حنیف کے سرخ پرندے


محمد حنیف بھی کیا عجیب شخص ہے۔ جہاں پاکستانی انگریزی مصنفین اشرافیہ کے لیے لکھتے ہیں، ان کے ماحول میں اپنے کردار رکھتے ہیں، تا کہ ان کی کتاب زیادہ پڑھی جاے۔ حنیف نے اپنی پہلی کتاب A case of exploding mangoes ہی مرحوم جنرل ضیا کے طیارہ حادثے کے پس منظر میں لکھی تھی۔ اس کتاب کا مقبولیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس کا دنیا کی ستائیس زبانوں میں ترجمہ ہوا۔ حنیف کی دوسری کتاب Our lady of Alice Bhatti ایک نرس اور ویٹ لفٹر پولیس سب انسپکٹر کے گرد گھومتی تھی، جو لوئر مڈل کلاس سے تعلق رکھتے تھے۔ ان کی تیسری کتاب Red Birds بھی روایت کے مطابق ایک مہاجر کیمپ میں پلنے والے خاندان کی کہانی ہے۔ ٹین ایجر مومو، اس کی اماں جانی جس کا خوب صورت انگریزی ترجمہ Mother Dear کے ذریعے کیا گیا ہے، ان کا کتا مٹ اور اس خاندان کا ایک گم شدہ بھائی علی، ناول کے مرکزی کردار ہیں۔ وہ اس بات سے بے خبر ہیں کہ علی یو ایس ایئر فورس میں ایلی بن کر فائٹر پائلٹ بن چکا ہے۔ ایلی کا جہاز اسی صحرا میں تباہ ہو جاتا ہے، جہاں وہ کیمپ واقع ہے۔ اس کو اسی کا بھائی مومو مٹ کے ساتھ ریسکیو کرتا ہے، لیکن وہ دونوں اپنے بھائی ہونے سے بے خبر ہیں۔ اس کے بعد ناول کی اٹھان شروع ہوتی ہے، جو ایک عظیم المیے پر اختتام پذیر ہوتی ہے۔
ناول ایک تجریدی رنگ میں لکھا گیا ہے جس میں کردار اپنے آپ سے خود کلامی کرتے ہیں اور اسی میں کہانی آگے بڑھتی ہے۔ پاکستانی انگریزی ادب میں اس قسم کا یہ اولین تجربہ ہے، جس میں ایک کتا بھی خود کلامی کرتا ہے۔ ناول ایک شدید جذباتی مد و جذر سے گزرتا ہے، جس میں قاری کہیں تو کرداروں کے لیے ہم دردی محسوس کرتا ہے اور کہیں ان کے المیے کو اپنا محسوس کر کے آنکھوں کے گوشے نم پاتا ہے۔ ناول کی سب سے خاص بات اس کا مزاح ہے۔ حنیف نے ایسے سنجیدہ مراحل پر بھی بے ساختہ مزاح کی ایسی پھل جھڑیاں چھوڑی ہیں، جو صرف وہی کر سکتے ہیں۔ کتے مٹ کی زبانی تو کئی ایسے ڈائیلاگ ہیں کہ بندہ ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہو جاتا ہے۔ قہقہوں کے اس دور میں صرف ایک لفظ یا ایک سطر سے ناول ایک دم پھر سنجیدہ بلکہ المیہ ہو جاتا ہے۔ امریکی استبداد کے خلاف استعارے میں ایسی شاندار تنقید کی گئی ہے جو کوئی اور نہیں کر سکتا۔ نا صرف امریکی مظالم پر تنقید ہے، بلکہ ان کی انگریزی زبان کو ایک نیا رنگ دینا بھی تختہ مشق سے اتارا گیا ہے۔
یہ ناول انسانی حسیات کو جکڑ لیتا ہے۔ انسانوں کے اندرونی خلفشار، خواہشات کا جوار بھاٹا، ان کی نا آسودگی، ایک ہی وقت میں ظالم اور ہم درد بن جانا، یہ سب ناول کے خاص تھیم ہیں۔ انسانی المیوں کو تشبیہات، خاص طور پر سرخ پرندوں اور سرخ دھول سے تعلق دینا، قاری کو اس حزن میں مبتلا کر دیتا ہے، جس کی کمی سے دنیا میں بے حسی بڑھی ہے۔ خدا سے سوال جواب کا ایک بہت جھنجوڑ کر رکھ دینے والا حصہ ہے، جو قاری کو بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر دیتا ہے۔
یہ ناول بنیادی طور پر ایک سسکی ہے، صحرا میں ابھری ایک ایسی سسکی، جس کی بازگشت انسانیت کو ہلا کر رکھ دے۔ یہ ایک آہ ہے، ایک کراہ ہے، جس میں انسانی ظلم اور مظلومیت کی کل داستان رقم ہے۔
ناول کی واحد قابل تنقید شے اس کا آغاز میں بوجھل خود کلامی ہے۔ قاری شروع میں اپنے آپ کو اس خود کلامی کی وجہ سے کچھ کنفیوژ سا محسوس کرتا ہے۔ وقت کے ساتھ یہ کیفیت رفع ہو جاتی ہے۔ ’’ریڈ برڈز‘‘ صرف حنیف کا نہیں پورے پاکستان کا فخر ہے۔

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).