شان رمضان۔۔۔ دھماکے ہی دھماکے


یہ رمضان تو اللہ کے فضل و کرم سے بہت سی رحمتیں بکھیر کر جا رہا ہے۔ ایک ویب سائٹ کے مطابق گزشتہ 30 دنوں میں دنیا بھر کے 31 \"muhammadملکوں میں (اسلامی) دہشت گردی کے کل 217 حملے ہوئے جن میں 2000 سے زائد اموات ہوئیں اور لگ بھگ اتنے ہی لوگ زخمی ہوئے۔

اگر عراق شام اور لیبیا کے جنگ زدہ علاقوں کو چھوڑ کر، کہ جہاں دولت اسلامیہ کے حملوں کو جاری جنگ کا ایک حصہ قرار دیا جا سکتا ہے، انہی تین اسلامی ملکوں کے دیگر بظاہر پرامن علاقوں، مثلاً عراق کے دارالحکومت بغداد، اور دنیا کے کئی دیگر اسلامی ممالک کو دیکھا جائے تو مسلمانوں کے لئے یہ رحمتوں کا مہینہ کیا کیا برکتیں نہیں بکھیر کر گیا۔ بنگلہ دیش، ترکی، افغانستان، صومالیہ اور پھر اس بابرکت مہینے کو اس کے شایان شان رخصت کرنے کے لئے حجاز مقدس میں دو دن میں لگاتار دو حملے۔ اور واللہ آخری حملے نے تو جیسے رمضان کا حق ادا کر دیا، روضہ رسول کے باہر حملہ۔۔۔۔ اللہ اکبر! کیسا خوش نصیب حملہ آور ہو گا جسے روضہ رسول کے احاطے میں شہادت نصیب ہوئی۔

میرے مسلمان اور الباکستانی بھائیوں کو پہلے تو یقین ہی نہ آیا کہ کوئی دھماکہ ہوا بھی ہے یا نہیں، پھر کافی دیر تک انہیں لگتا رہا کہ کوئی شرارتی عرب بچہ ہو گا جس نے شغلاً اپنے گھر کا سلنڈر عین مسجد نبوی کے سیکورٹی گارڈوں کے سامنے لا کر پھاڑ دیا۔ لیکن جب سعودی حکومت نے ایک زور دار تھپڑ ان کے گالوں پر رسید کرتے ہوئے اعلان کیا کہ یہ حملہ خود کش ہی تھا تو انہیں فوراً اسرائیل اور امریکہ (اور کئی ایک کو ایران) اور دیگر اسلام دشمن طاقتوں کے ملوث ہونے کے ثبوت بھی مل گئے۔ وہ تو خوش قسمتی لنڈے کے دیسی لبرلوں کی کہ نہ تو ان کی کسی ملک پر حکومت ہے نہ ہی ان کی کوئی خفیہ ایجنسی ورنہ ملالہ یوسف زئی، عاصمہ جہانگیر، ماروی سرمد، پرویز ہودبھائی، نجم سیٹھی، وجاہت مسعود اور ندیم پراچہ کے ملوث ہونے کے ثبوت بھی اب تک مارکیٹ میں دستیاب ہو چکے ہوتے اور جنید جمشید کے کرتوں کی طرح دھڑا دھڑ فروخت بھی ہو رہے ہوتے۔ اور پھر میاں نوازشریف کی بھی کی قسمت کہ اس برس دل کے آپریشن کے باعث آخری عشرے میں عمرہ ادا کرنے اور اعتکاف کرنے سعودیہ نہ جا سکے ورنہ  بریکسٹ اور کیمرون استعفے کی طرح ان دھماکوں کا الزام بھی ان کے سر ہی آتا۔

اب اگلا مرحلہ حملہ آور کا مذہب دریافت کرنے کا تھا۔ وہ تو خیر ہم سب پہلے ہی جانتے ہیں کہ حملہ آور کبھی مسلمان نہیں ہوا کرتے۔ اسی لئے ہمارے جید علما کبھی کھل کر ان پر تنقید بھی نہیں کرتے۔ اپنوں کو تو بندہ کچھ بھی کہہ لیتا ہے اب پرائے کو بندہ کیا کہے۔ بہر حال جب یہ ثابت ہو گیا کہ روضہ رسول کے باہر حملہ کرنے والا مسلمان ہو ہی نہیں سکتا تو کچھ نا ہنجار لنڈے کے لبرلوں نے پوچھنا شروع کر دیا کہ 1979 میں خانہ کعبہ پر قبضہ کرنے والے کون تھے۔ برا ہو ان بھارتی امریکی ایجنٹوں کا کہ بہت سے واقعات پر تو ہم کسی نہ کسی طرح کنی کترا گئے مگر 1979 میں خانہ کعبہ پر قبضہ کرنے والے ہمارے گلے کی ہڈی بن گئے، نہ نگلی جائے نہ اگلی جائے۔

ابھی (تا دم تحریر) تو خیر معاملہ ذرا گرم ہے، بس چند گھنٹے گزر جانے دیجئے مارک زکربرگ کی خیر نہیں۔ اس کی یہ جرات کہ اس نے فیس بک پر سعودی جھنڈے کی ڈی پی والی آپشن نہیں دی اور نہ ہی سیفٹی چیک کی آپشن کو ایکٹیویٹ کیا۔

یہ تو غالباً ہر پاکستانی مسلم و غیر مسلم کو علم ہے، اور کیوں نہ ہو کہ ہر برس اسلامیات کی کتاب میں معمولی ردوبدل کے ساتھ کچھ ایسی ہی معلومات ہم تیسری جماعت سے ایم اے تک پڑھتے ہیں، کہ قبل از اسلام سے ہی رمضان کا مہینہ امن کا مہینہ سمجھا جاتا تھا اور اس مہینے میں جنگ وجدل سے گریز کیا جاتا تھا۔ اب بھلا کوئی مسلمان ان عرب کفار سے بھی بد تر ہو سکتا ہے؟ البتہ کل ایک مغربی تہذیب سے متاثر ہمارے دوست کہہ رہے تھے کہ چلو بھائیو ان حملے کرنے والوں کو غیر مسلم سمجھ کر ہی اپنے دل سے ان کی ہمدردیاں نکال دو اور دلجمعی سے ان کا نظریاتی اور جنگی دونوں محاذوں پر مقابلہ کر لو۔ یہ بات مجھے کچھ سمجھ نہ آئی کہ کیسے ہم اسلام کی سربلندی کے لئے لڑنے والی دولت اسلامیہ اور طالبان کی مذمت کریں اور ان سے جنگ کریں۔ آخر کو غزوہ ہند اور خراسان والی روایات بھی تو موجود ہیں۔ آخر کو امام مہدی کو بھی تو شام کے علاقے میں ہی ظاہر ہونا ہے، آخر کو دمشق کی جامعہ مسجد ہی تو وہ جگہ ہے جہان مسیح موعود کا ظہور ہو گا۔ معاملہ ذرا گھمبیر ہے، محلے کی مسجد کے مولوی صاحب سے رہنمائی طلب کروں گا۔ کیا ہوا جو لوگ ان کے پاس اپنے بچے پڑھنے کے لئے بھیجتے ہوئے گھبراتے ہیں اور اس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ میں خود یونیورسٹی سے اعلٰی تعلیم یافتہ ہوں اور مولوی صاحب بمشکل پڑھنا لکھنا جانتے ہیں۔ آخر کو دین کا علم تو انہی کے پاس زیادہ ہے نا۔

یہ قاطف کدھر ہے؟ سعودی عرب میں؟ اوہ اچھا یہاں تو \”ان\” کی اکثریت ہے۔ یہ بھی تو دراصل یہودیوں کے ایجنٹ ہیں۔ اللہ مغفرت کرے اس مرد مجاہد کی جس نے امریکہ کے ساتھ مل کر ہمارے سعودی دوستوں کے مفادات کو نقصان پہنچانے والوں کے ہم فرقہ لوگوں کو قتل کیا۔ اور وہ جو ہمارے ازلی دشمنوں کے ساتھ مل کر بندرگاہیں بناتے پھرتے ہیں وہ بھی تو قاطف میں مرنے والوں کی طرح ہی بدعتی نماز پڑھتے ہیں۔

بہت جلد پوری دنیا پر مسلمانوں کا قبضہ ہو گا کیونکہ اسلام امن کا دین ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments