’’انکل سام کے خطوط‘‘ والا منٹو


سیاست پر لکھنے کو ان دنوں جی نہیں چاہتا۔محدودے چند موضوعات ہیں۔ ان پربھی لیکن کوئی ٹھوس پیش رفت نہیں ہوتی۔ ٹی وی اور سوشل میڈیا پر انحصار رہے تو ’’حرکت تیز تر…‘‘ والا معاملہ ضرور نظر آتا ہے مگر سفر آہستہ آہستہ والے تاثر کے ساتھ۔سوشل میڈیا کی وجہ سے ان دنوں باقاعدہ کالم لکھنے والوں کو یہ دریافت کرنے میں ہرگز دِقت پیش نہیں آتی کہ ان کے قارئین کن موضوعات پر لکھے کالموں کو پسند کرکے انہیں اپنے دوستوں کے ساتھ شیئر کرتے ہیں۔

اپنے بارے میں اس تناظر میں جو تحقیق کی اس سے اندازہ ہوا کہ لوگ مجھ جیسے ایک زمانے کے متحرک رپورٹر سے سیاسی موضوعات پر تبصرہ آرائی کی توقع رکھتے ہیں۔

اندھی نفرت وعقیدت میں تقسیم ہوئے معاشرے میں پڑھنے والوں کی شدید خواہش یہ بھی ہوتی ہے کہ کسی ایک سوال پر لکھنے والا کھل کر اپنی رائے بیان کرے۔ کسی کی حمایت یا مخالفت میں ڈٹ کر کھڑا ہوجائے۔ ایسا نہ ہو تو بات بنتی نظر نہیں آتی۔ مقبولیت کے بجائے بنیادی طور پر اپنی تحریر کی اُجرت وصول کرنے کی محتاجی لہذا پریشان کردیتی ہے۔

دل نہ بھی چاہ رہا ہو تو سیاسی موضوع پر ہی تکیہ کرنا پڑتا ہے۔ایک سکھ سے منسوب لطیفہ مگر یاد آگیا۔ اس نے ایک شاندار مکان تعمیر کیا تو اس میں تین غسل خانے رکھے۔ پہلے حمام میں ٹھنڈے پانی کا بندوبست تھا۔ دوسرے میں پانی کھولتا ہوا۔ اس کے باوجود ایک تیسرا حمام بھی تھا۔ اس کی’’ضرورت‘‘ کے بارے میں استفسار ہوا تو جواب ملا کہ بندے کا کبھی کبھار نہانے کو جی نہیں بھی چاہ رہا ہوتا۔

اس لطیفے سے میں نے سبق یہ حاصل کیا کہ ہفتے میں پانچ کالم لکھنے کے معمول میں کم از کم ایک بار اپنی خواہش پر بھروسہ کرنے کی ہمت دکھائی جائے۔ ذاتی خواہش اور ترجیحات کا ذکر چلا ہے تو مجھے اعتراف کرنا ہوگا کہ کئی برسوں سے میری یہ شدید خواہش رہی ہے کہ میں جو کتابیں پڑھتا ہوں ان کی تلخیص بیان کرنے کے بعد ان کتابوں میں دئیے پیغام کو جو میری سمجھ میں آیا بیان کیا جائے۔

اس کے علاوہ فلمیں بھی ہیں جو کئی برسوں سے میں نے دیکھنا چھوڑرکھی تھیں۔ چند ماہ قبل اپنی بیوی کی مہربانی سے Netflix تک رسائی حاصل ہوئی۔ وہاں بے تحاشہ فلمیں اور ٹی وی شوز میسر ہیں۔ میری توجہ کے حصول کے لئے مگر لازم ہے کہ کسی فلم یا شو کا آغاز بہت طاقت ور ہو۔ ایسا نہ ہو تو اُکتا جاتا ہوں۔

امریکی وائٹ ہائوس کے حوالے سے بنی House of Cards نے مجھے لیکن بہت متاثر کیا۔ اسے دیکھنے کے بعد مجھے آج کی ٹرمپ انتظامیہ کی چین کے خلاف چلائی تجارتی جنگ کی زیادہ بہتر انداز میں سمجھ آنا شروع ہوگئی ہے۔ روس کے ساتھ امریکی تعلقات کی گھبیرتا بھی سمجھنے کو ملی۔

کاش میں نے جو پہلو دریافت کئے تھے انہیں بروقت بیان کردیتا۔ Netflix کی بدولت فلموں اور شوز تک میری رسائی کا عمل جاری ہے۔ اتوار کی شب مجبور ہوگیا کہ بھارت کی نندتا داس کی سعادت حسن منٹو پر بنائی فلم کو کئی بار نہ چاہتے ہوئے بھی آغاز سے اختتام تک دیکھوں۔

نندتاداس کاجسے ’’متوازی سینما‘‘ یا ’’آرٹ فلم‘‘ کہا جاتا ہے کے ضمن میں بڑا نام ہے۔ وہ Feminismکی ایک مؤثر آواز بھی سمجھی جاتی ہے۔ عورت کی نفسیاتی گہرائی کو وہ جس بھرپور انداز میں سمجھتی ہے اس کا اظہار ’’منٹو‘‘ فلم میں بھی نمایاں نظر آتا ہے۔میرا نہیں خیال کہ کوئی مردہدایت کار منٹو کی اپنی بیوی اور بیٹیوں کے ساتھ تعلق کو اس گہرے انداز میں دکھاسکتا ہے جو نندتا داس نے اپنایا ہے۔

فلم کے پہلے سین ہی سے البتہ میرے ذہن میں سوال یہ اٹھا کہ کیا نواز الدین صدیقی منٹو کے کردار کے لئے مناسب انتخاب ہے۔ وہ یقینا ایک بڑا اداکار ہے مگر اس کی صورت، قد اور لہجہ امرتسر کے اس گورے چٹے کشمیری نژاد سعادت حسن منٹو کے اُس امیج کوہمارے سامنے نہیں لاتاجو منٹو کی تحریروں کی بدولت میرے ہی نہیں بے تحاشہ قارئین کے تصور میں جاگزیں ہے۔

منٹو کو زندگی میں یقیناً بے حد مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ وہ ان مشکلات سے مگر گھبرا کر ہمیشہ کے لئے اداس نہیں ہوگیا تھا۔ ایک ضدی انسان تھا۔ بغاوت اس کا رویہ تھا۔ زندگی کی خوب صورتیوں سے لطف اندوز ہوتا تھا۔ دوستوں کے ساتھ تندوتیز مباحثوں میں مصروف رہتا۔ اپنے مخالفین کے سامنے ڈٹ کر کھڑا ہوجاتا۔

نواز الدین صدیقی نے توانائی بھرے منٹو کو مگر ’’دُکھی پریم نگری‘‘ ہوا دکھایا ہے جو میری دانست میں اس کی بھرپور شخصیت کے ساتھ بہت زیادتی ہے۔اہم ترین سوال جو میرے ذہن میں اٹھا وہ یہ تھا کہ فرض کریں کہ کسی شخص نے منٹو کا ایک افسانہ بھی نہ پڑھا ہو اور خاص کر ’’گنجے فرشتے‘‘ میں چھپے مضامین کو بارہا نہ دیکھاہووہ اگرنندتا داس کی بنائی ’’منٹو‘‘ دیکھے تو اس فلم سے Relate کر پائے گا یا نہیں۔

میرا جواب اگرچہ نفی میں ہے۔اس فلم میں تقریباََ واضح انداز میں پیغام یہ دیا گیا ہے کہ منٹو بمبئی چھوڑ کر پاکستان آنے کو اس لئے مجبور ہوا کیونکہ مشہور ایکٹر شیام جس کے ساتھ اس کی بہت دوستی تھی ایک روز اپنے ان رشتے داروں سے ملنے گیا جو 1947کے فسادات سے بچ کر بمبئی آئے تھے۔

ان سے فسادات کی کہانیاں سنیں تو شیام کا خون کھول اُٹھا اور اس نے جذبات میں منٹو کے سامنے اعتراف کرلیا کہ وہ ’’بدلہ‘‘ لینے کی خاطر منٹو کو بھی قتل کرسکتا ہے۔میری دانست میں بات اتنی سادہ نہیں ہے۔منٹو کو کئی ٹھوس حوالوں سے ہندو مسلم تضاد کی شدت وحدت کئی برس قبل سمجھ آچکی تھی۔

گاندھی کے ’’مہاتماپن‘‘ کا وہ ہمیشہ تمسخر اُڑاتا رہا تھا۔اس کی پاکستان ہجرت کے اسباب کو صرف ایک واقعہ کی حد تک فلم میں ’’ڈرامہ‘‘ پیدا کرنے کے لئے Reduceکرنا جی کو قائل نہیں کرتا۔اس فلم میں یہ تاثر دینے کی بھی کوشش ہوئی ہے کہ پاکستان آنے کے بعد اس کا دل اس وقت حقیقی معنوں میں ٹوٹ گیا جب ’’ٹھنڈا گوشت‘‘ کے خلاف فحاشی کے الزام کے تحت چلائے مقدمے میں فیض احمد فیض نے گواہی دیتے ہوئے یہ کہاکہ افسانہ فحش تو نہیں ہے مگر اس کا شمار’’اعلیٰ ادب‘‘ میں نہیں ہوگا۔

اس مقدمے میں اگرچہ عابد علی عابد صاحب نے جو دیال سنگھ کالج کے پرنسپل ہوا کرتے تھے اور کسی طور بھی ’’ترقی پسند مصنفین‘‘ سے تعلق نہیں رکھتے تھے یہ انکشاف کیا کہ مذکورہ افسانہ انہوں نے نہ صرف خود پڑھا بلکہ اپنی بیٹی (غالباََ شبنم عابد صاحبہ) کو بھی اسے پڑھنے کی تلقین کی۔

نند تاداس کی بنائی فلم کے تناظر میں عابد صاحب کی گواہی کو منٹو جیسے بت شکن فرد کے لئے بہت حوصلے کا باعث ہونا چاہیے تھا۔ میری دانست میں ایسا ہوا بھی تھا کیونکہ جب ’’ترقی پسندوں‘‘ نے منٹو کو ’’فحش‘‘ قرار دے کر اس سے لاتعلقی اور بے اعتنائی اختیار کرلی تو اس ضدی شخص نے بہت شدت کے ساتھ ان ادیبوں مثلاََ حسن عسکری کے ساتھ خود کو وابستہ کرلیا جو قیامِ پاکستان کے بعد ’’پاکستانی ادب‘‘ تخلیق کرنے کی کوئی نئی صورت متعارف کروانا چاہ رہے تھے۔

اہم ترین حقیقت یہ بھی ہے کہ ’’ترقی پسندوں‘‘ سے طلاق حاصل کرنے کے بعد بھی سعادت حسن منٹو نے مشکل ترین حالات میں اس دور میں کسی ادیب کے لئے گرانقدر تصور ہوتی رقم کو ٹھکراتے ہوئے ’’انکل سام کے نام‘‘ خطوط لکھے۔

میری ناقص رائے میں یہ خطوط اُردو ادب میں طنز کی محض ارفع ترین مثال ہی نہیں۔یہ منٹو کے تخلیقی ذہن کا بھرپور اظہار بھی ہیں۔ ان خطوط کو دوبارہ پڑھیں تو احساس ہوتا ہے کہ 50 ہی کی دہائی میں منٹو نے یہ دریافت کرلیا تھا کہ پاکستان کی امریکہ سے ’’دوستی‘‘ بالآخر اس خطے میں کیا تباہی لائے گی۔

زندگی کی مشکلات سے شکست کھایا ہوا منٹو جو نواز الدین صدیقی کے ذریعے نندتا داس نے ہمیں دکھایا ہے مستقبل کو ایسے جاندار ذہن کے ساتھ Imagineکرتے ہوئے بے پناہ جرأت کے ساتھ بیان ہی نہیں کرسکتا تھا۔کاش کوئی فلم ساز منٹو کو اپنی ذاتی زندگی کی تمام تر مشکلات کے باوجود اسی انداز میں جرأت آزما ہوتا دکھا سکے جو ’’انکل سام کے نام خطوط‘‘ میں نظر آتا ہے۔

بشکریہ روزنامہ نوائے وقت


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).