عورت، اوریا اور ٹی وی اشتہارات


\"mobeenآج کل کچھ صاحبان منبر و محراب عورت کو ایک پروڈکٹ کی طرح استعمال کیے جانے پر سیخ پا ہیں۔ قطع نظر اس کے کہ ان حضرات نے عورت کے استحصال کے حق میں کیا کیا تاویلیں گھڑ رکھیں ہیں، عورت کے ٹی وی اشتہاروں میں ایک \”چیز\” کی طرح استعمال پر ان حضرات کی پریشانی پر بے اختیار پیار آتا ہے۔ کیونکہ بظاہر دورجدید کے کچھ دانشور اور ہمارے روایت پرست حضرات عورت کو کسی پروڈکٹ یا  commodity کی طرح استعمال کرنے کے خلاف ایک ہی صفحے پر نظر آتے ہیں۔ لیکن حقیقت اس کے بر عکس ہے۔ خواتین کے حقوق کے لیے چلا ئی جانے والی تحریکیں، جن کا ماخذ مغربی ممالک ہیں، عورت کے کسی شئے کی طرح استعمال کے خلاف بہت غوروفکر سے اپنے نعرے ترتیب دیتی ہیں۔ ہمارے دوست یہ نعرے مستعار لیتے وقت انکی اصل روح سے صرف نظر برتتے ہوے صرف اپنے مطلب کی بات ثابت کرنے پر مصر رہتے ہیں۔ دانشور طبقہ عورت کے کسی ایسی چیز کےاشتہار میں کام کرنے پر تنقید کرتا ہے جس کا عورتوں سے کوئی تعلق نہ ہو۔ مثال کے طور پر شیونگ کریم کا اشتہار۔ جس میں ایک مرد شیو بنانے کے بعد گھر سے نکلتا ہےتوعورتیں دیوانہ وار اس کی طرف لپکتی ہیں۔ اس طرح کے اشتہارات پر بنیادی اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ یہ عورت کو ایک  pervertedچیز کے طور پر پیش کرتے ہیں جو مرد پر فریفتہ ہونے کے لیے ہر وقت تیار رہتی ہے۔ اس کے علاوہ ایسے اشتہارات جن میں عورتوں کے حوالے سے stereotypes ، پدر سری، اور صنفی امتیاز پر مبنی خیالات کو بڑھاواملتا ہو، پر بھی کافی اعتراضات کیے جاتے ہیں۔

مندرجہ بالا اعتراضات اور ان کے علمی و سماجی پہلووں پر مغز ماری کا سارا کریڈٹ feminist سکالرز کو جاتا ہے۔ ہمارے دوست صرف کاپی پیسٹ پر یقین رکھتے ہیں۔ مگر نقل کے لیے بھی عقل کی ضرورت ہوتی ہے۔ کسی خاص علمی شعبہ کی لغت سے الفاظ مستعار لے کر اور اسی شعبہ کی تحقیق کو توڑمروڑ کر اپنے مطلب کے نتائج اخذ کرنا دانشورانہ بددیانتی کے زمرے میں آتا ہے۔ عورت کے لیے برابری کے حقوق کی بات پر ان حضرات کی زبان کو لقوہ مار جاتا ہے لیکن عورت کے کمرشل ازم میں استعمال پر ہونے والی تحقیق سے چند ٹکڑے اٹھا کر اپنی روایات کے تقدس کے ثبوت کے طور پیش کرنے میں ان کو ذرا تعامل نہیں ہوتا۔ عورت کے بازاری چیزہونے یا اس کے stereotypical کردار پر اصرار کے خلاف یہ روشن خیال طبقہ ہی علم بغاوت بلند کیے ہوے ہے۔ لیکن ہمارے ہاں اس روشن خیال طبقے کو علمی تنقید کی بجائے مذہبی شناخت کے حوالے سے الزامات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ گویا منطقی یا علمی گفتگو بھی آپ کو دائرہ اسلام سے خارج کر سکتی ہے۔ اس ایک مثال تو \”ہم سب\” میں شائع ہونے والے ایک مضمون \”اوریا، عورتیں، اور مرغیاں\” پر ہونے والی گفتگو سے دی جا سکتی ہے۔ ایک صاحب مضمون پر کمنٹ کرتے ہوے لکھتے ہیں کہ یہ لبرلز آٹے میں نمک کے برابر ہیں پھر بھی ہم مسلمانوں کا ظرف ہے کہ ان کو برداشت کرتے ہیں۔ لبرل ازم گویا ان صاحب کے مطابق ایک مذہب ہے اور اس مذہبی اقلیت کو اس ملک کی مسلمان اکثریت جینے کا حق جیسے احسان کے طور پر عطا کیے ہوے ہے۔

کسی لبرل نے تو آج تک کسی کو کافر قرار نہیں دیا۔ یہ لبرل زیادہ سے زیادہ جہالت یا کم علمی کی نشاندہی کرتے وقت طنز و مزاح کا سہارا لے لیتے ہیں۔ سیدھی بات کرنے کی بھی تو اجازت نہیں دیتے یہ روایت پرست۔ خیر چلتے ہیں واپس اپنے موضوع کی طرف۔ عورت کے \”اشتہاری\” قرار دیے جانے کے دعووں کی حقیقت جاننے کے لیے میں نے کچھ گھنٹے ٹی وی پر اشتہارات دیکھنے کا بورنگ کام کیا۔ شیمپو، کاسمیٹکس، دودھ، گھی یا کولنگ آئل، موبائل فونز، چاکلیٹس یا ٹافیاں، مسالہ جات، کپڑے، جوتے، مشروبات، اور اسی طرح کی دیگر بے شمار اشیاء بیچنے کے اشتہارات کی ٹی وی پر بھرمار نظر آتی ہے۔ ان میں زیادہ تر اشتہارات جن کا تعلق کھانے پکانے، کپڑے یا برتن دھونے، بچوں کی نشونما، عورتوں کی آرائش، گھروں کی آرائش، صاف ستھرائی، اور دوائیوں یا مریضوں کی نگہداشت سے متعلق چیزوں کی فروخت سے ہوتا ہے ان میں عورت زیادہ تر اپنےروایتی کردار نبھاتی نظر آتی ہے۔ بچے کے ڈائپر کے اشتہار میں ایک ماں اس لیے خوش ہی کہ اب اس کا بچہ رات کو روتا نہیں اور اسے نیند اچھی آتی ہے، کھانے، پکانے اور پینے پلانے ( پینے پلانے کا لفظ متبادل لفظ پتا نا ہونے کے سبب استعمال کیا گیا ہے۔ اسے غلط رنگ نہ دیا جائے) کے اشتہارات میں ایک عورت اپنے بچوں، خاوند، اور ساس سسر کے دل میں اترنے کے لیے ان کے پیٹ کا راستہ استعمال کرتی نظر آتی ہے۔ اسی طرح باقی گھریلو اشیا کے اشتہارات میں بھی یہی صورت حال ہے۔ چند ایک اشتہارات ہیں جہاں عورت کی غیر موجودگی سے بھی کام چل سکتا ہے۔ مثلاً موٹرسایکل یا فصلوں پر استعمال ہونیوالی کھادیں اور ادویات وغیرہ۔ کیونکہ یہ کام مردوں نے اپنے ذمے لے رکھے ہیں۔ میں نے نوے فیصد سے زائد اشتہارات میں عورت کو اپنے روایتی کردار میں ہی دیکھا ہے۔ اگر کوئی  feminist ان کو دیکھ لے تو اسے دل کا دورہ پڑ جائے۔ اس کے علاوہ اگر عورت ان اشتہارات سے غائب ہو جائے تو کچھ اس قسم کی صورت حال پیدا ہو گی ؛ ایک خاوند بچے کو دودھ ( ڈبے والا) پلا رہا ہے اور عورت منظر پر نہیں، میاں کھانا پکا کے اپنے بوڑھے ماں باپ اور بچوں کو کھلا رہا ہے جبکہ خاتون خانہ ندارد، ڈائپر کا اشتہار اور خاوند کی خوشی کہ بچہ اچھی نیند سو رہا ہے، لپ سٹک کے اشتہار میں ایک خوبرو لڑکا اپنے ہونٹوں پر لپ سٹک لگا کر خواتین کو اسے خریدنے پر مائل کر رہا ہے، شیمپو کے اشتہار میں ایک لڑکا اپنے لمبے، گھنے اور ریشمی بالوں سے شیمپو کی افادیت ثابت کر رہا ہے، کپڑے اور برتن دھوتے ہوے خاوند لیموں کی طاقت سے بھرپور کیمیائی محلول کی تعریفیں کر رہا ہے وغیرہ وغیرہ۔ اس طرح کے اشتہارات، جو عورتوں کے stereotypical کردار کو رد کرتے ہوں، اگر ہمارے ٹی وی چینلز پر چلنا شروع ہو جائیں تو خاندانی نظام کا راگ الاپنےوالے ہمارے بھائی اور بہنیں اس صدمے کی تاب نہیں لا سکیں گے۔ اس کے ساتھ ساتھ عورتوں کے استعمال کی اشیا کی فروخت کے اشتہار اگر عورتیں نہیں کریں گی تو کیا یہ روایت کے ٹھیکے دار کریں گے؟ گھریلو استعمال کی اشیا کی فروخت کے اشتہار اگر مرد کرنے لگے تو پھر ان کو یاد آئے گا کہ معاشرتی توازن بگڑ رہا ہے۔

اس لیے میری ان تمام بھائی اور بہنوں، جن پر مشرقی روایات اور خاندانی نظام کی افادیت  ثابت کرنے کا بھوت سوار ہے، سے درخواست ہے کہ ازراہ کرم روشن خیال طبقے پر تنقید کے لیے ان کی تحقیق کو استعمال کرنے سے پہلے اسے اچھی طرح پڑھ اور سمجھ لیا کریں۔ کافی افاقہ ہو گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments