بوسٹن کی امریکی فوجن اور جنگی جہاز


بوسٹن میں ہفتے کی صبح بارش ہورہی تھی۔ تھوڑی سی نہیں، اچھی خاصی بارش۔ لیکن ہم اپنی چھتریاں ساتھ لائے تھے۔ گاڑی میں بیٹھے اور ساحل کا رخ کیا تاکہ امریکا کی انوکھی تاریخ کا مشاہدہ کریں۔

بوسٹن میں فریڈم ٹریل کا آغاز بوسٹن کامن پارک سے ہوتا ہے اور یہ ڈھائی میل دور سمندر کے کنارے تک جاتی ہے جہاں ڈھائی سو سال پرانا جنگی جہاز لنگرانداز ہے۔ اس کا نام یو ایس ایس کونسٹی ٹیوشن ہے۔ یہ دنیا کا سب سے قدیم بحری جہاز ہے جو ابھی تک سفر کے قابل ہے۔ یہ 1797 میں بنایا گیا اور 1881 میں ریٹائر ہوگیا۔ لیکن قسمت اچھی تھی کہ اسکریپ نہیں کیا گیا۔ 1907 سے اسے میوزیم کا درجہ حاصل ہے۔

ہم نے ساحل کے قریب ایک گیراج میں کار پارک کی۔ یہ یہاں اچھا کاروبار ہے۔ کسی بھی عمارت کے تہہ خانے کو یا پوری عمارت کو پارکنگ بلڈنگ بنادیتے ہیں۔ واشنگٹن، نیویارک اور بوسٹن جیسے مصروف شہروں میں پارکنگ ایریا خوب ڈالر کماتے ہیں۔

ہم ایک بڑے احاطے میں داخل ہوئے تو دائیں جانب جہاز کھڑا تھا اور بائیں جانب عجائب گھر کی عمارت بھی تھی۔ جہاز کی سیر مفت میں کی جاسکتی ہے لیکن عجائب گھر کی داخلہ فیس پندرہ ڈالر ہے۔ ہم مہمانوں کے کمرے میں گئے تو وہاں کچھ لوگ پہلے سے موجود تھے۔ کچھ بعد میں آئے۔ پچیس تیس لوگ ہوگئے تو ایک فوجن یعنی فوجی لڑکی نے گائیڈ کی ذمے داری سنبھالی اور ہم اس کے پیچھے پیچھے چلتے ہوئے جہاز پر پہنچے۔

پائریٹس آف دا کیریبئن سلسلے کی فلمیں ہم نے دیکھ رکھی ہیں۔ یہ کچھ اسی نسل کا جہاز تھا۔ لکڑی کا بنا ہوا۔ رسے اور بادبانوں والا۔ توپوں سے سجا ہوا۔

فوجن بی بی کا نام اینا تھا۔ انھوں نے پہلے عرشے پر کھڑے ہوکر خطاب کیا۔ پھر نچلی منزل پر لے گئیں اور جہاز کی تاریخ بیان کی۔ پھر ایک اور منزل نیچے اترے جہاں کھانے اور سونے کے کمرے تھے۔ ایک تہہ خانہ اور تھا جس میں بارود اور گولے رکھے جاتے تھے۔ وہاں جانے کی اجازت نہیں ملی۔

جہاز پانی میں کھڑا تھا لیکن سمندر کی لہروں میں ہلچل نہیں تھیں اور لنگر بھی مضبوط ہوں گے کیونکہ جہاز بالکل ساکت تھا۔ ہم ایک طرف سے چڑھے اور گھوم پھر کے دوسری طرف سے اترے۔ بچوں کے لیے ایک دلچسپ اور منفرد تجربہ تھا۔

میوزیم دیکھنے کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی اور ابھی ہماری فہرست میں ایک دو مقامات اور تھے اس لیے ہم نے گاڑی اسٹارٹ اور کینیڈی لائبریری اینڈ میوزیم کا رخ کیا۔ وہ بھی ساحل سمندر پر ہے لیکن اس مقام سے بیس منٹ کی ڈرائیو پر تھا۔ وہاں پہنچ کر مایوسی ہوئی کیونکہ ایک نوٹس بورڈ پر لکھا تھا کہ گورنمنٹ شٹ ڈاؤن کی وجہ سے میوزیم بند ہے۔

دوپہر ہوچکی تھی اس لیے ہم نے پہلے کھانا کھانے کا فیصلہ کیا۔ گوگل سے راستہ پوچھتے پوچھتے دربار ریسٹورنٹ پہنچے جو برائٹن کے علاقے میں واقع ہے۔ ہمارا خیال تھا کہ انتظامیہ ہندوستانی ہوگی لیکن دیوار پر قائداعظم کی بڑی سی تصویر لگی ہوئی تھی۔ بیرے نے پوچھا کہ آپ کھانا آرڈر کرسکتے ہیں اور بوفے کا انتظام بھی ہے۔ ہم نے بوفے کا انتخاب کیا۔ چاول، حلیم، قیمہ، چکن کا سالن، دال، ساگ، کافی کچھ تھا۔ اس کے بعد چائے پی کر طبیعت سیر ہوگئی۔

میں کاؤنٹر پر پیمنٹ کرنے گیا تو ریسٹورنٹ مالک گرم گرم حلوہ پھونکیں مار مار کر کھانے کی کوشش کررہے تھے۔ نام عرفان خالد اور پاکستانی گجرات سے تعلق۔ میں نے کہا کہ آپ نے کافی کرسیاں میزیں لگا رکھی ہیں۔ روزانہ اتنے پاکستانی آتے ہیں؟ انھوں نے کہا، بہت لوگ آتے ہیں۔ سب لوگ آتے ہیں۔ پھر انھوں نے دیوار پر لگی تصویروں کی طرف اشارہ کیا جن میں وہ امجد صابری، راحت فتح علی اور غلام علی کے ساتھ کھڑے تھے۔

مبشر علی زیدی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

مبشر علی زیدی

مبشر علی زیدی جدید اردو نثر میں مختصر نویسی کے امام ہیں ۔ کتاب دوستی اور دوست نوازی کے لئے جانے جاتے ہیں۔ تحریر میں سلاست اور لہجے میں شائستگی۔۔۔ مبشر علی زیدی نے نعرے کے عہد میں صحافت کی آبرو بڑھانے کا بیڑا اٹھایا ہے۔

mubashar-zaidi has 194 posts and counting.See all posts by mubashar-zaidi