آج کل میرے پیٹ کا دماغ خراب رہتا ہے


\"mubashir\"کسی عمارت کی چھٹی ساتویں منزل تک جانا ہو تو میں سیڑھیاں چڑھ جاتا ہوں۔ یہ الگ بات ہے کہ پسینے میں شرابور ہوجاتا ہوں۔ لیکن کبھی عمارت زیادہ بلند اور منزل دور ہو تو گراؤنڈ فلور پر کھڑے کھڑے میرے پسینے چھوٹ جاتے ہیں۔ میں لفٹ استعمال نہیں کرنا چاہتا۔ مجھے بند جگہ سے خوف آتا ہے۔ یہ خوف روزانہ میری کار کے بونٹ پر بیٹھتا ہے۔ یہ خوف ہوائی جہاز میں میرے ساتھ سفر کرتا ہے۔ میں اس خوف کو اپنے بیڈ روم کا دروازہ کھلا رکھ کر بھگانے کی کوشش کرتا ہوں۔

میں ایک سمجھ دار آدمی ہوں۔ اپنے آپ کو بار بار سمجھاتا ہوں کہ بند جگہ پر گھبرانے کی کوئی بات نہیں ہوتی۔ دفتر میں ایک کاری گر چوبیسیوں گھنٹے موجود رہتا ہے۔ لفٹ بند ہوجائے گی تو وہ فوراً کھول دے گا۔ کار تو اپنی کار ہے۔ دل گھبرائے تو شیشے اتارے جاسکتے ہیں۔ ہوائی جہاز اتنا بڑا اور کھلا ہوتا ہے۔ مسلسل اے سی چلتا ہے۔ وہاں گھبرانے کی کیا بات؟

لیکن بس، کبھی وہی دماغ ڈراتا ہے، نہ جانے کیا ہوجائے گا۔ کبھی وہی دماغ سمجھاتا ہے، ارے بھئی، کچھ نہیں ہوگا۔

اکثر اوقات میرا پیٹ خراب رہتا ہے۔ اول تو بھوک نہیں لگتی۔ بھوک لگے اور کچھ کھالوں تو ہضم نہیں ہوتا۔ ہضم ہونا شروع ہوجائے تو پیٹ میں ٹکنے کو تیار نہیں ہوتا۔ مختلف اوقات میں مختلف مسائل کا شکار رہتا ہوں۔

محلے کے حکیم کو نبض دکھائی، خیراتی اسپتال کے معالج کو زبان دکھائی، سرکاری اسپتال کے ڈاکٹر کو پیٹ دکھایا، پرائیویٹ اسپتال کے اسیشلسٹ کو بٹوہ دکھایا، کسی نے ایکسرے، کسی نے الٹراساؤنڈ کروایا، کسی نے خون کا، کسی نے اسٹول کا ٹیسٹ بتایا۔ لیکن مرض کسی کی سمجھ میں نہ آیا۔ ایک بقراط نے گولیاں دیں، دوسرے بزرجمہر نے کیپسول کھلوائے، تیسرے علامہ نے انجکشن ٹھنکوائے، ایک سرجن صاحب نے تو پیٹ میں کیمرا تک ڈال کر جانے کیا کیا دیکھ ڈالا لیکن کچھ برآمد نہ ہوا۔

کبھی دماغ کہتا ہے، ابھی نہ سہی، کبھی نہ کبھی پیٹ سے کچھ نہ کچھ الٹا سیدھا نکل آئے گا۔ کبھی وہی دماغ کہتا ہے، ارے بھئی، اس پیٹ میں تو روٹی نہیں پچتی، کچھ اور کیا نکلے گا۔

میں عام طور پر آئینہ دیکھنے سے احتراز کرتا ہوں۔ یہ بھی سچ ہے کہ مجھے تصویر کھنچوانا پسند نہیں۔ اس کی وجہ میں کسی کو بتانا نہیں چاہتا کیونکہ کوئی یقین نہیں کرے گا۔ لیکن چپکے سے آپ کے کان میں بتادیتا ہوں۔ کبھی آئینہ دیکھنا پڑجائے تو مجھے اس میں اپنی صورت دکھائی نہیں دیتی۔ کبھی اس میں جیمز بونڈ نظر آتا ہے، کبھی گبر سنگھ۔ کبھی نیلسن منڈیلا دکھائی دیتے ہیں، کبھی ایڈولف ہٹلر۔ کبھی پوپ جان پال جلوہ گر ہوتے ہیں، کبھی ماؤزے تنگ۔ کبھی ضیا الحق کی شبیہہ مسکراتی ہے، کبھی ذوالفقار علی بھٹو کی۔

بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ مجھے آئینے میں اپنا آپ دکھائی دیتا ہے۔ لیکن اس وقت میری چہرے پر تشویش کے آثار ہوتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ جیسے خدانخواستہ کوئی بری خبر سنی ہے، یا کسی حادثے کا شکار ہوگیا ہوں، یا کسی بیماری میں مبتلا ہوگیا ہوں، یا کسی سے چھپنے کی کوشش کررہا ہوں۔

کبھی دماغ کہتا ہے، یہ کوئی اور شخص ہے جو میری نقل اتار کے میرا مذاق اڑاتا ہے۔ کبھی وہی دماغ کہتا ہے، ارے بھئی، یہ تو تم خود ہی ہو، اپنا مذاق کون اڑاتا ہے؟

گزشتہ دنوں اسکول کے زمانے کے ایک دوست سے ملاقات ہوئی۔ وہ اب ماہر نفسیات بن گیا ہے۔ میں نے اپنی کیفیت بتائی۔ دوست نے کہا، ’’تم اینگزائٹی کے مریض ہو۔ اس میں ایسا ہی ہوتا ہے۔ جسم کا حال کچھ ہوتا ہے، دماغ کچھ بتاتا ہے۔ کبھی دھوکا دیتا ہے، کبھی دھمکاتا ہے، بلاوجہ پریشان کرتا ہے۔‘‘

میں نے پوچھا، ’’اچھا تو پھر کیا کروں؟‘‘ دوست نے کہا، ’’اپنا نفسیاتی علاج کراؤ۔‘‘

کلینک سے باہر آکر میرے دھوکے باز دماغ نے کہا، ’’صرف افراد نہیں، اقوام اور معاشرے بھی اینگزائٹی کا شکار ہوجاتے ہیں۔ حقیقت کچھ ہوتی ہے، نظر کچھ اور آتی ہے۔ مرض کچھ ہوتا ہے، تشخیص کچھ اور ہورہی ہوتی ہے۔ نوشتہ دیوار کچھ ہوتا ہے، اخبار کی سرخی کچھ اور چھپ رہی ہوتی ہے۔ ایسی اقوام، ایسے معاشروں کا بھی نفسیاتی علاج ہونا چاہیے۔‘‘

 

مبشر علی زیدی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

مبشر علی زیدی

مبشر علی زیدی جدید اردو نثر میں مختصر نویسی کے امام ہیں ۔ کتاب دوستی اور دوست نوازی کے لئے جانے جاتے ہیں۔ تحریر میں سلاست اور لہجے میں شائستگی۔۔۔ مبشر علی زیدی نے نعرے کے عہد میں صحافت کی آبرو بڑھانے کا بیڑا اٹھایا ہے۔

mubashar-zaidi has 194 posts and counting.See all posts by mubashar-zaidi

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments