سیاست کی سانپ سیڑھی کا دلچسپ کھیل


پیر کی صبح سپریم کورٹ سے آنے والے فیصلے نے ورطۂ حیرت میں ڈال دیا۔ کئی دنوں سے ہونے والے تجزیے غلط ثابت ہو گئے۔ کہاں جے آئی ٹی کی تشکیل اور تحقیقات کے دوران یہ خبریں زینت بنتی رہیں کہ آصف علی زرداری جلد جیل میں ہوں گے اور یہ کہ بلاول پر بھی نا اہلیت کی تلوار لٹک رہی ہے۔۔۔

اور کہاں جے آئی ٹی کی ساکھ کو ہی یہ کہہ کر چیلنج کر دیا گیا کہ نیب دو ماہ میں جے آئی ٹی رپورٹ کی روشنی میں از سر نو تفتیش کرے، اور یہ بھی کہ بلاول معصوم ہے۔

ذرا ایک لمحے کو موجودہ سیاست اور ماحول کا جائزہ لیجیے۔ ایک ایسا وقت جس میں بظاہر احتساب محض سیاسی انتقام بنایا جا چکا ہو اور اصل بدعنوان بھی اسی انتقام کے پیچھے چھپ چکے ہوں۔۔۔ جب حزب اختلاف کے سیاسی رہنماؤں کا خلا عوامی سطح پرمحسوس کیا جا رہا ہو، جب پنجاب کی اہم سیاسی قیادت جیل میں بند ہو اور برسر اقتدار حکومت کی موجودگی میں بھی دباؤ غیر منتخب مقتدروں پر آجائے تو ایسے میں دھند ہی دھند چھائی دکھائی دیتی ہے۔

معاشی میدان میں بیرونی امداد جس قدر مل جائے مگر اندرونی محاذ پر معاشی پالیسی کا فقدان اور دن بہ دن ہوتی حماقتیں کسی حد تک متبادل سیاسی قوت کے ساتھ کسی ان دیکھے این آر او کی راہ ہموار کر سکتی ہیں، اور یہی پیپلز پارٹی کی سیاست کے ساتھ ہوا ہے۔

نواز شریف کی دوسری بار جیل جانے کے بعد بڑھتے سیاسی درجۂ حرارت نے پی پی پی کے لیے وقتی ہی سہی لیکن نرم گوشہ پیدا کر دیا ہے۔ گذشتہ کچھ عرصے سے بلاول کا تلخ لہجہ اور سندھ کی تقریباً ساری قیادت کے خلاف کارروائی نے عوامی دباؤ میں اضافہ کیا ہے۔

بلاول

بلاول بھٹو اپنا مقدمہ لڑنے میں کامیاب ہوئے اور آصف علی زرداری کو اس حد تک ریلیف مل گیا کہ سپریم کورٹ نے نیب کے ریفرنس دائر کرنے کے لیے دو ماہ ضرور دیے

آصف زرداری اور اومنی گروپ کا تعلق جوڑنے والی جے آئی ٹی کے پس منظر میں کابینہ کی سندھی قیادت کے خلاف فیصلوں اور سندھ حکومت گرانے کے بیانات نے سپریم کورٹ کے مقدمے کو سیاسی بنا دیا ہے۔ انصافی حکومت کی سیاسی کج فہمی اور نا سمجھ رہنماؤں نے ایک اچھے خاصے کیس کی ساکھ کو برباد کر کے رکھ دیا ایسے میں سپریم کورٹ کیا کرتی؟

وزیراعلی سندھ اور بلاول بھٹو اپنا مقدمہ لڑنے میں کامیاب ہوئے اور آصف علی زرداری کو اس حد تک ریلیف مل گیا کہ سپریم کورٹ نے نیب کے ریفرنس دائر کرنے کے لیے دو ماہ ضرور دیے لیکن کوئی مانیٹرنگ جج مقررنہیں کیا اور نہ سپریم کورٹ کے اب تک کے حکم کے بعد شاید بلاول کے خلاف ریفرنس بن سکے۔

مقتدروں کو اس بات کا اندازہ ہو چلا ہے کہ سانپ سیڑھی کے اس کھیل میں سیاسی گوٹی دلچسپ کھیل کھیل سکتی ہے۔ فوجی عدالتوں کی مدت ختم ہو چکی ہے۔ دو تہائی اکثریت کے لیے دونوں اپوزیشن جماعتوں کی مدد کی ضرورت ہے، جبکہ ایسے میں پیپلز پارٹی نوڈیرو اجلاس میں ملٹری کورٹس کے معاملے پر اب ایک قدم بھی آگے نہ جانے کا فیصلہ کر چکی ہے۔

معیشت کے ساتھ ساتھ پارلیمانی محاذ پر بھی انصافی حکومت کو کامیابی نہیں مل رہی۔ بدعنوانی سے مقابلہ آسان ہے تاہم نااہلیت سے مقابلہ کیسے ہو۔۔ یہ ایک اہم سوال ہے؟

پشتون تحفظ موومنٹ پر عسکری حلقوں کا نرم موقف اس بات کا غماز ہے کہ آنے والے دنوں میں زیر عتاب سیاسی قیادت کو بھی ریلیف مل سکتا ہے۔ شاید انصافی حکومت کا ہنی مون پیریڈ اوور ہونے والا ہے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).