سعداللہ جان برق کے پشتو املاء میں تبدیلی کرنے پر رحمان بونیری کے قابل فہم اعتراضات


سعد اللہ جان برق معروف بزرگ کالم نگار اور کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔ میں اپکے کالم ایک لمبے عرصے پڑھتا آرہا ہوں۔ اپکی علم و دانش میں بلاشہ متاثرکن گہرائی، اور وسعت ہے۔ اور میرے لیے ایک استاد کی حیثیت رکھتے ہیں۔ لہذا میں نہایت احتیاط برتتے ہوئے کہ کہیں اپکی شان میں مجھ سے گستاخی سرزد نہ ہوجائے، اس موضوع کو زیر بحث لا رہا ہوں۔ جس پر وائس اف امریکہ کے نامور صحافی رحمان بونیری نے سوشل میڈیا پر گزشتہ دنوں بڑی تفصیل سے بات کی۔ رحمان بونیری نے نہایت ہی بڑا اہم نقطہ اعتراض اٹھاتے ہوئے کہا کہ برق صاحب اپنی لکھی ہوئی پشتو کی کتاب میں پشتو رسم الخط میں اردو کے الفاظ ٹھونس کر زبان کا پورا حلیہ بگاڑ رہے ہیں۔ آپ نے کہا کہ سعد اللہ جان برق، اور سلیم راز سمیت ایسے کئی پشتون ادیبوں کا موقف ہے کہ پشتو کے حروف تہجی میں ”ړ، ږ، ژ، ټ، ډ، ښ“ چند ایک ایسے الفاظ ہیں جو پاکستان کے پشتونوں کو سمجھ میں نہیں آ رہے۔ لہذا پشتو زبان کی مشکل رسم الخط کی جگہ اردو کے الفاظ لکھنا بہتر ہو گا۔

رحمان بونیری یہاں پر سوال اٹھاتا ہے کہ کیا پشتو صرف پاکستان میں بولی جاتی ہے جس کی خاطر ہم پشتو رسم الخط کو تبدیل کریں۔ یا یہ افغانستان سے لے کر واشنگٹن اور لندن تک نیا کے کونے، کونے میں کم و بیش پانچ کروڑ لوگوں کی زبان ہے۔ اور برق صاحب کو یہ اختیار کس نے دیا ہے کہ وہ پشتو رسم الخط کو اردو سے ”ری۔ پلیس“ کریں۔ ان کا کہنا تھا۔ کہ یہ کام کسی عام شاعر، ڈرامہ نگار، ناول نگار، غزل گو، کامیڈین، مصنف یا ایک لکھاری کا نہیں۔ بلکہ اس کا فیصلہ ایک با اختیار ماہرلسانیات کر سکتا ہے۔ اس کا فیصلہ ایک اتھارٹی ہی کر سکتی ہے۔ جس کے پاس زبان کی املاء میں تبدیلی کا مسلمہ اختیار ہو۔

اور اگر پشتو کے الفاظ پڑھنے میں مشکلات کو مدنظر رکھ کر کوئی اسے سیکھنے کی بجائے اس کا گریباں ہی تار تار کر دے تو یہ نہ صرف انتہائی ناپسندیدہ اور نامناسب فعل ہوگا بلکہ غلامانہ ذہنیت کی المناک کیفیت ہے۔

اس ویڈیو کو پوری توجہ سے دیکھنے کے بعد میں نے رحمان بونیری کے فیس بک اکاونٹ پر شئیر کیے گئے سعد اللہ جان برق کی کتاب ”خندا ګانی، ژړاګانی“ کا وہ صفحہ بھی دیکھا۔ جس میں برق صاحب بڑی ناترسی سے پشتو کے غزل میں اردو کے الفاظ اور حروف تہجی متعارف کرائے گئے تھے جس پر زبان سے محبت کرنے والوں کو افسوس کے سوا اور کچھ نہیں ہو سکتا۔

مجھے بذات خود اس پر بڑی خفگی محسوس ہوئی کہ ایک عام ادمی اگر اپنی زبان میں ”فارن ورڈز“ استعمال کرے تو شاید اسے اس سے زبان کو نقصان پہنچنے کا اتنا ادراک نہ ہوں۔ لیکن اگر ایک ذمہ دار عالم، عاقل اور باخبر شخص ایسا کام کرے تو اسے اس زبان کی بدقسمتی سے تعبیر کیا جاسکتا ہے۔

اصل بات یہ ہے کہ زبان کسی بھی قوم کا بنیادی اور بیش بہا اثاثہ ہوتی ہے۔ اس کا کوئی نعم البدل نہیں ہو سکتا۔ کسی بھی قوم کی تاریخ، جغرافیہ، تہذیب وتمدن کو تاریخ کے صفحات پر موجود رہنے کے لیے اس کی زبان کا اہم ترین رول ہوتا ہے۔ زبان کی نظر اندازی قوم کو صفحہ ہستی سے مٹانے کے مترادف ہے۔

لہذا برق صاحب اور ان کے ہم فکر دوستوں کو پشتو زبان کا چہرہ بگاڑنے سے قبل سوچنا چاہیے کہ ہزاروں سال کی تاریخی ورثہ پشتو زبان کی بنیادی جڑیں اکھاڑنا اس پورے درخت کو سکھا سکتا ہے جو ایک ناقابل معافی جرم ہے۔ مجھے ڈر ہے کہ برق صاحب کی ادب کی دنیا میں پیش کی گئی خدمات پر پانی نہ پھر جائے اور تاریخ کے کٹہرے میں انہیں ایک مجرم نہ گردانا جائے کیونکہ برق صاحب کا شمار نامور اہل قلم میں ہوتا ہے۔ اور اس غلطی کے پشتو زبان پر منفی اثرات اور اس کے نتیجے میں زبان سے محبت کرنے والوں کا ردعمل دونوں منفی ہوں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).