ذکا الرحمان رخصت ہو گئے


تھکتا بھی نہیں اور بھٹکتا بھی نہیں ہے\"dilawar\"

اے موت ترا ہاتھ، کہ رُکتا بھی نہیں

آج دل بہت ملول ہے۔ وہ جو ہمارے بڑوں میں ایک بڑا تھا…. لو آج وہ بھی رخصت ہوا۔  وہ تو مقدس مہینے میں اپنے خالق سے جا ملا مگر ہمارا دل ڈوبا جا رہا ہے۔ آج موت سے ہم نے جی بھر کے شکوے کیے۔ ارے ہمارے سر پر کچھ تو ادب کاسایہ رہنے دے۔ تو میرے سامنے سامنے احمد ندیم قاسمی، منیر نیازی، پروین شاکر، منشایاد،شہزاد احمد، خالد احمد، وزیر آغا، عبداللہ حسین، احمد عقیل روبی، انتظار حسین، انور سدید اور بہت سے دیگر نابغہ روزگار کھا گئی ہے۔  کیا تو کچھ برسوں تک رُک نہیں سکتی…. ہمیں تو اپنے پاﺅں پر کھڑا تو ہو جانے دے…. وغیرہ وغیرہ…. مگر وہ کہاں سنتی ہے۔ اس کے تو کان ہی نہیں ہیں۔  نہ ہی اس کا دل ہے کہ جس میں کسی کے دردکا احساس جاگے۔ اس نے منہ کھولا ہوا ہے جو قیامت تک بند ہونے کا نہیں ہے۔ جو نگلتی ہے اسے اگلتی نہیں۔ بس روزِ حشر کی جانب دھکیلتی چلی جاتی ہے۔

اے طوفانِ فنا کی بے مہار لہر رحم کر، رحم!

ذکا الرحمان صاحب تو بہت نفیس آدمی تھے۔  بات کرتے تو منہ سے گویا پھول جھڑتے، چلتے تو زمین نہ دکھتی، کسی کے شہ پارے پر لگی لپٹی بات انہیں پسند نہ تھی رکھ رکھاﺅ اپنی جگہ اورسچائی اپنی جگہ۔ وہ دوستوں کے دوست اور انتہائی کھرے مگر دھیمے لہجے میں بات کرے والی دبنگ شخصیت تھے۔ اس کی رحلت پر یہی خراجِ تحسین ہے کہ\"zaka\"

پھولوں کی طرح تھے جو ستاروں کی طرح تھے

اے خاک تجھ میں کیسے بسر ہوں گے چیدہ لوگ

کلاسیک لاہور نے ان کی تین کتابوں کے مجموعے ’ذکا الرحمان کے افسانوں ‘ میں یکجا کر دیے گئے ہیں۔ یعنی آپ اسے چھیالیس افسانے کی ایک کتاب کا نام دے سکتے ہیں۔ جن میں’ درد آئے گا دبے پاﺅں‘، ’خوابِ سنگین‘اور ’میں اور زمین‘ شامل ہیں۔  کتاب کا دیباچہ انور سجاد نے تحریر فرمایا ہے۔  ان کا ایک مجموعہ’ ذات کے اندر‘ ہے،جس میں ان کے کچھ نئے اور کچھ پرانے افسانے شامل ہیں، اسے بھی کلاسیک والوں نے پبلش کیا ہے۔

 افسانے کے حوالے سے ذکاءالرحمان کا نام بر صغیر پاک و ہند میں بہت معتبر ہے۔  ایک بار شمیم حنفی انڈیا سے حلقہ ارباب ذوق لاہو ر میں تشریف لائے۔  لوگوں نے ان سے افسانے کی بقا اور موجودہ رویوں پر سوال کیا تو انہوں نے نہایت سعادت مندی سے ذکاءالرحمان کی طرف اشارہ کر کے کہا کہ اس کے بارے میں آپ ذکاءصاحب سے پوچھیں ان سے زیادہ افسانے کے مستقبل کو کون جانتا ہے۔ ذکاءصاحب ایک علمی ادبی شخصیت ہونے کے ناطے حرف و صوت کے مجاور تھے۔  شعر اور شعور سے محبت بھی ان کی فطرت میں داخل تھی۔ ان کی کتابوں کے سارے نام شاعرانہ ہیں۔  ان کا شعر ی ذوق کمال درجے کا تھا۔  ہم جب بھی ان کے سامنے اتفاقاتِ زمانہ کا شکوہ کرتے کہ آپ تو شاعرانہ مزاج رکھتے ہیں اور کسی بھی بڑے محقق نقاد کی طرح شاعر ی کا تجزیہ کرتے ہیں،آپ تو شاعری کے آدمی تھے آپ فکشن کی طرف کیوں چل پڑے۔ آپ کو تو کوئی خاص فرق نہیں پڑا لیکن اردو ادب کو ایک اچھے شاعر اور تجزیہ نگار کا نقصان ہوا ہے تو آپ سویٹ سی مسکراہٹ کے ساتھ اثبات میں سر ہلا دیتے مگر منہ سے کچھ نہ کہتے۔ آپ افسانہ نگار ہونے کے باوجود بھی شعری محفلوں کو سراہتے، نہ صرف سراہتے بلکہ اپنے گھر بھی ان محافل کا انعقاد کرتے۔ اس قدر قرینے کے آدمی \"zakaتھے کہ کبھی کسی ادبی بزم میں اپنی لیاقت کا رعب نہ جھاڑتے۔  اچھے شعر پر یا اچھی تخلیق پر ان کی بے باکانہ رائے ہی ان کی پہچان تھی۔ لاہور کی ادبی فضا میں کچھ ادیب ایسے ہیں جو اپنے دوغلے کردار سے جانے جاتے ہیں۔  جہاں نظریاتی سوچ سے مفاد ملتا ہے وہاں تسبیح اور ٹوپی پکڑ کر ریا کاری کرتے ہیں اور اگر کہیں بھنک پڑے کہ پروگریسیوز میں کچھ ایوارڈز بٹنے والے ہیں تو وہاں کہنا شروع کر دیں گے کہ کون سا مذہب کیسا مذہب،ضیا ءکی باقیات ادب کے راستے میں بہت بڑی رکاوٹ ہے…. وغیرہ وغیرہ۔  ان لوگوں کے یہ دو چہرے دیکھ کر سچے ادیب کا کلیجہ منہ کو آتا ہے۔ بعض اوقات تو لفٹ اور رایٹ کے لوگ ایسے کرداروں کو جان بھی چکے ہوتے ہیں،ان پر بات بھی کرتے ہیں، ان کی اس پہچان سے ان کو مفر بھی نہیں ہوتا مگر یہ کہہ کر خندہ پیشانی کا اظہار کرتے ہیں کہ کیا کیا جائے ان سے پرانی یاد اللہ ہے،کالج اور یونی ورسٹی کے دور کی دوستیاں ہیں،ان کا کردار ان کے ساتھ ہمارا کردار ہمارے ساتھ،جانتے تو ہم سب ہیں مگر….

وہ اپنی خو نہ چھوڑیں گے، ہم اپنی وضع کیوں بدلیں

ذکاءالرحمان منافکانہ رویے کے سخت مخالف تھے۔ دوہری پالیسی ان کو اچھی نہیں لگتی تھی۔ وہ بڑے اشتیاق سے اپنے گھر میںادبی محافل کا انعقاد کرتے اور شہر کے بڑے شعرا کو دعوت سخن دیتے۔  پچھلے سال اجمل سراج کراچی سے تشریف لائے تو ذکاءصاحب نے اپنی بیٹی کے گھر ایک بڑی شعری نشست رکھی جس میں ایوب خاور،شوکت فہمی،ڈاکٹر غافر شہزاد،عامر فرازاور بہت سے اور نامور شعرا بھی مدعو تھے۔  چشمِ فلک یہ دیکھ دیکھ کر محظوظ ہو رہی تھی کہ تمام شعرا کی محفل میں صاحب صدارت سرور سکھیرا صاحب تھے اور سامعین جو کہ ان کی فیملی میمبرز اور دوست احباب تھے انہماک کے ساتھ شاعری سے لطف اندوز بھی ہو رہے تھے اور ہر اچھے شعر پر جھوم جھوم کے داد بھی دے رہے تھے۔ وہ سارے سامعین صرف سامعین تھے ان میں شاعر ایک بھی نہیں تھا۔  اس سے ہمیں اندازہ ہوا کہ ذکاءصاحب کے دوست احباب اور رشتے دار ادب کے بہت قدر دان ہیں۔

ذکاءالرحمان کے جانی جگری دوست سرور سکھیرا صاحب ہی ہیں۔ دونوں دوست باری باری اپنے گھر محفل سخن رکھ کر اپنے ادبی ذوق کو \"zakaطراوت دیتے رہتے تھے۔  یوں ہوتا کہ ایک مہینے ذکا صاحب کے گھر محفل ہوتی تو اگلے ماہ سرور سکھیرا صاحب ڈی ایچ اے میں اہل فکر کو اکٹھا کرتے۔ اب یہ حسین روایتیں قصہ پارینہ بنتی جا رہی ہیں جن کی آبیاری یہ دونوں دوست کر رہے تھے۔ ہم نے ہمیشہ اس جوڑی کو اکٹھے دیکھا۔ حلقہ اربابِ ذوق ہو یا کوئی نجی محفل یہ دونوں دوست اکٹھے پائے جاتے۔ دونوں اچھی شہرت کے حامل ہونے کی وجہ سے عزت کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے۔ یہ دونوں یک جان دو قالب کی طرح تھے۔  مجھے سرور سکھیرا صاحب نے ہی ذکاءصاحب کی صحت ٹھیک نہ ہونے کی اطلاع دی تھی۔ پہلے تو مجھے یقین نہ آیا۔  کیوں کہ ستائیس جون 2016ءکو ذکا صاحب نے میری فیس بک پر لگائی گئی ایک تازہ غزل پر کمنٹ کیا تھا جو میں انہیں کے الفاظ میں دھراتی ہوں کہ

 ” واہ واہ شاہدہ کیا کہنے…. بہت ہی اوریجنل شاعرہ…. یہ پروین شاکر وغیرہ کی کاربن کاپی نہیں“…. میں نے سرور سکھیرا کی اطلاع پر جب ان کی بیٹی سے رابطہ کیا تو انہوں بتایا کہ ذکاءصاحب کومے میں ہیں اور اس وقت وہ نیشنل ہسپتال میں ہیں۔  اس بات سے اگلے ہی دن ان کی وفات کی خبر اہل خانہ اور اہل سخن پر بجلی بن کر گری۔ جب انتظار حسین فوت ہوئے تو لوگوں نے کہا کہ افسانے کا آخری آدمی رخصت ہوا۔ یاد رہے کہ’آخری آدمی‘ انتظار حسین کے ایک افسانے کا نام تھا۔ اب آنکھوں میں آنسووں کے ساتھ میں کہتی ہوں کہ نہیں، نہیں، انتظار صاحب! افسانے کا آخری آدمی تو اب رخصت ہوا۔

ان للہ و انا الیہ راجعون۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments