھی، اپنے سکون او ر آرام کو دھکا مار کر، ایسے بے سکونی کی طرف بڑھتا ہے، جس طرح شیرخواربچہ جلتی آگ کے دھکتے سرخ کوئلے کی طرف۔ دونوں کے تجربات کا حاصل ایک ہی ہوتاہے، جلے ہوئے ہاتھ، منہ اور ہونٹ!

وہ نومبر کی دھندلائی ہوئی ایک صبح تھی۔ گھر سے نکل کر بس سٹاپ کی طرف چلتے ہوئے، جی ایسے چاہتا تھا، جیسے قدم آگے بڑھانے کے بجائے واپس موڑ لیں۔ میں نے پانچ مرلے کے چھوٹے سے گھرمیں، دروازے کی چھوٹی سائیڈ والی کھڑکی سے، جب منہ باہر نکالا، تو باہرحدِ نگاہ صفر تھی۔ اور سامنے کچھ نظر نہ آرہا تھا۔ ٹھنڈی ہوا، کالے سیاہ بادلوں سے گہری دھند، گھر کے اندربلا اجازت گھستی چلی آرہی تھی اور باہر گلی میں، زمین پر سیڑھی کے ساتھ دائیں طرف، دو تین ٹوٹی اینٹوں کے درمیان، ایک سیاہی مائل کتورا ”اوں اوں۔ اوں۔ کررہاتھا، جیسے سردی اور نیند دونوں کے زور کو توڑنے کے لیے اپنی آواز اورخواب کا سہارالے رہاہو ”جو دروازہ کھلنے کی آواز کے ساتھ چونک گیا تھا۔ اور اس نے ایک لمبی سی“ اوں۔ ”کی آواز نکالی، غصے اورنفرت سے میری طرف دیکھتاہوا، دھندکے اندرکہیں گم ہوگیا۔ اس کی نظر اورچہرے کے تیورایسے تھے کہ، اگر وہ انسانی زبان رکھتا یا میں اس کی زبان کا مطلب سمجھ سکتا، تو مجھے یقینا اس شدید سردی میں بھی، ا س طرف سے نوازے جانے والے القابات پر پسینہ ضرورآجاتا۔ اور جس طرح اس نے۔ جو کچھ مجھے کہاتھا، میں شاید جواباً اس سے زیادہ کہتا۔ کتے کے بیٹھنے کی جگہ کے علاوہ، باقی ساری گلی دھند کی کوکھ سے بہنے والے پانی کے قطروں سے گیلی ہوچکی تھی۔

لنڈے کی نیلی ٹوپی، ماں کے ہاتھ کا بنا ہوا میرون سویٹر اور ملیشیا کا سیاہ شلوارقمیص، جس کے نیچے پلاسٹک کی بند جوتی، ریڑھی سے خریدی ہوئی سیاہ جرابوں کے ساتھ پہنی تھی۔ جرابوں کی دو انگلیاں روشندان کا کام کرتی تھیں اور کراس ونٹیلیشن کے لیے ایڑھی بھی پنکچر تھی۔ اگرابو جی کی دہکتی انگارہ آنکھیں اور ان سے نکلنے والی شعاعوں کی گرمی پشت پر محسوس نہ ہو رہی ہو تی، تو میں جھٹ سے دروازہ بند کرتا، دھیرے سے آواز پیداکیے بغیر کنڈی لگاتا اور گرم رضائی میں اپنے جسم کے انتہائی گرم حصوں سے گرمی کشید کرنے کی کوشش کرتا۔

مگرہمیشہ کی طرح آج پھر میں بہتر مستقبل، اباجی کی ماراور لعن طعن کے ڈر، میرے سر پر پیاردیتے ہوئے چہرے پرپڑنے والی امی کی دعاؤں بھری نظر کے زور پر! ایسے دھند کی سیاہی کے اندر کود گیا۔ جیسے سیکڑوں فٹ کی بلندی سے کوئی ایسے شخص کو پیچھے سے دھکا دے کر، نیچے تیز بہتے ہوئے گہرے دریا میں چھلانگ مارنے پر مجبور کردے جو تیراکی بالکل نہ جانتا ہو !

دھند ماں کی گود کی طرح بڑی مہربان ہوتی ہے۔ اس کے سیاہ بادل آپ کو اپنی ذات سے بھی بیگانہ کردیتے ہیں۔ منہ سے بھاپ ایسے اس میں مل جاتی ہے جیسے انسان کے اندر اور باہر کی سیاہی یکجا ہورہی ہو۔ ایک ربط بحال ہو رہاہو۔ اور دوبارہ پھیپھڑوں میں بھری جانے والی سانس کے ذریعہ، باہرکے سیاہ بادل انسان کے اندررگ رگ میں گھستے چلے جاتے ہیں۔ پانی کے گرتے قطرے اور سانس کو باہر پھینکنے کے ساتھ ناک کے اردگرد پیدا ہونے والی نمی ایک عجیب سی کیفیت پیدا کرتی ہے۔

برسات اور دھندمیں صرف اتنا فرق ہے کہ برسات میں بہنے والے آنسو، سرخ ہوتی آنکھیں، بندھی ہوئی ہچکی اور ڈولتے گرتے پڑتے قدم، دورسے ہر کوئی محسوس کرسکتا ہے۔ جبکہ دھند میں آپ کے اردگرد صرف تاریکی ہوتی ہے۔ قدموں کی چاپ نزدیک ہوتی ہوئی اور کبھی پھر قریب آکر دورچلی جاتی ہے۔ اوررفتہ رفتہ مدھم ہوکر دھند کا حصہ بن کر دھند میں دھندلا جاتی ہے۔ کلام کرنے کو جی نہیں چاہتا۔ اس لیے کوئی بھی آپ کی آنکھ، آنسو، ہونٹ، ہاتھ اورقدم کے ہم قدم نہیں ہوتا۔ سوائے اس کے جو کسی ٹاہلی، گھنی نیم، بوڑھے برگد یا دیوارکی اوٹ میں، اس قدرتی عاشق نوازنعمت کے فوائد سے لمحہ بھر کے لیے فیض یاب ہوتاہے۔ عاشق کے نصیب میں ہمیشہ سیاہی آتی ہے چاہے یہ نصیب کی ہو، رات کی ہو، دھند کی ہویا منہ کی ! سیاہ نصیب کی سیاہی!

ایک بار پھر وہی راستہ، نہرکنارے، سات ٹاہلی کے درخت، دوخستہ حال پل جو ملحقہ آبادی کے ساتھ رابطے کا ذریعہ تھے۔ ریل کی پٹری اور بس سٹاپ کی منزل اور اس منزل کے دوران کہیں کہیں، باریک باریک آواز میں چہ میگوئیاں، جوتوں کی مخصوص ٹک ٹک اور پھر اس ٹک ٹک کو بنیاد بنا کر، ان جوتوں کی مخصوص ٹِک ٹِک پر مکمل انسان کے وجود کا خیال۔ اور یوں میں اُس روز بھی گاڑی کے انتظار میں ”دھریک“ کے اس درخت کے پاس کھڑا ہو گیا۔ جہاں زرد رنگ کا بلب روشنی کے بجائے ماحول کو سوگواربنا رہا تھا، اور ہم سب چپ چاپ ایسے کھڑے تھے، جیسے کسی جنازے کے منتظر ہوں۔

وہ آج بھی ہمیشہ کی طرح مجھے دیکھ کر مسکرائی۔ اُس کے لب ہلے جیسے وہ کچھ کہنا چاہتی ہو۔ اور پھر۔ چند ایک تانگے۔ مزدہ گاڑیاں آئیں۔ رُکیں۔ سواریاں اُٹھائیں اور چل دیں۔ معلوم نہیں میری نیت میں فتورتھا۔ یامیرے ذہن اور دل کاقصورتھا۔ میں بھی بھرپور ڈھٹائی سے ادھر ادُھرکھسکتارہا کبھی کبھی اس کی طرف دیکھ لیتا اس کے ساتھ کی ساری لڑکیاں جاچکی تھیں ! پھر یوں ہوا کہ میں نے ا س کی طرف دیکھا اور دھیرے سے، بس سٹاپ سے چلنا شروع ہوگیا۔

 چلتے چلتے میں دانستہ طورپر قدم آگے بڑھانے کے بجائے، رک کر، پیچھے دھند میں کچھ ڈھونڈ کر، سوچ کر، ان دیکھا انتظارکررہا تھا۔ مجھے کوئی رابطہ، کوئی واسطہ، کوئی لاسلکی تعلق اورConnectionباربار پیغام دے رہاتھا، کہ وہ میرے پیچھے، پیچھے روانہ ہے۔ میری طرف۔ میرے راستہ پر۔ میرے قدموں کے نشانوں پر۔ اس سفر میں روانہ ہے۔ آرہی ہے۔ وہ اور اس کی مخصوص خوشبو !

تارکول کی پکی سڑک کے کنارے کی مٹی بھی، بارش، مسلسل چلنے والے تانگے، گھوڑے، رکشے اور مختلف النوع گاڑیوں کے ٹائروں اور وزن کی وجہ سے، عاشِق نامراد کی طرح ڈھیٹ اور پکی اور محبوب کم ظر ف کی طرح اندر سے خالی ہونے کی بنا پر ہلکی سی چوٹ پڑنے پر بھی بڑی زوردارآواز پیداکرتی ہے۔ اس کے قدموں کی چاپ اور ایڑی اور پنجے کی تال میں سے پیدا ہونے والی مخصوص آواز، دور سے اس کی آمد کی خبردے رہی تھی۔ میں رک کراس کے آنے کا انتظارکرنے لگا ! ٹِک، ٹِک قریب ہوتے ہوئے، ٹَک، ٹَک میں بدل رہی تھی اور میری یہ پہلی چوری تھی یا ناری سے پہلی یاری کی تیاری تھی۔ کہ میرے دل میں دَھک، دَھک اورزیادہ بے ترتیبی سے ہورہی تھی۔

شدید سردی اور دھند میں بھی میری ہتھیلیوں پر پسینہ اور کانوں میں سے آگ نکل رہی تھی۔ وہ آئی۔ قریب آئی۔ ایک لمحے کو۔ میں نے اسے دیکھا۔ دھندمیں سرسے پاؤں تک ! اُس کی جھکی ہوئی نظریں۔ نیلی چادر۔ سفید کپڑے۔ نیلا سویٹر۔ وہ خوبصورت تھی یا نہیں مگر خوب تھی۔ بنا کچھ کہے اور بولے وہ میرے ساتھ ساتھ چل رہی تھی۔ ایسے جیسے ہم نجانے کب سے ساتھ ساتھ تھے۔ سفرمیں۔ ساتھ ساتھ۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں

لیاقت علی ملک

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3

لیاقت علی ملک

لیاقت علی ملک ۔۔۔ داروغہ ہے۔ خود ہی عدالت لگاتا ہے، خود ہی فیصلہ سناتا ہے اور معاف نہیں کرتا۔۔۔ بس ایک دبدھا ہے۔۔۔وہ سزا بھی خود ہی کاٹتا ہے ۔۔ ۔۔کیونکہ یہ عدالت۔۔۔ اس کے اپنے اندر ہر وقت لگی رہتی ہے۔۔۔۔

liaqat-ali-malik has 12 posts and counting.See all posts by liaqat-ali-malik