امیتابھ کا گھمنڈ، بے مروت فلمی دنیا اور قادر خان


ایک قدآور اداکار جو پیدا افغانستان میں ہوا، زندگی ہندوستان کے نام کی اور کسمپرسی کی حالت میں سپردخاک کینیڈا میں ہوا۔ جی ہاں، ہم بات کر رہے ہیں 81 سال کی عمر میں ایک طویل علالت کے بعد اس دارفانی کو الوداع کہہ گئے قادر خان کی۔ تین جملوں میں بکھری ان کی زندگی اپنے آپ میں ایک مکمل داستان ہے۔ وہ اپنے کئی انٹرویوز میں اپنے بچپن کی کہانی بتایا کرتے تھے کہ کس طرح اُن کا بچپن غریبی اور مفلسی میں گزرا، اُن کی والدہ نے کتنی پریشانوں سے اُن کی پرورش کی اور اُنہیں تعلیم کا دامن تھامے رکھنے کی تلقین کرتی رہیں۔

قادر خان نے زندگی کا بھرا پورا عروج دیکھا لیکن ان کا آخری وقت مکمل طور پر قابل اطمینان نہیں کہا جاسکتا۔ قادر خان نے 47 سال بھارتی فلم انڈسٹری کو دیے۔ اس میں اُنہوں نے 300 سے زیادہ فلموں میں کام کیا اور 250 سے زائد فلموں کے مکالمے لکھے۔ ان کے مکالمے نہ صرف بے حد مقبول ہوئے بلکہ اس قدر زبان زد خلائق ہوئے کہ فلمی تاریخ میں درج ہو گئے۔ ایک زمانہ تھا جب فلم انڈسٹری میں ان کا سکہ چلتا تھا۔ ہر دوسری فلم میں اُن کا نام یا تو بطور اداکار یا پھر مکالمہ نگار موجود ہوتا۔ ہندی فلم انڈسٹری میں ایک وقت ایسا بھی آیا جب فلم کے پوسٹر پر ہیرو یا ہیروئین کی تصویر کے بجائے قادرخان اور شکتی کپور کے چہرے ہوتے۔ قادر خان نے اپنے فن کی بدولت ثابت کردیا کہ فلموں کی کامیابی کے لئے محض ہیرو ہیروئن کا ہونا ضروری نہیں بلکہ ایک اچھا فنکار ہونا پہلی شرط ہے۔

المیہ یہ کہ کینیڈا میں دنیا سے سدھارے قادر خان کی نماز جنازہ میں ہندی فلم انڈسٹری کی کسی بھی شخصیت نے شرکت نہیں کی۔ البتہ اُن کے مداح اور عزیز و اقارب کی اچھی خاصی تعداد اپنے محبوب اداکار کو سلام آخر کے لئے ضرور جمع ہوئی۔ قادر خان کے صاحبزادے سرفراز خان نے نمازجنازہ میں شرکت کرنے والوں کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ میرے والد ہمیشہ دوسروں کی عزت اور احترام کرنے کا درس دیا کرتے تھے۔ قادر خان اپنے مداحوں سے بہت پیار کیا کرتے تھے۔ قادر خان کے بیٹے کے بقول ان کے والد نے فلم انڈسٹری کے لئے بہت کام کیا، وہ اپنے ساتھی فنکاروں اور انڈسٹری کے لئے مخلص تھے۔ قادر خان کے بیٹے کا کہنا ہے کہ ان کے والد یہ بھی کہتے تھے کہ اس انڈسٹری سے کبھی کوئی اُمید یا مدد کی توقع مت رکھنا۔ قادر خان فلم انڈسٹری کو بے مروت مانتے تھے۔

قادر خان بھارتی فلم انڈسٹری کا کتنا اہم حصہ رہے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ تقریبا آدھی صدی کے اپنے فلمی سفر میں انہوں نے نہ جانے کتنے ستارے روشن کر دیے۔ 1980 اور 1990 کی دہائی میں تو یہ عالم تھا کہ اُس دور میں شاید ہی کوئی ایسا ہوگا جس ذرا بہت سی بھی سدھ بدھ ہو اور قادرخان کے نام سے واقف نہ ہو۔ وہ جتنے عظیم اداکار تھے اتنے ہی ماہر اسکرپٹ رائٹر اور مکالمہ نگار بھی۔ وہ جب مکالمے لکھتے تو زندگی کے نشیب و فراز بے حد خوبصورتی سے پروتے۔

اُن کے مکالموں میں احساس کا ہر رنگ تھا۔ خوشی، غم، پیار، نفرت غرض ہر پہلو میں اُن کے ڈائیلاگ اتنے حقیقی ہوتے کہ ناظرین کا بے اختیارانہ جذباتی تعلق جڑ جاتا۔ ان کی اداکاری کی بات کریں تو وہ ہر کردار میں خود کو ڈھال لیا کرتے تھے۔ کامیڈی میں ہیرو سے زیادہ تالیاں وصول کرنے والے قادر جب ولن کا رول کرتے تو دیکھنے والوں کو اُن سے نفرت ہو جاتی اور جب باپ کا رول کرتے تو ہر اولاد کو ایک سبق دے جاتے، یہی خوبی تھی اُن کی اداکاری کی۔

محلہ سے فلم انڈسٹری تک:

اپنے فلمی سفر کے بارے میں وہ خود بتاتے تھے کہ اُنہیں زور زور سے ڈائیلاگ بولنے کا شوق تھا اور اپنے دوستوں کے سامنے دوسروں کی ایکٹنگ کرکے دکھایا کرتے تھے۔ اُن کی اداکاری سے متاثر ہو کر محلے کے ڈرامہ گروپ نے اُنہیں اپنے ساتھ لے لیا اور یہیں سے اداکاری میں ان کا باقاعدہ سفر شروع ہوگیا۔ اسی دور میں ان کے لکھے ایک ڈرامہ ’لوکل ٹرین‘ کو ایک مقابلہ میں انعام سے نوازا گیا۔ اس مقابلہ کی جیوری میں معروف مصنف اور فلم ساز راجیندر سنگھ بیدی، ان کے بیٹے نریندر بیدی اور کامنی کوشل بھی شامل تھے۔

نریندر بیدی نے قادر خان کی قابلیت کو پہنچانتے ہوئے انہیں اپنے ساتھ لیا اور ’جوانی دیوانی‘ فلم کے ڈائیلاگ لکھنے کا کام دیا۔ قادر خان کے ایک اور ڈرامہ سے متاثر ہو کر دلیپ کمار نے انہیں اپنی فلم ’بیراگ‘ اور ’سگینا‘ میں اداکاری کا موقع دیا۔ یہ کام تو انہیں ملے لیکن وہ سب سے پہلے ریلیز ہوئی فلم جس میں وہ بطور اداکار نظر آئے داغ تھی۔ فلم میں مرکزی کردار راجیش کھنہ نے ادا کیا تھا۔ فلمی دنیا میں رائٹر کے طور پر قادر خان کی پہچان مضبوط کرنے والی پہلی فلم منموہن دیسائی کی ’روٹی‘ ثابت ہوئی جو 1973 میں ریلیز ہوئی تھی۔ اس کے بعد وہ منموہن دیسائی کی ہر فلم میں نظر آنے لگے۔ ڈائیلاگ رائٹر کے طور پر قادر خان کی مقبولیت کی وجہ یہ تھی کہ وہ عام بول چال والی زبان کو ڈائیلاگ میں استعمال کرتے تھے جو زبان پر چڑھ جاتے تھے۔

امیتابھ کا گھمنڈ:

1980 کی دہائی میں فلمی پردے پر اپنی جگہ تلاش کر رہے امیتابھ بچن کو قادر خان کے مکالموں کا سہارا ملا اور اُن کی ایک کے بعد ایک فلمیں ہٹ ہوتی چلی گئیں۔ دیکھتے ہی دیکھتے امیتابھ کا فلمی قد اتنا اونچا ہوگیا کہ وہ سپر اسٹار بن گئے۔ ان کی شہرت میں ان مکالموں کا بڑا ہاتھ ہے جو قادر کے قلم اور امیتابھ کے لبوں سے نکلے۔ لا وارث، قلی، شرابی، مقدر کا سکندر، اگنی پتھ، دیش پریمی، مسٹر نٹورلال، امر اکبر اینتھونی، یارانہ جیسی فلمیں پردہ سیمیں کی تاریخ پر اپنے نقش چھوڑ گئیں۔

قادر خان کے انتقال کی خبر سن کر بہت سے فلمی ستاروں نے تعزیت کی اور انہیں ایک عظیم فنکار کے طور پر یاد کیا۔ ایک پیغام جسے زیادہ مقبولیت ملی وہ امیتابھ کا تھا جس میں انہوں نے لکھا ”قادر خان گزر گئے۔ افسوسناک اور اداس کرنے والی خبر۔ مغفرت کے لئے میری دعائیں اور تعزیت۔ ایک باکمال اسٹیج اداکار فلموں کا سب سے شفیق اور کامیاب فنکار۔ شاندار رائٹر، میری زیادہ تر بہت کامیاب فلموں میں ایک دلکش ساتھی۔ اور ایک ماہر ریاضی۔ “

حال کہ ہی میں قادر خان کے بیٹے سرفراز نے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ فلمی دنیا میں ایسے بہت سے لوگ تھے جو میرے والد کے کافی قریب تھے لیکن ایک شخص جنہیں میرے والد بہت پسند کرتے تھے وہ ہیں امیتابھ بچن صاحب، میں اپنے والد سے پوچھتا تھا کہ وہ فلم انڈسٹری میں سب سے زیادہ کسے یاد کرتے ہیں تو وہ سیدھا جواب دیتے تھے بچن صاحب۔ سرفراز کے مطابق قادر خان اپنی زندگی کے آخری دور میں امیتابھ کو کثرت سے یاد کیا کرتے تھے اور وہ چاہتے تھے کی امیتابھ ایک بار اُن سے آکر ملیں۔

اس مرحلہ پر اس بات کا ذکر بھی ضروری ہے کہ قادر خان اور امیتابھ کے تعلق کی نوعیت کیا رہی۔ یہ بات کتنی حیران کن ہے کہ امیتابھ کی ہر فلم کے ڈائیلاگ لکھنے والے قادر خان نے اُن کی فلم خدا گواہ کے مکالمے لکھنے سے منع کر دیا اور امیتابھ کی ایک دیگر فلم گنگا جمنا سرسوتی کے ڈائیلاگ لکھنا درمیان میں ہی چھوڑ دیے۔ قادر خان نے ایک انٹرویو میں خود اس کی وجہ بتائی تھی۔

ان کا کہنا تھا کہ جس امیتابھ کا جادو پورے ملک میں سر چڑھ کر بول رہا تھا تب محمود، پرکاش مہرا اور منموہن دیسائی کے علاوہ شاید قادر خان ہی ایسے شخص تھے جو اُنہیں امیتابھ کہہ کر بلاتے تھے۔ ورنہ باقی تمام لوگ امیتابھ کو امت جی یا سر جی کہتے تھے۔ یہی بات امیتابھ کو دھیرے دھیرے اتنی ناگوار گزرنے لگی کہ انہوں نے قادر خان سے دوری بنا لی۔ قادر خان اسی انٹرویو میں پوچھتے ہیں کہ کیا کوئی اپنے دوست یا بھائی کو کسی اور نام سے پکار سکتا ہے؟ ناممکن بات ہے، میں یہ نہیں کر سکا اس لئے میرا اُن سے وہ ربط نہیں رہا۔

بے مروت فلمی دنیا:

قادر خان جیسے عظیم اداکار کی آخری رسومات میں کسی بھی اہم فلمی ہستی کا شرکت نہ کرنا اور ممبئی میں اُن کی یاد میں منعقد کی گئی تقریب میں محض چند ایک فلمی شخصیات کا آنا، ان کے چاہنے والوں کو ایک اور گہرا صدمہ دے گیا۔ یہ اس بات کا ایک اور ثبوت ہے کہ باہر سے اتنی چمکیلی نظر آنے والی فلم انڈسٹری اصل میں کتنی کھوکھلی اور بوسیدہ ہے۔ جس اداکار نے تقریبا آدھی صدی تک فلم انڈسٹری کو اپنے وجود سے روشن کیے رکھا اُس فنکار کے آخری دن اتنی گمنامی اور اندھیرے میں گزریں گے ایسی امید کون کر سکتا تھا؟

انڈسٹری نے قادر خان کو کیا دیا اس سے سروکار نہیں البتہ وہ انڈسٹری کو جو کچھ دے گئے اس سے فلمی دنیا ضرور فیض پاتی رہے گی۔ قادر خان کے ذریعہ فلم مقدر کا سکندر کے لئے لکھا گیا ڈائیلاگ پوری زندگی کا فلسفہ ہے۔ وہ سین یاد کیجئے جس میں قادر خان قبرستان میں بیٹھے امیتابھ بچن کو سمجھا رہے ہیں کہ زندگی کا صحیح لطف اُٹھانا ہے تو موت سے کھیلنا سیکھو، سُکھ میں ہنستے ہوں تو دُکھ میں قہقہہ لگاؤ، زندگی کا انداز بدل جائے گا، زندہ ہیں وہ لوگ جو موت سے ٹکراتے ہیں اور مردوں سے بدتر ہیں وہ لوگ جو موت سے گھبراتے ہیں، سُکھ کو ٹھوکر مار، دُکھ کو اپنا۔ ارے سُکھ تو بے وفا ہے چند دنوں کے لئے آتا ہے چلا جاتا ہے، مگر دُکھ اپنا ساتھی ہے ساتھ رہتا ہے، دُکھ کو اپنا لے پھر دیکھ تقدیر تیرے قدموں میں ہوگی اور تو مقدر کا بادشاہ ہوگا۔
(صائمہ خان دہلی سے ہیں، کئی نشریاتی اداروں میں بطور صحافی کام کر چکی ہیں، فی الحال بھارت کے قومی ٹی وی چینل ڈی ڈی نیوز کی اینکر پرسن ہیں۔ )

صائمہ خان، اینکر پرسن دور درشن، دہلی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صائمہ خان، اینکر پرسن دور درشن، دہلی

صائمہ خان دہلی سے ہیں،کئی نشریاتی اداروں میں بطور صحافی کام کر چکی ہیں، فی الحال بھارت کے قومی ٹی وی چینل ڈی ڈی نیوز کی اینکر پرسن ہیں

saima-skhan has 12 posts and counting.See all posts by saima-skhan