بندر ہمارے بھائی ہیں


یہ سن 99 کی بات ہے۔ میں ساتویں جماعت میں تھا۔ ہم مولانا صاحب کی کوٹھی کے پائیں جانب سرونٹ کوارٹر میں رہتے تھے۔ مولانا کی کوٹھی کا ایک پورشن کرائے پر چڑھا ہوا تھا۔ ان دنوں ان کے کرائے دار کراچی سے تعلق رکھنے والے میاں بیوی تھے۔ جو ماشا اللہ سے دونوں ڈاکٹر تھے۔ ڈاکٹر شائستہ اور ڈاکٹر محسن۔ وہ ترابی سید تھے۔ ان کے دو ہی بچے تھے۔ فروا اور سجاد۔ سجاد بے چارہ ہکلا کر بولتا تھا اور اس کا ایک بازو اور ٹانگ کمزور تھے۔

اسے کرکٹ کھیلنے کا بہت شوق تھا۔ میں اور میرا بھائی اور ہمارا ہمسایہ عدنان مولانا صاحب کے باڈی گارڈ چاچو انصر شاہ کے ساتھ شام کو گلی میں ہی کرکٹ کھیلتے۔ سجاد بھی ہمارے ساتھ کھیلنے آجاتا۔ مگر اس کی امی یعنی ڈاکٹر شائستہ کو سجاد کا ہمارے ساتھ کھیلنا پسند نہیں تھا۔ وہ سمجھتی تھیں کہ شاید ہم دوسرے تیسرے طبقے کے غیر شائستہ بچے ہیں اور ان کا بچہ ہمارے ساتھ کھیلنے سے بری عادتیں اپنا لے گا۔

خیر! ڈاکٹر شائستہ بہت دکھی خاتون تھیں۔ ان کے کل پانچ بھائی تھے جن میں سے چار ایک ہی وقت میں فرقہ واریت کے سبب ہوئی ٹارگٹ کلنگ میں مارے گئے تھے۔ وہ سب بھائی ایک کار میں کہیں جارہے تھے جب دہشت گردوں نے نشانہ بنا کر مار دیا۔ یہ لوگ کراچی سے جان بچا کر یہاں پناہ لینے آئے تھے۔ اس صدمے کے سبب ڈاکٹر شائستہ کی ذہنی حالت کوئی بہت معقول نہیں تھی۔ میری ماں ہمیشہ اس کے اس صدمے کو سوچ کر رو پڑتی تھی۔

ایک روز ایسا ہوا کہ محلے میں کسی کا پالتو بندر بھاگ کر ہمارے گھر کی طرف آنکلا۔ پہلے پہل تو اس نے ہمارے صحن میں خوب اودھم مچایا۔ ہمارے پاس صحن ہی تو تھا جہاں ہمارا تمام وقت گزرتا تھا۔ رہنے کو چونکہ ایک ہی مختصر سا کمرہ تھا سو میری ماں سارے کام صحن میں ہی کرتی تھی۔ نلکے پہ کپڑے دھونا۔ برتن دھونا۔ ہمیں نہلانا دھلانا۔ کھانا پکانا۔ کسی ایک بچے کو جھولے میں سلائے رکھنا۔ یہ سب کام اسی صحن میں ہوتے تھے۔ موسموں کے مطابق ہماری ماں انتظامات بدلتی رہتی تھی۔ گرمیاں ہوتیں تو ہمسایوں کے گھر لگا انار کا درخت جس کی شاخیں ہمارے صحن میں چھاؤں کرتی تھیں۔ ہمارا ٹھکانہ ہوتا تھا۔ سردیوں میں ہمہ وقت گیس کا چولہا جلتا رہتا اور ہم اس مختصر کمرے میں سب بہن بھائی سردیوں سے بچے رہتے۔

یہ بندر جن دنوں آوارہ پھر رہا تھا یہ بہار کے دن تھے۔ کوئی دن کے گیارہ بارہ بجے تھے جب وہ ہمارے صحن میں آیا۔ میرا بھائی تقی بہت چھوٹا تھا۔ پنگھوڑے میں سویا ہوا تھا۔ پہلے پہل بندر نے اس کا جھولا جھلانا شروع کیا۔ پھر اس نے ہمارے برتن اٹھا اٹھا کر پھینکے۔ میری ماں نے شاید اس کو جوتا اٹھا کے مارا تو وہ بھاگ گیا اور ڈاکٹر شائستہ کے پورشن میں جا نکلا۔ وہاں بھی اس نے اٹاخ پٹاخ ہی کی ہوگی۔ ڈاکٹر شائستہ نے پولیس کو فون کردیا۔ بتایا کہ ہمارے گھر بندر گھس گیا ہے۔ پولیس والے سمجھے کہ کوئی بندہ گھس گیا ہے۔ چند ہی منٹ گزرے اور گلی میں سائرن بجاتی ہوئی پولیس موبائل پہنچ گئی۔ میں بھاگ کر دروازے پر پہنچا تو پولیس والے وین کی پچھلی جانب سے چھلانگیں لگا کر اتر رہے تھے۔ ان کے ہاتھوں میں خودکار رائفلیں تھیں۔

دھڑام دھڑام انہوں نے ڈاکٹر شائستہ کا گیٹ پیٹنا شروع کیا۔ دروازہ کھلنے میں ذرا تاخیر ہوئی تو وہ گیٹ پھلانگ کر اندر داخل ہوگئے۔ تھوڑی ہی دیر بعد جب انہیں علم ہوا کہ انہیں محض ایک بندر کی خاطر بلایا گیا ہے تو وہ غصے میں باہر آکر اپنی ویگن میں سوار ہوگئے۔ ڈاکٹر شائستہ بھی ان کے پیچھے پیچھے غصے میں چلاتی ہوئی باہر آئیں۔ انہوں نے انگریزی نما اردو بولی۔ یہ ان کا کراچی کا لب ولہجہ تھا یا انگریزی نما اردوکا کمال تھا کہ پولیس والے اس بندر کو پکڑنے میں رضامند ہوگئے۔

اب معاملہ یہ تھا کہ بندر آگے آگے اور پولیس والے پیچھے پیچھے۔ کبھی تو وہ دیوار پہ چڑھ جاتا اور کبھی اتر آتا۔ ایک لمحے میں وہ برآمدے کی چھت پہ جا چڑھا۔ پولیس کا ایک جوان بھی اس کے پیچھے برآمدے کی چھت پہ چڑھ گیا۔ بندر آگے دوسری منزل کی چھت پہ چڑھ گیا۔ پولس والا وہاں چڑھا تو بندر ٹینکی پہ چڑھ گیا۔

عین اس لمحے پولیس والوں کے شاید ایک افسر کی آواز گونجی۔ وہ جانگلی لہجے کی پنجابی میں غصے سے دھاڑ کر بولا۔

ہا اورہاں تلاں لہہ آ اوئے منظور!
اساں ہنڑ باندر نپڑں جوگے رہ گئے آں؟
(آؤ۔ نیچے اُتر آؤ منظور۔ اب ہم بندر پکڑنے لائق رہ گئے ہیں؟ )

وہ موصوف جن کا نام منظور تھا اور جو بندر پکڑنے کی کوشش میں ہانپ رہے تھے۔ واپس ویگن میں آچڑھے۔ گلی میں ڈاکٹر شائستہ سمیت بہت سے ہمسایوں کے دیکھتے ہی دیکھتے پولیس موبائل سائرن بجاتے ہوئے واپس چلی گئی۔ میں گھر پہنچا تو وہ بندر وہیں ہمارے صحن میں تقی کو جھولے دے رہا تھا اور میری امی اس سے کہہ رہی تھیں۔

شاباش۔ میرا پُتر۔ دے بھرا نوں جھوٹے دے شاباش۔
(شاباش میرا بیٹا بھائی کو جھولے دو شاباش)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).