دمشق کا کرسمس اور قلم کا الم


دمشق سے ایک بار پھر، سالِ نو کے لیے نیک خواہشات کے ساتھ آداب عرض ہے۔ احوال یہ ہے کہ بلاد الشام ان دنوں شدید سردی کی لپیٹ میں ہیں۔ پہاڑوں پر برف باری کا سلسلہ جاری ہے اور دمشق کو بیروت سے ملانے والی سڑک ہفتے میں کئی بار بند ہوتی رہتی ہے۔ موسم کی ناسازگاری کے باوجود زندہ دلانِ شام کا جمِ غفیر ہر طرف گرم کپڑوں، ٹوپیوں لبادوں میں ملفوف نظر آتا ہے۔ مساجد، کلیسے، طعام گاہیں، قہوہ خانے، شبینہ کلب اور میکدے آباد ہیں۔

 ان میں سے کچھ مقامات میں داخل ہوکر اہلِ دمشق فاضل بند ہائے قبا سے آزاد ہو کر ”پھر تو وہ جانِ حیا، ایسا کھُلا، ایسا کھُلا“ کی عملی تفسیر پیش کرتے ہیں۔ یہ خادم اپنے افغان یارِ دیرینہ زبیر عزّت کے ہمراہ کرسمس کے آغاز کی رات، بوقتِ نصف شب دمشقِ قدیم کے مسیحی اکثریتی محلّے باب شرقی کی جانب نکل پڑا کہ مسیحیت کے مولد خطے میں عیدِ میلادِ مسیح کی رونق کا مشاہدہ کرے۔ وہاں کھوے سے کھوا چھل رہا تھا۔ لوگ باگ اپنے اہلِ خانہ کو ساتھ لیے چراغاں کی سیر دیکھنے امڈے پڑے تھے۔

 ہمارا ارادہ تھا کہ کسی کلیسا میں نصف شب کی دعا میں شریک ہوا جائے مگر یہ دھیان نہ رہا کہ شام کے مسیحیوں، خصوصا دمشق قدیم میں، اکثریت قدامت پسند مسیحی فرقوں کی ہے جن کے ہاں کرسمس سات اور آٹھ جنوری کو منایا جاتا ہے۔ بعد میں پتا چلا کہ کیتھولک مسیحیوں کا اجتماع دمشقِ قدیم کی فصیلوں سے باہر ”قصاء“ نامی نسبتا جدید محلّے کے ایک کلیسا میں تھا۔ باب شرقی کے گرجوں کو مقفل پایا مگر چراغاں ہر سمت تھا اور دورِ جدید کے کاروباری تقاضے مثلا سانتا کلاوز یا کرسمس بابا کا بہروپ بھرے [اکثر مسلمان] لڑکے، کھلونے بیچتے پھیری والے اور مٹھائیوں کی دکانیں عجب ریل پیل کا منظر پیش کر رہی تھیں۔

 گزشتہ خزاں میں اس خادم کے اہلِ خانہ دمشق آکر اسی محلّے میں مقیم ہوئے تھے چنانچہ یہاں کے دکانداروں سے علیک سلیک ہے۔ ان میں سے بہت سے مذہبا سنی یا اثنا عشری مسلمان ہیں لیکن کاروبار میں کیا دین اور کیسا دھرم۔ ایسا ہی جوش و خروش ہم نے اپنے محلّے ”شعلان“ کے مسیحی باسیوں میں بارہ ربیع الاوّل کے موقع پر دیکھ رکھا تھا چنانچہ زیادہ اچنبھا نہ ہوا۔

کرسمس کے فورا بعد اسرائیلیوں نے شاید یہ سوچ کر کہ اہلِ سوریہ جشن و ہنگامہ کے بعد بیکار نہ بیٹھ رہیں، میزائل باری سے کچھ ہلچل مچائی مگر مجال ہے کہ دمشقیوں کے شوقِ کوچہ گردی پر کچھ بھی اثر پڑا ہو۔ شام کو پھر بازار ”سُرمے سے تیز دشنہِ مژگاں کیے ہوئے“ لوگوں سے بھرے پُرے دکھائی دیے۔ ہماری اہلیہ جب دمشق اور بیروت میں چندے قیام کے بعد وطن لوٹیں تو جاننے والوں نے سوال کیا کہ آپ کی رائے میں شام کے یادگار ترین پہلو کیا ہیں۔

 انہوں نے کہا کہ یوں تو ”کرشمہ دامنِ دل میکشد کہ جا اینجا ست“ ہر پہلو پر صادق آتا ہے مگر تین چیزیں سب سے اہم ہیں۔ ایک تو یہ کہ تمام قیام کے دوران، نامساعد حالات کے باوجود کوئی تُرش رُو شخص نہ ملا۔ دوسرے، دن ہو یا رات، مسلمانوں کا محلّہ ہو یا مسیحیوں کا، میں سکرٹ پہنے ہوں یا عبا، کسی لمحے بھی کسی کی نگاہ میں غلاظت یا مجرمانہ فکر کا شائبہ تک محسوس نہ ہوا۔ تیسرے یہ کہ کوئی بد صورت انسان نظر نہ آیا۔ اس سے پہلے کہ سوال کرنے والے انہیں ان کے شوہر کی شکل و صورت کی جانب متوجہ کرتے، انہوں نے وضاحت کی کہ اس کا یہ مطلب نہیں کہ یہاں اکّا دُکّا کم رُو لوگ نہیں ہوتے، مگر بناؤ سنگھار اور صفائی ستھرائی سے کوئی غفلت نہیں برتتا۔ اس خادم کا مشاہدہ بھی اسی جانب دلالت کرتا ہے۔

لوگوں کے نزدیک حُسنِ ظاہری کی اہمیت بہت زیادہ ہے۔ ہماری جاپانی ہم کار ریسا بی بی تو مزاحاً کہتی ہیں کہ حساب کیا جائے تو اس ملک میں سب سے زیادہ خرچ خواتین کی فاونڈیشن کریم اور مردوں کے بالوں کے ”جیل“ پر کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ ہر تھوڑی دیر بعد کوئی نوجوان مرد یا خاتون ایسا نظر آجاتا ہے جس کی ناک پر چپکی پٹّی تازہ تازہ کروائی گئی پلاسٹک سرجری کی نشانی کے طور پر موجود ہوتی ہے۔ یہ تو ناک کا حال ہے جو نظر آتی ہے۔ شنید ہے کہ خصوصا خواتین میں دیگر اعضائے رئیسہ و خفیفہ کو بھی حسبِ دل خواہ شکل میں، بذریعہ جراحت ڈھالنے کا رواج عام ہے۔ لبنان میں تو اس کے لیے بینک باقاعدہ قرض بھی دیتے ہیں۔

بلاد الشام میں قیام کے سبب اس خادم کی عربی زبان کی تحصیل کا سلسلہ بھی جاری ہے اوراس سے جُڑے مضحکات کا بھی۔ ہمارے ہاں تجوید سکھاتے ہوئے ”قاف“ کے مخرج پر بہت زور دیا جاتا ہے۔ عرب ممالک میں سفر کے دوران معلوم ہوا کہ یہاں ”قاف“ بے چارے سے کوئی خاص اعتنا نہیں کیا جاتا۔ سعودی، عراقی، یمنی تو اس کی جگہ سرے سے ”گاف“ کی آواز بولتے ہیں جبکہ بلاد الشام والے ”الف“ مثلا قمیص کو ایک لہجے میں ”گمیص“ کہا جائے گا تو دوسرے میں ”امیص“۔

اس خادم نے بھی یہ اصول پلّے باندھ لیا مگر پھر بھی کبھی کبھی چُوک ہو جاتی ہے۔ ایک روز اپنے مقامی ہم کار یاسر دریعی کے گھر جانا ہوا جہاں ان کی اہلیہ دیما، بیٹے یسین اور بیٹی سلینا سے ملاقات ہوئی۔ یسین میاں کچھ لنگڑا رہے تھے۔ پتا چلا کہ فٹ بال کھیلتے ہوئے موچ آ گئی۔ خادم نے ازراہ مزاج پُرسی استفسار کیا ”فیہ الم؟ “ یعنی کیا درد ہے؟ یسین نے اثبات میں سر ہلایا اور میز پر سے بال پین اٹھا کر پیش کیا کہ ”الم“ یعنی قلم حاضر ہے۔ تب فورا عربی کے استادِ محترم خلیفہ آغا جان مرحوم کی روح کو دل ہی دل میں دعا دیتے ہوئے اس خادم نے فعل مجہول کا استعمال کیا اور پوچھا ”اَ ہذا مولم او لا؟ “۔ یسین بھی سمجھ کر مسکرا دیا اور بتایا کہ اب درد نہیں ہے۔

دو روز قبل دفتر میں کھانا کھایا اور ہاتھ پونچھنے کے لیے کاغذی رومال کا ڈبّا اٹھایا تو کیا دیکھا کہ اس پر اس کا برانڈ ”دیمہ“ تو جلی حروف میں درج ہے ہی، ایک سمت یہ بھی لال روشنائی سے مرقوم ہے کہ ”احذروا التقلید“۔ ایک لمحے کو حیرت ہوئی کہ اس کٹّر سیکولر مُلک میں کسی کاغذی رومالوں کے کارخانے والے کیسے کُھلم کُھلا لوگوں کو تقلید سے باز رکھنے اور وہابیّت اختیار کرنے کی تبلیغ کر رہے ہیں۔ حیرت رفع اور تشویش تب دُور ہوئی جب ساتھیوں نے بتایا کہ اس کا مطلب صرف اتنا ہے کہ ”نقّالوں سے ہوشیار“۔

 ایک جگہ تنگ منہ والا مٹکے نما برتن دکھائی دیا۔ کسی سے اس کا عربی نام پوچھا تو بتایا کہ ”دلّہ“۔ اپنے ملک میں آج کل اسیر علامہ خادم حسین رضوی صاحب کی اس موقع پر بے طرح یاد آئی۔ بر سبیل تذکرہ، جس پیشے یا صفت سے منسلک افراد کے لیے علّامہ صاحب یہ بلیغ ترکیب استعمال کرتے ہیں، انہیں اس مُلک میں ”عرصہ“ کہا جاتا ہے۔ پتا نہیں کیوں؟ اس میں ایک خوش گمانی پر مبنی خیال یہ ہے کہ اگر کوئی فرد کسی کو اردو میں اس ”رضویانہ“ لقب سے پُکارے، تو بُرا ماننے کے بجائے یہ تصور کیا جا سکتا ہے کہ اسے جسامت، خد و خال یا کسی بھی وجہ سے، ”مٹکا“ کہا جا رہا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).