‎مجھے یہاں سے نکالو


‎مجھے یہاں سے نکالو 28 سالہ خوبرو شازو نے محلے کی ایک خرانٹ عورت سے کہا، شازوکو علم تھا کہ منہ میں پان دبائے موٹے موٹے ہونٹوں والی کلثوم اسے یہاں سے نکال کر کہاں پہنچا سکتی ہے مگر وہ کلثوم کے بغیریہاں سے نکل نہیں سکتی، کیونکہ اس کی ٹانگیں اس کا ساتھ نہیں دے سکتی۔

‎شازو جب ماں کے پیٹ سے نکلی تھی توجیسے بازو، ہاتھ اور سر لے کے نکلی تھی اسی طرح ٹا نگیں بھی ساتھ لے کے نکلی تھی۔ لیکن جیسے اپنی خراب قسم کی وجہ سے وہ غربت کی سطح سے نیچے بسنے والے ماں باپ کے گھر پیدا ہوئی تھی اسی طرح اپنی خراب ٹانگیں لے کر پیدا ہوئی تھی، جس کی وجہ سے اگر دو تین سال بعد اسے کوئی کپڑے کو جوڑا زکواۃ میں دے دیتا تو وہ محلے کی درزن کوکبھی کھڑے ہو کر اپنی شلوار کا ناپ نہ دے سکی۔

باپ سودا بیچنے جاتا تو کبھی کبھاراس کی رہڑھی پہ بیٹھنے کی ضد کرتی اور باپ اسے ریڑھی پہ بٹھا کر محلے کا چکردلا دیتا مگر جب سے باپ ریڑھی کی بجائے چار پائی پہ لیٹ کر قبرستان گیا ہے شازو چار پائی پہ ہی زندگی گزار رہی، ماں لوگوں کے گھروں کے برتن صاف کرے جھاڑو پوچا لگائے یا شازو کو کندھے پہ ڈال کر گھر کے باہر بٹھائے، ماں بس ایک دفعہ صبح اور ایک دفعہ رات کو اسے اٹھا کر غسل خانے لے جاتی اور واپس چار پائی پہ ڈال دیتی، اس کے زیر ناف اور بغلوں کے بالوں کی صفائی بھی عید عید پر ہوتی تھی مگر دو سال ہوگئے ماں کو بھی محلے کی عورتیں نہلا کر شازوکے والد کے پاس چھوڑ آئی ہیں۔ بھا ئی بھابھی نے تو ماں کے چہلم سے پہلے ہی اپنا رنگ دکھا دیا تھا۔

‎منہ میں پان دبائے موٹے موٹے ہونٹوں والی کلثوم ہفتہ دو ہفتہ بعد آتی شازو کی مٹھی میں پانچ دس روپے رکھ دیتی اور شازو کے رخساروں اور سینے پہ ہاتھ پھیرتی رہتی، اور شازو کے پیشاب والا برتن دو دو دن اس کی چارپائی کے نیچے پڑا رہتا تو ایک دن جب منہ میں پان دبائے موٹے موٹے ہونٹوں والی کلثوم نے شازو کی مٹھی میں دس روپے رکھ کر شازو کے سینے پہ ہاتھ پھیرا تو شازو نے کلثوم کا ہاتھ پکڑا اور تکیے کے نیچے سے وہ سارے روپے نکال کر ( جو کلثوم ہی اسے دیتی رہی تھی ) کلثوم کی مٹھی میں دیتے ہوئے کہا

‎مجھے یہاں سے نکالو

‎کلثوم کو یہ امید نہیں تھی کہ اسے شازو کے ساتھ ساتھ شازو کو رام کرنے کے لیے خیرات میں دی رقم بھی ساتھ مل جائے گی۔ آج پہلی دفعہ کلثوم کو خیرات کا ثواب ملتا نظر آیا اور آج پہلی دفعہ شازو کو اپنا آپ قیمتی لگا، ایک ہفتہ کے اندر اندر شازو کو نئے کپڑوں اور پارلر سے سجا کر ڈیرے پہ پہنچا دیا گیا۔

‎ہر گاہک کے دل میں صرف دو پانچ منٹ خدا ترسی پیدا ہوتی مگر جب شازو گاہک کے گلے میں باہیں ڈال کران کے ہونٹوں پہ اپنی زبان پھیرتے اپنے ہاتھ کو زیر ناف سے ذرا نیچے لے جا کر جنبش دیتی اور اپنی مترنم آواز میں کہتی۔ ٹانگیں رکاوٹ تو نہیں ڈالتیں، کیوں فکر کرتے ہیں آپ تو گاہک نہ اس کا ہاتھ پرے کر سکتا نہ شازو کے ہونٹ، ‎کلثوم کے منہ میں اب ایک کی بجائے دو پان رہنے لگے اور وہ سوچنے لگی اگر کاروبار اسی طرح جاری رہا تو سال کے اندر اندر میں ہونٹوں کی سرجری کرا لوں گی۔

‎عابد شازو کا اپنی ناف کی طرف بڑھتا ہاتھ ایک طرف کرتا اور شازو کے ہونٹوں کے آگے اپنا رکھتے ہوئے کہتا ”ہم باتیں کرتے ہیں، اور پھر اتنی باتیں ہوتیں اتنی باتیں ہوتیں کہ کلثوم جب دروازہ کھٹکاتی عابد طے کی گئی رقم کلثوم کے ہاتھ میں دے دیتا اور پھر شازو سے باتیں کرنے لگ جاتا۔ اور پھر تین دن بعد عابد شازو کو ڈاکٹر کو دکھانے کے بہانے اپنے ساتھ لے گیا اور شازو کو کپڑوں کی ایک فیکٹری میں ملازمت دلادی۔ رات کو عابد شازو کو پڑھاتا، اب عابد شازو کے ساتھ اپنی اور شازو کی بیٹی عالیہ کو اکٹھا پڑھاتا ہے۔

‎مجھے علم ہے یہ سب پڑھ کر آپ کی آنکھیں بھیگ گئی ہیں آپ عابد کی تصویر اپنے کمرے میں لٹکانا چاہتے ہیں، اگر اپ تھوڑے سے بھی لبرل ہیں تو آپ میری نئی تحریر کو اپنے بچوں کو پڑھانا چاہتے ہوں گے، یقین جانیئے میری بھی یہی حالت ہوئی تھی جب میں نے یہ ٹی وی ڈرامہ دیکھا تھا۔ میں بھی بہت روئی تھی، میں بھی عابد کی تصویر اپنے کمرے میں لٹکانا چاہتی تھی مگر  مگر مجھے شازو تو ہر شہر ہر گلی میں ملیں مگر عابد کوئی نہیں ملا وہ کپڑوں کی فیکٹری کہیں نہیں ملی جہاں چکلے سے اُٹھائی معذور شازو کام کرتی ہو، مجھے کلثوم تو منہ میں پان دبائے شازو کے رخساروں پہ ہاتھ پھیرتی بہت نظر آئیں مگر شازو کو سرخ جوڑا پہنا کر باعزت طریقے سے اپنے گھر لے جاتا عابد نہیں ”

‎ہم کیوں بناتے ہیں ایسے ڈرامے کیوں لکھتے ہیں نصاب ممیں ایسی کہانیاں؟ کیوں درس دیتے ہیں کہ معذور لوگوں کی مدد کرنی چاہیے معذور افراد کے ورثاء میں یہ شعور کیوں بیدار کرتے ہیں کہ اپنے معذور بچوں سڑک کنارے بھیک مانگنے کے لیے نہ بٹھاؤ۔ جب ہم نے معذور افراد کو اس معاشرے کا عزت دار کردار بنانا ہی نہیں۔

‎میں نے جو کہانی آپ کو سنائی وہ ایک ڈرامہ تھا اب میں اپ ایک حقیقی زندگی سے ملوا رہی ہوں جس نے سڑک کنارے بھیک مانگنے کی بجائے تعلیم حاصل کی مگر اس معاشرے میں با عزت کردار بننے کی قطار میں کھڑا ہے۔

جی ہاں اویس کھڑا ہے، وہیل چیئر پر تو ہمارا سماج پڑا ہے وہ سماج جو ہمیں ہر پل ہر گھڑی صرف اور صرف دلاسہ دیتا ہے۔ جو ہمارے لئے عملی طور پر کچھ بھی نہیں کرنا چاہتا۔ میں نے آج ہی کراچی کے باسی راجہ محمد اویس کی کہانی اُسی کی زبانی ہم سب پر پڑھی۔ تو میں یہ سب لکھنے پر مجبور ہوگئی۔ خود ہی انصاف سے بتائیے کہ جب اس کے والدین اس دنیا میں نہیں رہیں گے تو اویس کیا کرے گا؟ اویس کو مستقل سرکاری نوکری کی ضرورت ہے جس کے لئے وہ مطلوبہ تعلیمی لیاقت بھی رکھتا ہے۔

سرکاری نوکری اس کے محفوظ مستقبل کی ضامن ہوگی۔ اپنی کہانی وہ خود لکھ چکا ہے مجھے اس کی کہانی زیادہ نہیں لکھنی، مجھے تو صرف اپنے معاشرے کی کہانی لکھنی تھی جو میں نے لکھ دی۔ اس کہانی میں جو کلثوم ہے وہ میں ہوں، اور یہی کلثوم وہ تمام اینکرز، پروڈیوسرز اور میڈیا چینلز کے مالکان ہیں جو اُس کو اپنے شوز میں ریٹنگز کے لئے بلاتے ہیں۔ انہوں نے محض اپنا پرائم ٹائم بیچنے کے لئے اس کو اسکرین کے سامنے بٹھا کر کہانیاں بنائی قصے سنائے اس کی ہمت اور بہادری کے پُل باندھے وغیرہ وغیرہ۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اتنا پڑھ لکھ جانے کے بعد، اپنی زندگی کے کبھی نہ لوٹ کے آنے والے سولہ سال تعلیم و تدریس کے اندھے کنویں میں جھونکنے کے بعد بھی اس کا مستقبل تاحال اندھیروں میں کیوں ہے؟ ہم نے کیوں اسے بند گلی میں لاکر کھڑا کردیا ہے؟ کیا بحیثت معاشرے کا حصہ ہم پر اس کی ذمہ داری عائد نہیں ہوتی؟ ریاست اور حکومت کا تو ذکر کرنے سے ہی منہ کڑوا ہوجائے گا۔ مجھے شرم آرہی ہے آج یہ سب لکھتے ہوئے۔ عملی طور پر کچھ کرنے کے بجائے آخر کب تک ہم اویس کی تکلیف کا محض اشتہار لگاکر اسے سرکس کا حصہ بنائیں گے؟

میں اسے سرکس نہ کہوں تو اور کیا نام دوں؟ ہمارا معاشرے بے حس اور مردہ پرست ہے ہم صرف لاشوں پے رونا جانتے ہیں۔ زندہ رہنے والوں کو زندہ رہنے کی سزا دیتے ہیں۔ شاید اویس کے مرنے بعد اسے بھی ہیرو بنادیں۔ ! پوری ایمانداری سے فیصلہ کیجئے کہ کیا صرف معاشی ضروریات کے علاوہ اس کی کوئی ضرورت نہیں؟ اُس کی نفسانی خواہشات کا کیا؟ ان کی تکمیل کیسے ہوگی؟ وہ تو اکثریت کی طرح یہاں وہاں منہ بھی نہیں مارسکے شاید۔

شرم آرہی ہے مجھے کہ ہم اویس کا درد بیچ کر اپنی کمائی کررہے ہیں، میں بھی اس کی کمائی کروں گی۔ میری اس تحریر پر جب بے تحاشا لائکس اور کمنٹس دیکھونگی تو میرے منہ میں بھی ایک کی بجائے دو پان ہوں گے۔ کلثوم کی طرح ہمارے سیاتدانوں سے لے کر اینکرز تک سب نے اویس کے سینے پر نہ سہی سر پر ہاتھ پھیرا لیکن سر پر ہاتھ کسی نے نہیں رکھا۔ ہم اسے اس سرکس سے کب نکالیں گے؟ اور کون نکالے گا؟ اس کا عابد کب آئے گا؟ کس کی ذمہ داری ہے اویس؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).