چلتی پھرتی لاشیں!


”جلتی ہوئی جھونپڑی میں سے تڑپتی ہوئی ماں کو اس کی سات سالہ بیٹی نے بچاکے باہر نکالا“ ایک ایسی عورت کو جس کے ایک بیٹے کو سر پر بھاری لکڑی مار کے اور دوسرے بچے کو گود سے چھین کے آگ میں ڈال کے مار دیا گیا۔ وہ رورہی تھی کہ میں کیوں بچ گئی میں کیوں نہ مر گئی میرے تین بیٹے میری آنکھوں کے سامنے ماردیے گئے۔ سی این این نے اس عورت کی ویڈیو جاری کی تو دیکھ کے روح کانپ کے رہ گئی کہ اس سے تو بہتر تھا کہ مر ہی جاتی۔

اس کے سارے بال جل چکے تھے چہرہ ایک سائیڈ سے بری طرح مسخ ہوچکا تھا۔ اس کی ٹانگیں زخموں سے رس رہی تھیں اور۔ اس کا گینگ ریپ ہوا تھا۔ میانمار کے فوجیوں کی ستائی ہوئی یہ عورت شاید جل کے ہی مر جاتی مگر اس کی کل جمع پونجی اس کی سات سالہ سروائیور نے ماں کو بچالیا۔ ابھی تھوڑی دیر پہلے میں نے ایک پوسٹ پہ حسن اور خوبصورتی کے متعلق لکھا اور ابھی یہ ویڈیو دیکھ کر اپنے لکھے الفاظ بھالے کی طرح میرے دل پہ لگ رہے ہیں کہ یہ عورت جس کے ساتھ درندوں سے بھی بدتر سلوک کیا گیا یہ جلا ہوا مسخ چہرہ اور یہ رستے ہوئے زخموں سے بھری ٹانگوں والی یہ عورت کدھر سے خوبصورت رہ گئی۔

وہ تو بدصورت بھی نہیں رہی بلکہ کدھر کی بھی نہیں رہی۔ کدھر کی بھی نہیں رہی۔ یہ داستاں صرف ایک عورت کی نہیں بلکہ میانمار میں رہنے والی ہر مسلمان عورت مسخ ہے ریپ جیسی ذہنی و جسمانی اذیت سے گزررہی ہے اپنے شوہر اور بچوں کی لاشیں اٹھا رہی ہے کلمے کے نام پہ۔ صرف ایک کلمے کے لئے کتنی جانیں مولی گاجر کی طرح کٹ رہی ہیں۔ کوئی پوچھنے والا نہیں۔ آخر اتنے بڑے پیمانے پر ہونے والی دہشت گردی پہ کوئی ملک آواز کیوں نہیں اٹھاتا۔ عالمی امن کی ٹھیکیدار قوتیں میانمار میں درندوں کے مقابلے میں اپنی فوجیں کیوں نہیں اتارتیں۔

ایک ملالہ کو گولی لگی تو اسے لندن پہنچادیا گیا یہاں ڈھیروں ملالائیں روز بھیڑ بکریوں کے ریوڑ کی طرح زیادتیوں کا نشانہ بن رہی ہیں اور کوئی پوچھنے والا نہیں۔

ایک کمزور لاغر بوڑھا جو ان چھ ہزار افراد میں سے ایک ہے جو ٹولی ٹلہ کا گاؤں چھوڑ کر جان بچاکے بھاگنے کی ناکام کوششیں کر رہے ہیں۔ شدید لاغر اور غربت کا مارا ہوا کمزور بوڑھا تیزی سے بھاگتا ہوا اپنی گٹھڑی کے سہارے زمین پر بیٹھ کے رونے لگ گیا کہ اس کی بیٹی کو زیادتی کر کے ماردیا گیا۔ وہ پھر بھی اللہ اکبر پڑھ رہا تھا مجھے تو اپنے ایمان کا خیال آگیا کہ اتنی سہولتوں کے مارے ہوئے ہم لوگ ان مسلمانوں کے پیروں کی دھول بھی نہیں۔

چودہ سو سال پہلے ایک کربلا کا واقعہ گزرا تھا تو آج تک پوری انسانیت روتی ہے اور رہتی دنیا تک روتی رہے گی۔ میرا دل لرزتا ہے کہ ان غریبوں پر تو رات دن کر بلا ٹوٹ رہی ہے پر ساری انسانیت چپ سادھے بیٹھی ہے کوئی ان کی مدد کے لئے آگے نہیں بڑھتا جہاں بچوں کو کاٹ کے پانی میں پھینک دیا جاتا۔ پانی کے آس پاس معصوم لاشیں پڑی اپنی بے بسی کی منہ بولتی تصویر ہیں کوئی پوچھنے والا نہیں۔

تکلیف یہ ہے کہ آج ہم میں سے ہر کوئی اپنی ڈھائی انچ کی مسجد بناکر خود کو سب سے نیک اور صالح مسلمان اور بہترین مومن سمجھنے لگتا ہے اور سمجھتا ہے پانچ نمازیں اور زکات دینے کے بعد اس پہ سارے فرض پورے ہوگئے رہ گیا ایک حج تو باوسائل لوگ آٹھ دس حج تو آرام سے کرلیتے ہیں کچھ شوقین عمرہ کرنے ہر سال سعودی عرب پہنچ جاتے ہیں ان میں سے اکثر کی خواتین سونے کی بے حد شوقین پائی جاتی ہیں اور سونے کی شاپنگ سعودی عرب سے اچھی اور کدھر ہونی ہے۔ ایمان خالص ہونہ ہو، سونا خالص ہوتا ہے۔ پر ہے کوئی ایسا مومن جو ان مومن بھائیوں کے لئے پریکٹیکلی صرف ان کے لئے کچھ کر رہا ہو جو صرف ایک رب کی شہادت پر شہید ہورہے ہیں۔

جلی ہوئی عورت کو ہسپتال پہنچانے کے لئے کوئی گاڑی، گدھا گاڑی ایمبولینس کچھ بھی میسر نہیں۔ لوگ ہاتھوں سے اٹھاتے ہوئے لے کے جارہے تھے۔ اتنے ناتواں، جلے کٹے مسخ وجود ایک دوسرے کو سہار رہے تھے۔ اور میں سوچ رہی تھی کہ انسانیت کو واقعی ڈوب کے مر ہی جانا چاہیے جب کسی کو انسان سمجھنا ہی نہیں۔

یہ ویڈیو میں نے دو تین دن سے سیو کرکے ر کھی ہوئی تھی کہ وقت ملے تو دیکھوں اور دیکھ کے بے انتہا تکلیف میں آگئی ہوں۔ ایک میاں بیوی کی مسخ شدہ لاش بھی دکھائی ویڈیو میں۔ بالکل لاغر ادھ موے لوگوں پہ اتنے ظلم۔ وہ تو بس ایک دھکے کی مار ہیں پر کلمے کے بول نے انھیں طاقت دے رکھی ہے اپنے اوپر ٹوٹنے والے مظالم کو برداشت کرنے کی۔ پر کتنی طاقت؟ اور کتنے ظلم؟ رحم خدارا


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).