ہاسٹلز میں رہنے والے لوگ


بہت سی تحریریں روزانہ آنکھوں کو راحت بخشتی ہیں پر آج میں سوچ رہا ہوں معاشرے کے ایک ایسے طبقے کے بارے میں بھی تھوڑی بات ہونی چاہیے جو حصولِ علم کے لیے گھر سے دور ہاسٹل نُما جیلوں میں رہائش پزیر ہوتے ہیں۔

میں خود پچھلے چھ سالوں سے مختلف ہاسٹلز میں رہ رہا ہوں۔ ہاسٹل کی زندگی بڑی عجیب بھی ہوتی ہے اور خوبصورت بھی۔ جب انسان شروع میں ہاسٹل میں آتا ہے تو مہینہ بھر تو گھر کی یاد اُس کا پیچھا نہیں چھوڑتی اور اکثر لوگ مختلف کونوں کُھدروں میں یا تو روتے دِکھائی دیتے ہیں یا گھر کی یاد سے ان کا حال بے حال ہوا ہوتا ہے۔ پھر جب اس حصے سے نکلتے ہیں تو تب تک چند دوست بن چُکے ہوتے ہیں جن کے ساتھ گپ شپ لگا کر دل بہلایا جاتا ہے۔ ان دوستوں سے ایسی اپنائیت ہو جاتی ہے کہ پھر گھر بھی کبھی کبھی ہی یاد آتا ہے۔ ہاسٹل کے وہ شب و روز پھر جگمگاتے گزرتے ہیں اور انسان کو زندگی کا احساس ہوتا ہے۔

سب سے زیادہ تنگ کرنے بلکہ اگر یہ کہا جائے رُلا دینے والا معاملہ تو مضائقہ نہ ہو گا وہ ہوتا ہے کھانے کی بدحالی۔ ایک بات تو اٹل ہے کہ گھر سے باہر کا کھانا لاکھ اچھا ہو پر گھر کے کھانے کے ذائقے بُھلا نہیں سکتا مگر ہاسٹلز میں کھانے کا معیار انتہائی ناقص ہوتا ہے اور اچنبے کی بات یہ ہے کہ پراؤیٹ ہاسٹلز میں تو پوچھنے والا بھی کوئی نہیں ہوتا۔ ہاسٹل مالکان کی اپنی من مانیاں چل رہی ہوتی ہیں اپنی مرضی سے وہ کرائے وصول کرتے ہیں اور انتظامات بھی ان کی مرضی کے ہوتے ہیں۔ اب طلبہ اپنی قسمت کو کوسنے کے علاوہ کچھ نہیں کر پاتے۔ صفائی کا نظام بھی بدتر ہوتا ہے۔

اگر آپ کی قسمت بہت ہی خراب ہے اور آپ بیمار پڑ جائیں تو پھر تو آپ موت کے فرشتے کا انتظار کریں کیونکہ کوئی آپ کی بیمارپُرسی کرنے والا نہیں ہوتا۔ اگر خوش قسمتی سے آپ کا روم میٹ اچھا ہے تو حالات مختلف ہو سکتے ہیں ورنہ قوّی امکان ہے کہ آپ گُزر جائیں گے۔

یہ حال پرئیویٹ ہاسٹلز کا ہے لیکن پبلک سیکٹر ہاسٹلز کے حالات کچھ زیادہ اچھے نہیں ہیں لیکن وہاں نسبتاً حالات بہتر ہیں۔ اس بہتری کی وجہ طلبہ کی مداخلت ہے جبکہ پرائیوٹ ہاسٹلز میں طلبہ کو تنظیم سازی سے دور رکھا جاتا ہے۔ حکومتی مداخلت یا طلبہ جب تک یونین سازی نہیں کرتے یہ مسائل جوں کے توں رہیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).