بھٹو اور بے نظیرکی ایک خواہش جو پوری نہ ہوسکی


بے نظیر بھٹو کی جب اپنے والد ذوالفقارعلی بھٹو سے آخری ملاقات ہوئی تو ایک بات بھٹو صاحب نے کہی جوکہ بے نظیربھٹو ساری زندگی بھول نہیں سکیں، سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے ملاقات میں اپنی بیٹی کو کہا کہ وہ ایک خواہش دل میں لے جارہے ہیں کہ وہ اپنے بچوں کی شادیاں نہیں کرسکے ہیں، ان کی اس خوشی کو نہیں دیکھ پائے ہیں، وہ بچوں کو دلہن اور دلہا بنے سہرا بندی میں نہیں دیکھ پائے ہیں، جن کا ان کو بے دکھ ہے۔ یہ بات بے نظٰیر بھٹونے اپنے ایک انٹرویو بتائی تھی۔

اس کے ساتھ سابق وزیراعظم بے نظیربھٹو نے اس بات کا اظہار بھی کیا تھا کہ ان کی خواہش ہے کہ وہ مرنے سے پہلے اپنے بچوں کی شادیاں کریں، ان کی خوشیاں دیکھیں، پوتے، پوتیوں کو گود میں لے سکیں۔ اس علاوہ بے نظٰیر بھٹو نے بچوں کی خوشیوں کو دیکھنے کے لئے اپنے لیے دعا بھی مانگی کہ اے پروردگار مجھے اس بات کی مہلت عطا کرنا کہ میں بچوں کی شادیوں کا لطف لے سکوں۔ بے نظیر بھٹو نوسالہ جلاوطنی کے بعد 18 اکتوبر 2007 کو کراچی ائیرپورٹ پر اتریں تو عوام کا ایک جم غفیر ان کے استقبال کے لئے موجود تھا۔

بے نظٰیر بھٹو کا جنرل پرویز مشرف کے دور حکومت میں ایک مشکل فیصلہ تھاکہ وہ وطن لوٹ رہیں تھیں لیکن اس وقت ان کے پاس اس کے علاوہ کوئی چارہ یوں نہیں تھا کہ جنرل الیکشن 2007 میں ان کی پارٹی ان کی قیادت کے بغیر نہ الیکشن مہم اس جوش وخروش سے چلانے کی پوزیشن تھی، جس طرح وہ چلا سکتی تھیں اور نہ ہی عوام کو اپنی طرف متوجہ کرکے الیکشن نتجہ اپنے حق میں کرسکتیں تھیں۔ اسی طرح پیپلزپارٹی کی دوسرے درجے کی لیڈرشپ ان کے بغیر ان قوتوں کے ساتھ متھا لگانے کی پوزیشن میں نہیں تھی جوکہ پیپلزپارٹی کو ہمیشہ دیوار کے ساتھ لگانے کے لئے متحرک ہوتیں ہیں۔

بے نظیربھٹو اس بار ایک نئے جوش وجذبہ اور سیاسی حکمت عملی کے ساتھ وطن واپس آرہی تھیں کہ انہوں نے الیکشن میں عوام کی طاقت کو اپنے حق میں کرکے تیسری مرتبہ وزیراعظم ہاوس میں پہنچنا ہی پہنچنا ہے۔ اور اپنی سیاسی زندگی کے وہ خواب پورے کرنے ہیں جوکہ پچھلے دو ادوار میں ان کو پورے نہیں کرنے دیے گئے تھے۔ بے نظیربھٹو کراچی پہنچنے کے بعد ایک بڑے جلوس میں مزار قائدکی طرف حاضری کے لئے جا رہی تھیں، جلوس اس قدر تھا کہ منٹوں کا سفر گھنٹوں میں ہونے کے باعث خاصا وقت ہوچلاتھا۔

محترمہ بے نظیربھٹو کا عوامی جلوس جب کارساز کے مقام پر پہنچاتو تو ان کے ٹرک کے قریب جس پر وہ موجود تھیں دوخود کش حملے ہوئے، جس کے نتیجہ میں بے نظیر بھٹو تو خوش قسمتی سے محفوظ رہیں لیکن اس حملہ میں 170 لوگ مارے گئے، اس میں پیپلزپارٹی کے وہ پچاس لوگ بھی زندگی کی بازی ہارگئے جنہوں نے بے نظیربھٹو کے ٹرک کے گرد انسانی چین بنائی ہوئی تھی تاکہ کسی بھی حملہ کی صورت میں وہ اپنی جانیں دے کر اپنی قائد بے نظیر بھٹو کو بچاسکیں اور ایسا ہی ہوا کہ وہ اپنی لیڈرپر قربان ہوگئے اور ان کی قائد خودکش حملوں کی صورت میں برپا کی گئی خون کی ہولی میں بچ گئیں۔

بے نظیربھٹو پہلی بار 1988 وزیراعظم منتخب ہوئیں تو ان کو مسلم دنیا میں پہلی خاتون وزیراعظم بننے کا اعزاز حاصل ہوا۔ پہلی بار وزیراعظم بنتے وقت ان کی عمر 35 سال تھی اور اپنے والد کی پھانسی کے بعد جنرل ضیا کے مارشل لاء کے ساتھ ٹکراتے ٹکراتے یہاں تک پہنچیں تھیں۔ بے نظیر بھٹو کی 1988 میں آنیوالی حکومت کو صدر غلام اسحاق خان نے بیس ماہ بعد ہی کرپشن کے الزامات لگا کر گھر بھیج دیا تھا مطلب پانچ سال مدت پورے کرنا خواب ہی رہا۔

ادھر بے نظیربھٹو کی 1993 میں وجود آنیوالی حکومت 1996 میں اپنے ہی پارٹی کے اہم لیڈر فاروق لغاری جن کو محترمہ بے نظیربھٹو نے صدر منتخب کروایا تھا، اس نے پیپلزپارٹٰی کی حکومت کو کرپشن کے الزامات کے ساتھ چلتاکیاتھا۔ بے نظیر بھٹو سوچ بھی نہیں سکتیں تھی کہ فاروق لغاری جن کو وہ فاروق بھائی کہتی تھیں اس حد تک جاسکتاہے کہ ان کی حکومت کو برطرف کر سکتا ہے۔ لیکن ایسا ہو چکا تھا، اب ان کے لئے وزیراعظم ہاوس سے نکلنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا۔

بے نظٰیربھٹو کو اپنے دوسرے دور حکومت میں ایک بڑے سانحہ سے یوں دوچار ہونا پڑا کہ ان کے بھائی میر مرتضی بھٹو کو ایک پولیس مقابلے میں روشنیوں کے شہر کراچی کی سڑکوں پر قتل کردیاگیا تھا۔ اپنی دوسری حکومت کی برطرفی کے دوسال بعد بے نظٰیر بھٹواپنے 3 بچوں کے ساتھ ملک سے باہر چلی گئیں تاکہ دوبئی اور لندن میں بیٹھ کر بچوں کی پرورش کے ساتھ ساتھ مناسب وقت کا انتظارکریں۔ اور پھرپاکستان آکر سیاست کے میدان آکر عوام کی قیادت کرسکیں۔

بھٹو خاندان خاندان کے ساتھ ایک المیہ یہ بھی ہوا کہ ذوالفقار علی بھٹو، میر شاہنواز بھٹو، میرمرتضی بھٹو اور بے نظیربھٹو کی طبعی موت نہیں ہوئی۔ ذوالفقارعلی بھٹو کوپھانسی دی گئی، میر شاہنواز بھٹو کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ ان کو زہر دے کر قتل کیا گیا، پھر میر مرتضی بھٹو 20 ستمبر 1996 کوجیسے راقم الحروف نے اوپر بتایا ہے کہ ان کو اپنی بہن کے وزیراعظم ہوتے ہوئے کراچی کی سٹرکوں پر پولیس مقابلے میں قتل کر دیا گیا (اور میر مرتضی بھٹو کے قتل کے 45 دن بعد بے نظیر بھٹو کی حکومت کو فاروق لغاری نے برطرف کردیاتھا) جبکہ بے نظیر بھٹو کو 27 دسمبر 2007 کو لیاقت باغ میں ایک کامیاب عوامی جلسہ سے واپسی کے بعد اس وقت گولیوں کا نشانہ بنا کر قتل کر دیا گیا، جب وہ پیپلزپارٹی کے کارکنوں کے ساتھ یہ نعرے لگارہی تھیں کہ بھٹو دے نعرے وجن گے، جی بھٹو دے نعرے وجن گے۔ بے نظیربھٹو کے والد اور سابق وزیراعظم ذوالفقارعلی بھٹو کو بھی اسی پنڈی شہر میں تختہ دار پر چڑھا دیاگیا تھا۔ رہے نام اللہ کا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).