ایک باپ بنام استاد مدرسہ (معرفت جنرل ضیاالحق)


جناب مولوی صاحب،

میں اپنے بچے کو آپ کے مدرسے بھیج رہا ہوں کیونکہ گھر میں بچوں کی تعداد زیادہ ہونے کی وجہ سے اب سب کے لئے سونے کی جگہ کافی نہیں ہے اور آللہ کے فضل سے بچوں کی تعداد میں اضافہ ابھی جاری ہے۔ اتنے زیادہ بچوں کے لئے پیٹ بھر کر کھانا مہیا کرنا ہی بہت مشکل ہو گیا ہے تو ایسے حالات میں تعلیم اور صحت کا کون سوچے۔ اپنے بچے کو آپ کے مدرسے بھیجنے کی وجوہات تو یہی ہیں مگر میں پریشان نہیں ہوں کیونکہ اس کے کچھ بڑے اعلیٰ مقاصد بھی نکل آئے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ آپ ان مقاصد سے بخوبی آگاہ ہیں لیکن میں انہیں اس خط میں ضرور دہراؤں گا تاکہ اپنا فرض پورا کر کے اپنے حصے کے ثواب کا حقدار ٹھہر سکوں۔ میں آپ سے یہ توقع کرتا ہوں کہ آپ اس بچے کی تربیت (پڑھائی کی ضرورت تو کچھ خاص نہیں) کے سلسے میں میری امیدوں پر پورا اتریں گے اور اس بچے میں درج ذیل خوبیاں پیدا ہوں گی۔

میرے بچے کو بتاؤ کہ سوچنا حرام ہے۔ بچوں کی سوچنے کی صلاحیت کو ختم کرنا بہت ضروری ہے کیونکہ سوچنے کی صلاحیت شیطانی خیالات اور سوالات کا باعث بنتی ہے۔ ساری دنیا سوچنے سمجھنے اور سوالات کرنے کہ وجہ سے گمراہی کا شکار ہو چکی ہے۔ لہٰذا اس سے اپنے بچوں کو دور رکھنا بہت ضروری ہے۔ مجھے یقین ہے کہ آپ کے مدرسے میں سوال کرنے کی اجازت نہیں ہو گی اور یہ میرے بچے کو سوچنے اور سوال کرنے کی قوت سے دور لے جانے میں کارگر ثابت ہو گی۔ اور اس کا ذہن نئے شیطانی خیالات سے بچا رہے گا۔

آپ میرے بچے کو اپنے عقیدے پر پکا کریں۔ آپ اسے سکھائیں کہ صرف ایک عقیدہ سچا ہے اور وہ ہمارا ہے۔ ساری کائنات اس بات کی گواہی دیتی ہے اور جو ان نشانیوں کو دیکھنا نہیں چاہتے وہ گمراہ ہیں اور ان سے کسی قسم کی نیکی کی امید نہیں کی جا سکتی۔ ان کے ساتھ کسی بھی قسم کا تعلق ہمارے گھاٹے میں ہے اور حرام ہے۔ وہ قابل اعتبار نہیں ہیں۔ اور یہ بھی کہ ہماری لادین حکومت ان کے ساتھ بہت رعایت برت رہی ہے ورنہ اصل میں وہ کافر ہیں اور مسلمان کہلانے کے حقدار نہیں ہیں۔ حکومت کا رویہ چونکہ ٹھیک نہیں ہے اس لئے جب بھی ضرورت پڑے یا موقع ملے ان معاملات کو اپنے ہاتھ میں لینا اور ان کے خلاف جہاد کرنا فرض ہے۔

آپ میرے بچے کو اس بات پر تیار کریں گے کہ جہاد ہم مسلمانوں کا سب سے اہم فریضہ ہے۔ یہی ہمیں دنیا کی باقی قوموں سے جدا کرتا ہے اور اعلیٰ ترین درجے پر فائز کرتا ہے۔ اور ہم سب مردوں کو اس کام کے لئے اپنے آپ کو تیار کرنا ہے۔ اس کے لئے ہمارے رہنما ملا عمر اور ملا منصور اختر ہیں جو کہ آپ کے مدرسے کا فخر بھی ہیں کیونکہ یا تو انہوں نے یہاں سے تربیت حاصل کی ہے یا ان کو یہاں سے اعزازی ڈگریاں دی گئی ہیں۔ لہٰذا جہاد کے لئے بچوں کو تیار کرنے میں آپ کا کوئی ثانی نہیں ہے اور یہ میرے لئے بہت اطمینان کا باعث ہے۔

آپ نے میرے بچے کو یہ بتانا ہے کہ درباروں پر جانا، قوالی گانا اور سننا،اور محرم میں ماتم کرنا بہت خراب چیزیں ہیں۔ ان ساری چیزوں سے اس نے اپنے آپ کو محفوظ کرنا ہے اور ان برائیوں سے اپنے معاشرے کو پاک کرنا ہے۔ ایسے لوگوں کو جہنم رسید کرنے سے ہمیں ثواب ہو گا اور باقیوں کو عبرت ہو گی۔

اس کو آپ نے سر تن سے جدا کرنا سکھانا ہے تاکہ یہ بلا جھجھک کافروں اور ان کے ساتھیوں کے سر تن سے جدا کرے اور اپنا اور ہمارا سر فخر سے بلند کرے۔ اسے یہ بھی سکھانا کہ کچھ کمانے کی ضرورت نہیں سوائے ثواب کے۔ صرف ثواب نے ہی کام آنا ہے کیونکہ ہماری اصل منزل تو جنت ہے جو اتنی ہی یقینی ہوتی جائے گی جتنے کافروں کو یہ جہنم رسید کرتا جائے گا۔ اور اس کام کے لئے مالی وسائل کی کمی نہیں ہے جو بزدل لوگ لڑ نہیں سکتے اور اپنے بچوں کو بھی جہاد میں شامل کرنے سے ڈرتے ہیں وہ چندہ دے کر ثواب کماتے ہیں اور جہاد کا کام انہیں کے دیے ہوئے چندے سے چلتا ہے۔ اور اب تو خیر حکومت نے جہاد کا خرچہ اپنے ذمے لینے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ تیس کروڑ روپے کی پہلی قسط آپ کے مدرسے کو پہنچنے والی ہے۔ عمران خان صاحب انشااللہ وزیراعظم بنے گے اور باقی مدرسوں کے مالی وسائل میں بھی اضافہ کریں گے۔

آپ میرے بچے کو شہادت کی ایسی لو لگا دیں کہ اس کے نزدیک یہ دنیا اور انسانی زندگی بالکل بے وقعت ہو جائیں۔ وہ حق کی خاطر کسی کی جان لینے یا اپنی جان دینے کے لئے ہر وقت تیار رہے اور اس سلسلے میں اسے کبھی دوبارہ سوچنا نہ پڑے۔ یہی وہ نقطہ ہے جو میرے لئے بھی بہت اہم ہے۔ اس کے اسی جذبے کی وجہ سے ہم نے بھی جنت جانا ہے۔ میرا اپنا اعمال نامہ تھوڑا ڈھیلا ہے لیکن اس کی شہادت کے بدلے میں میں فخر کے ساتھ جنت میں داخل ہونا چاہتا ہوں۔

ہمارے علماء زبردست تقاریر کرتے ہیں اور بچے ان سے بہت سیکھتے ہیں اور متاثر ہوتے ہیں۔ کبھی کبھار علما پر الزامات لگائے جاتے ہیں یا وقتاً فوقتاً کسی بڑے مقصد کے لئے انہیں سمجھوتے وغیرہ کرنا پڑتے ہیں اور حرام چیزوں کو بھی سپورٹ کرنا پڑتا ہے جیسے مشرف حکومت کا ساتھ دینا یا پولیو کے قطروں کو جائز قرار دینا وغیرہ۔ بچوں کو ایسے معاملات سے دور رکھیں تاکہ وہ علماء کے متعلق کسی بدگمانی کا شکار ہو کر کہیں بھٹک نہ جائیں۔ کہیں خدانخواستہ یہ نہ سوچنا شروع کر دیں کہ ہمارے علماء اندر سے کچھ اور باہر سے کچھ ہیں۔

ویسے تو خیر اب سرکاری سکولوں میں بھی اوپر بیان کی گئی تمام باتیں تعلیم کا حصہ ہیں اور ہمارے سکولوں میں پڑھانے والے استاد زیادہ تر طالب علموں کی ایسی ہی تربیت کر رہے ہیں لیکں پھر بھی میں اپنے بچے کو آپ کے پاس اس لئے بھیجنا چاہتا ہوں تاکہ کامیابی کو مزید یقینی بنایا جا سکے۔

یہ ساری باتیں سکھانے کے لئے آپ یقیناً بچے پر تشدد کا راستہ اختیار کریں گے۔ اور اس کے لئے معاشرہ، مذہبی تشریحات اور میں آپ کو پوری اجازت دیتے ہیں۔ آپ نے ہی اس کو یقین دلانا ہے کہ استاد جتنا جاہیں مار سکتے ہیں۔ وہ اعضاء جہاں استادوں کے ڈنڈے پڑے ہوں وہ جنت میں جائیں گے۔ میں تو اس بات پر پورا یقین رکھتا ہوں کہ بچوں کو سب کے سامنے ذلیل کرنا اور ڈنڈوں اور جوتوں سے مارنا نہایت مفید ہے اور اس سے بچے کی شخصیت پر بہت اچھے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ پرانا مقولہ بھی آپ کو بتا دوں کہ ہڈیاں ہماری اور گوشت آپ کا۔ اس فارمولے پر عمل کریں گے تو بچے کو مدرسہ گھر جیسا لگے گا کیونکہ میں بھی اس کے ساتھ اور اس کے باقی بہن بھائیوں کے ساتھ یہی سلوک روا رکھتا ہوں۔ اپنے بچوں کی ایسی ہی زبردست تربیت سے ہم ایک مثالی معاشرہ تشکیل دے پائیں گے۔

اپنے بچے کی تربیت سے متعلق یہ خط پانچ جولائی کے موقع پر لکھ کر میں جنرل ضیاالحق شہید کی روح کو بھی تسکین پہنچانا چاہتا ہوں کیونکہ میری سوچ، جو کہ اس خط میں عیاں ہے، اور ہمارے بچوں کی پرورش کے یہ شاندار مواقع جو آپ جیسا ادارہ مہیا کر رہا ہے، اس سب کے لئے ہم ضیاء صاحب اور ان کی سوچ کا شکریہ ادا کیے بغیر نہیں رہ سکتے۔

والسلام

ایک باپ

سلیم ملک

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سلیم ملک

سلیم ملک پاکستان میں شخصی آزادی کے راج کا خواب دیکھتا ہے۔ انوکھا لاڈلا کھیلن کو مانگے چاند۔

salim-malik has 355 posts and counting.See all posts by salim-malik

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments