عید کارڈز اور بچپن کی یادیں


\"saminaسویاں پکی ہیں، میں نے بس چکھی ہیں

نہ منہ لٹکا ۔ ترے واسطے بھی رکھی ہیں۔

حسنین جمال صاحب کا کالم پڑھا۔ یہ وہ یادیں ہیں جو اب بھی کسی پٹاری، کسی ڈبے یا صندوق میں قید ہیں۔ ہمارا سکول تو کافی ماڈرن ہو چکا تھا۔انگریزی والی مس بڑی اچھی ہوا کرتی تھیں۔ میری اور میری دور کے چچازاد کی بیٹی کو مقابلے پر کھڑا کرتی اور ہمیشہ وہ جیت جایا کرتی تھی۔ کیونکہ مجھے سب کے سامنے بولنے کی عادت کبھی نہیں ہوئی۔ البتہ لکھنے میں میں ہر مقابلہ جیت جایا کرتی تھی۔ میرے سکول داخلے کے وقت عمر سات سال تھی جب کہ سردیوں میں دھوپ کے لئے ٹاٹ کا استعمال کیا جاتا۔ میڈم صاحبہ بڑی سخت ہوا کرتی تھیں۔ ہمیں دوستوں سکھیوں کو عید کارڈ خرید کر دینا اور تحائف دینا منع تھا۔ نوبت کئی بار یہاں تک پہنچی کہ رمضان میں کئی لڑکیوں کوسکول سے خارج کیا گیا کہ وہ اپنی کسی سہیلی کو تحفے میں پرفیوم، چھوٹی چھوٹی گھڑولیاں دیتی پائی گئیں نیز کھیر کی ٹھوٹھیاں بھی شاپروں میں رکھ کے لے آتی کہ تفریح کے دوران دوستوں کے سنگ مزے سے کھائی جائیں اور پھر اماں کے واسطے خوب داد بٹوری جائے۔لیکن ہم باز آ جانے والی قوم کہاں تھیں۔ کبھی یوں بھی ہو جایا کرتا کہ کسی سکھی سہیلی کی رمضان میں سالگرہ آئی ہے تو سکول کی کونے والی دیوار منتخب کی، یا مردہ کنویں پر بیٹھا جاتا اورکیک کی جگہ گلاب جامن کاٹے گئے۔ یا کیلے اور سیبوں سے بنا ٹرائفل بنا کر لائے اور بس اسی کو رسمی طورپر کاٹ کر ایک دوسرے \"003\"کو چمچ سے کھلایا گیا۔ ٹرائفل تب امیاں بنا کر دیا کرتی تھیں کہ بچے ہیں۔ کھائیں گے تو خوش ہوں گے۔ پکڑے جانے کی صورت میں میڈم کو سوری کوئی ڈھائی سو مرتبہ رف کاپی پر نیلی روشنائی سے لکھ کر دینا ہوتا تھا۔ اور خوبصورت و خوشخط لکھنا از حد ضروری امر تھا ورنہ معافی کی امید بیکار ہوا کرتی تھی۔ رمضان میں پانچویں تک روزہ نہ رکھنے پر سختی رکھی گئی مگر آگ پر پکائی ہوئی چیزیں کھانا منع ہوا کرتی تھی۔ صرف پھل کھائے جا سکتے ہیں۔اس کی کیا منطق تھی اب تک حل طلب ہے۔ اب تو سوال ہی کہیں بہت پیچھے چھوٹ گیا۔

جب چھٹی جماعت میں آئے تو روزہ باقاعدہ مسلط کیا گیا۔ اسمبلی میں دیر تک کھڑے رہتے۔ خود پرنسپل تو کچھ نہ کہتیں مگر کسی نہ کسی کلاس فیلو کی ڈیوٹی ہوا کرتی کہ رمضان کی برکتوں و فضیلتوں پر بات کی جائے، درحقیقت ایک درس تیار کر کے اسمبلی میں سنایا جاتا۔ اتنا ہی نہیں۔ رمضان میں حمد یا نعت کی بجائے حمد اور نعت اور اقبال کی نظم ’لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری‘ پھر پی ٹی ورزش اور آخر میں قومی ترانہ۔ رمضان کا آخری عشرہ شروع ہونے کی دیر ہے۔ کارڈز بنانے اور پوسٹ کارڈز کا سلسلہ شروع ہوا۔ ہماری کلاس فیلو بھی کچھ سائنسی واقع ہوئی تھی۔ سونے پر سہاگہ تھی بھی سائنس میں تیز۔ چھٹی کا گروپ بی ہی نویں دسویں میں سائنس گروپ تھا۔ ہمارے جماعت میں پوسٹ کارڈ سے زیادہ تخلیقی قسم کے کارڈ تحفے میں دیے جاتے۔ کچھ ڈراونے تو کچھ تاریخی عمارات پر مبنی پینٹنگز والے پوسٹ کارڈاور عید کارڈز تو اور کچھ سکلپٹرز اور خوبصورت پھولوں اور قدرتی رنگین و خوبصورت ماحو ل پرمبنی کارڈز۔ کبھی یوں بھی ہوتا کہ کاپی کا ورق پھاڑا اور اس پر تصویر بنائی۔ نیچے نام لکھا۔

ثمینہ عمر کی طرف سے بیسٹم بیسٹ بہترین دوست فائزہ رفیق کے لئے۔

یا

ثمینہ عمر کی طرف سے کسی نامراد چڑیل ، ڈائن سحرش اصغر کے لئے۔

اور سب سے خاص بات تو ہمارے ہاں کی شاعری تھی۔ باقی کلاسوں کے گردش کرتے کارڈ ز پر ڈبے ، کیکوں اور پھولوں والے اشعار ہوتے \"004\"ہم نے اچھے شعر کے لئے سکول کی لائبریری میں جا کر الطاف انکل کو باتوں پر لگایا اورپھر کسی مشہور اچھے شاعر کو چن کر اس کی کتاب چوری کرنا۔ پھر شعر چننے کے لئے باقاعدہ فال نکالنا۔ جو شعر ہاتھ آئے اسے درج کرنا اور کارڈ دوست کو جس لفافے میں بند کر کے دینا ہے اس لفافے پر یہ شعر کہنا

ہاتھوں میں الائچی منہ میں بادام

عید کارڈ کھولنے سے پہلے میرا سلام

پھر کتاب کو واپس کرنے کے لئے الطاف انکل کے لئے الگ سے کارڈ بنانا۔ جس پر درج ہوتا۔ کلرک الطاف انکل کے لئے۔

ہم نے کتاب چرائی نہیں بس اٹھائی ہے اور پڑھی ہے۔کس الماری سے نکالی گئی تھی یہ بھول گئے ہیں اس لئے دوست کے ہاتھ کتاب اور کارڈ بھیج رہے ہیں۔ معافی چاہتے ہیں۔ معافی قبول کیجیے۔

دسویں کیا پاس کی سب چھوٹ گیا۔ کالج سب کے الگ اور اب کہیں بیچ چوراہے پر صرف ہم جماعتی سہیلیاں دکھائی دیتی ہیں۔ سلام نہ دعا۔ سچ پوچھیں تو عجیب لگتا ہے چوراہے پر آواز دے کرروکنا اور پھر یہ جاننا کے کیسی ہو کیا ہو رہا ہے کیسی زندگانی ہے۔اب تونام یاد ہیں نہ چہرے۔ میرے سامنے کبھی کی فائزہ رفیق آ جائے تو شاید میں نہ پہچانوں وہ شاید پہچان جائے اور عین ممکن ہے کہ وہ بھی نہ پہچان پائے۔ ہم مشرقی لڑکیوں کی قسمت ایک سی ہے لیکن چہرے مختلف ہیں۔ صورتوں، ناموں کو یاد نہیں رکھا جاتا۔ یاد رکھنے کو سسرال اور گھر والا ہی کافی ہیں۔ سکول یونہی کھپتے کھپاتے گزرتا ہے مگر زندگی کا سلیبس نہیں پڑھایا جاتا۔ کہا جاتا ہے کہ ہمیشہ سچ بولو چاہے گردن کٹ جائے مگر ہم کب سچ سن پاتے ہیں یا کہہ پاتے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ یاد کو بھی یاد نہیں کہ آخری بار کسے کب یاد کیا گیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments