فساد کےخلاف سب کو کمر بستہ ہونا ہو گا


\"edit\"دنیا کے مسلمان بدھ کو عیدالفطر منائیں گے۔ دنیا بھر کے مسلمانوں نے ماہ رمضان المبارک کا مقدس مہینہ دعائیں مانگنے اور امن و خوشحالی کی امید میں صرف کیا۔ لیکن اسلام اور انسانیت کے دشمن اس مقدس مہینے کے دوران بھی قتل و غارت گری اور فساد برپا کرنے میں مصروف رہے۔ کل مدینتہ النبی میں خودکش دھماکہ نے یہ واضح کر دیا کہ ان عناصر کے نزدیک نہ کسی مہینے کا احترام ہے اور نہ یہ کسی مقام یا بستی حتیٰ کہ پیغمبر اسلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے نگر کا لحاظ کرنے پر بھی آمادہ نہیں ہیں۔ یہ لوگ اس پیغام کو نافذ کرنے کا نام لیتے ہیں جو اللہ تعالیٰ نے اپنے پیارے محبوب کے ذریعے اس دنیا کے لوگوں کے لئے روانہ کیا تھا لیکن ان کا ہر قدم اس پیغام امن و محبت کو مسترد کرنے، نفرت پھیلانے اور خوں ریزی کرنے کی طرف اٹھتا ہے۔ ان لوگوں کے سیاہ کرتوتوں کی وجہ سے ہی دنیا میں اب اسلام کو دہشت گردی سے منسلک کر دیا گیا ہے۔ مخالفین طرح طرح کی باتیں بناتے ہیں لیکن مسلمانوں کے پاس اس بات کا جواب نہیں ہے کہ اسلام کی سربلندی کے دعوے دار ہی کیوں اسلام کی ایک خوفناک اور وحشیانہ شکل سامنے لا رہے ہیں۔

مسلمانوں سمیت دنیا کے دیگر ماہرین ان عوامل کا سراغ لگانے کی کوشش کر رہے ہیں جس کی وجہ سے دنیا کے مختلف ملکوں میں دہشت گرد گروہ منظم ہوئے ہیں اور ایک نامعلوم منزل کے حصول میں انسانوں کا خون بہانے میں مصروف ہیں۔ بہت سے لوگوں کو اس بات پر اعتراض ہو سکتا ہے کہ داعش یا اس کے طرز عمل پر چلنے والے گروہوں کی منزل نامعلوم نہیں ہے بلکہ وہ تو اسلامی خلافت قائم کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن اگر گزشتہ دو اڑھائی دہائیوں کے دوران ان عناصر کی قوت اور کارکردگی پر نظر ڈالی جائے تو یہ اندازہ کرنا مشکل نہیں ہے کہ دہشتگردی اور انسانوں کو مارنے کو اپنا ہتھیار بنانے والے یہ لوگ اور گروہ کوئی تعمیری اور مثبت کام کرنے پر آمادہ نہیں ہیں۔ وہ نہ تو دلیل سنتے ہیں اور نہ اپنی بات منوانے کے لئے دلیل لاتے ہیں۔ وہ بندوق ہاتھ میں پکڑے ، جسم سے بم باندھے، مارنے اور تباہی پھیلانے کو ہی منزل مقصود سمجھتے ہیں۔ اگر یہ عناصر واقعی اسلام اور شریعت کے کسی مخصوص تصور کے مطابق ایک مملکت اور ریاست یا خلافت قائم کرنا چاہتے تو انہیں اس تصور کی عملی شکل دکھانے کے کم از کم دو مواقع مل چکے ہیں۔ یہ دونوں مرتبہ ناکام ہوئے ہیں۔

پہلی بار طالبان کو افغانستان میں 1996 سے 2001 کے دوران حکومت کرنے کا موقع ملا۔ پورا ملک ان کے زیر نگیں تھا۔ اگرچہ دنیا کے ملکوں کی بڑی تعداد نے ان کی حاکمیت کو تسلیم نہیں کیا تھا لیکن پاکستان اور سعودی عرب نے اس حکومت کو تسلیم بھی کیا اور اس کے لئے سہولتیں بھی فراہم کیں۔ اپنے ملک کے اندر انہیں کسی قسم کے چیلنج کا سامنا نہیں تھا۔ طالبان 90 کی دہائی میں بعض قبائلی سرداروں کی چیرہ دستیوں کے خلاف احتجاج کے نتیجے میں ایک تحریک کی صورت عسکری قوت حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے تھے۔ لیکن اقتدار میں آنے کے باوجود انہوں نے ظلم کا خاتمہ نہیں کیا بلکہ افغانستان کے بڑے طبقوں کو انتہائی کسمپرسی کی زندگی بسر کرنے پر مجبور کیا۔ عورتوں کی تعلیم ہی نہیں، ان کے علاج کو بھی غیر اسلامی قرار دیا گیا۔ مغرب کا فراہم کردہ اسلحہ ان لوگوں کے لئے حلال اور جائز تھا لیکن علم کے راستے اور زندگی کی دوسری سہولتیں اپنے عوام پر حرام کر دی گئیں۔ یہ ویسی حکومت قائم کرنے کے دعویدار تھے جو رسول پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مدینہ منورہ میں قائم کی تھی۔ لیکن ان کے یہ دعوے دھوکے کے سوا کچھ نہیں تھے۔ وہ ہر مخالف آواز کو دبا رہے تھے۔ اپنے فیصلوں کے خلاف بات کرنے والوں کو گولیوں سے خاموش کرواتے تھے۔ دنیا کے بدترین دہشتگردوں کو اپنے ملک میں پناہ دے رہے تھے۔

ان میں سے ہی ایک القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن نے بالآخر 2001 میں امریکہ میں دہشت گرد حملوں کے ذریعے دنیا کی مسلمان اور غیر مسلمان آبادی میں دائمی افتراق ، انتشار اور عدم اعتماد کا لامتناہی سلسلہ شروع کر دیا۔ جب طالبان سے کہا گیا کہ وہ تین ہزار لوگوں کے قاتل کو امریکہ کے حوالے کریں یا اسے انصاف کے کٹہرے میں لائیں تو افغان روایت کا حوالہ دیتے ہوئے ملا عمر نے اصرار کیا کہ وہ اپنے مہمان کو کسی دشمن کے حوالے نہیں کر سکتے۔ اس طرح ملا عمر کی قیادت میں طالبان نے ثابت کیا کہ وہ اسلام کا نام صرف اپنے سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ جب اسلامی روایت اور سنت نبوی سے اسامہ بن لادن کو پناہ دینے کے لئے دلیل نہ لائی جا سکی تو افغان روایت کا ڈھونگ رچا لیا گیا۔ اس طرح ملا عمر کی قیادت میں طالبان نے نہ صرف یہ کہ اسلامی ریاست کے اپنے تصور کے مطابق کوئی آئیڈیل حکومت قائم نہیں کی بلکہ اپنی جہالت ، ہٹ دھرمی اور جلاد صفت طرزعمل کی وجہ سے افغانستان اور اس کے عوام کو ایک طویل اور نہ ختم ہونے والی جنگ کی بھینٹ چڑھا دیا۔ ان لوگوں کی فہم دین ناقص اور ان کے نعرے کسی دلیل اور تاریخی روایت کی بجائے خود پرستی اور قبائلی مزاج کے آئینہ دار تھے۔

طالبان نے ثابت کیا کہ وہ دین حق کے نمائندے نہیں ہیں بلکہ اسلام کا نام صرف خود کو درست اور دوسروں کو غلط ثابت کرنے کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ ان کے سخت گیر رویہ کی وجہ سے 9/11 کے ڈسے ہوئے امریکہ نے افغانستان پر حملہ کر دیا۔ اس طرح افغانستان میں ہلاکت و تباہی کے ایک طویل سلسلہ کا آغاز ہوا۔ امریکی حملہ ایک بڑے اور طاقتور ملک کے انتقام کا شاخسانہ تھا۔ ایک چھوٹے ملک سے ایک دہشتگرد کو پکڑنے کے لئے اتنی بڑی فوجی قوت کے ساتھ حملہ کرنا ہر لحاظ سے غلط اور ناانصافی تھی۔ امریکہ آج بھی ان غلطیوں سے پیدا ہونے والے حالات سے نمٹنے کی کوشش کر رہا ہے۔ لیکن اس حملہ کے بعد پاکستان کے بعض عاقبت نااندیش حلقوں نے طالبان کو ہیرو اور اسلام کے مجاہد بنا کر پیش کرنا شروع کر دیا۔ مسجد کے خطیب سے لے کر سیاسی جماعتوں کے سربراہوں تک نے حقیقی صورتحال کو سمجھنے اور اپنے لوگوں کو گمراہی سے بچانے کی بجائے، اپنی اپنی دکان چمکانے کے لئے ہر قسم کے جھوٹ کا سہارا لیا۔ اس ماحول میں سادہ لوح مسلمان امریکہ کو اسلام دشمن اور بندوق بردار خودکش حملہ آوروں کو مسلمانوں کے لئے جان قربان کرنے والا مجاہد سمجھنے لگے۔ مولویوں اور گمراہ سیاستدانوں نے ملک میں جو ماحول پیدا کیا تھا، اسی کی وجہ سے شدت پسندی کے رویہ اور جہادی کلچر کا بول بالا ہوا۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ اور خوشحال گھرانوں کے نوجوان اس دھوکے میں دہشتگردوں کا آلہ کار بننے پر آمادہ ہونے لگے۔ پندرہ برس گزرنے اور دہشتگردی کی جنگ میں ساٹھ ستر ہزار ہم وطنوں کی جان گنوانے کے باوجود ملک میں ایسے عناصر کی کمی نہیں ہے جو مسلسل دہشتگردی کے ’’نیک مقاصد‘‘ کو سمجھنے اور اسے امریکہ کے مظالم کا ’’ردعمل‘‘ قرار دینے میں پورا زور صرف کرتے رہتے ہیں۔

اسلام نافذ کرنے اور اسلامی نظام کا بہتر اور انسان دوست چہرہ دکھانے کا ایک موقع داعش یا دولت اسلامیہ کو شام اور عراق میں حاصل ہوا تھا۔ 29 جون 2014 کو عراق کے شہر موصل پر قبضہ کرنے کے بعد داعش کے لیڈر ابوبکر البغدادی نے اسلامی خلافت قائم کرنے کا اعلان کیا تھا۔ اس وقت عراق اور شام کے وسیع علاقے اس گروہ کے زیر اثر تھے۔ تیل کے کنوؤں سے حاصل ہونے والی آمدنی کے علاوہ 80 لاکھ آبادی سے وصول کئے جانے والے محاصل داعش کے مالی وسائل میں اضافہ کر رہے تھے۔ عراق اور شام کے شہروں پر قبضہ کے دوران لوٹی گئی دولت بھی اس گروہ کے پاس تھی۔ اسی لئے دو برس قبل دولت اسلامیہ کو دنیا کا سب سے مالدار دہشتگرد گروہ قرار دیا جاتا تھا۔ بجا طور سے یہ گروہ عراق پر امریکی حملے اور سابق عراقی وزیراعظم نور المالکی کی فرقہ وارانہ پالیسیوں کے نتیجے میں منظم ہوا تھا۔ حکومت اور اس کے حامی شیعہ عسکری گروہوں کے جبر کی وجہ سے سنی آبادیوں میں جو بے چینی پیدا ہوئی تھی، اس گروہ نے اس کا بھرپور فائدہ اٹھایا۔ پھر شام میں عرب بہار کے بعد صدر بشار الاسد کے خلاف شروع ہونے والی عوامی تحریک سے فائدہ اٹھاتے ہوئے یہ گروہ عسکری لحاظ سے مضبوط ہونے لگا۔ اس نے فرقہ وارانہ سیاست کو اپنا شیوہ بنایا اور جلد ہی شام کے علاوہ عراق کے وسیع علاقوں پر قابض ہونے میں کامیاب ہو گیا۔

ان سب عوامل کے باوجود داعش کو ایک فنکشنل ریاست قائم کرنے کے لئے ہر قسم کے حالات میسر تھے۔ وسیع علاقہ اس کے زیر تسلط تھا، اس کے پاس آمدنی کے کثیر وسائل تھے اور سرحدوں کی حفاظت کرنے کے لئے عسکری گروہ تھے جنہیں باقاعدہ فوج میں تبدیل کیا جا سکتا تھا۔ داعش کے مظالم اور وحشیانہ ہتھکنڈوں کے باوجود دنیا کے بیشتر دارالحکومتوں میں یہ بحث شروع ہو چکی تھی کہ اس نئی مملکت کو قبول کرنے پر غور کرنا چاہئے۔ لیکن طالبان کی طرح ابوبکر البغدادی کی قیادت میں دولت اسلامیہ نے بھی ثابت کیا کہ اسلامی خلافت قائم کرنے کے بارے میں اس کا اعلان جھوٹ کا پلندہ اور سیاسی حربہ تھا۔ اس گروہ نے اپنے زیر نگیں علاقوں میں قتل و غارتگری کا سلسلہ جاری رکھا۔ خلافت کا اعلان کرنے کے باوجود اپنے شہریوں کو تحفظ دینے کا قصد نہیں کیا۔ شیعہ باشندوں کے علاوہ عیسائیوں اور اقلیتی گروہ یزیدیوں کو اپنے علاقے چھوڑنے پر مجبور کیا۔ اسی پر اکتفا نہیں مجرموں کے اس ٹولے نے دوسرے عقائد کی لڑکیوں اور عورتوں کو غلام بنا کر ان کی منڈیاں لگانے اور انہیں فروخت کرنے کا سلسلہ بھی شروع کیا۔ اس کے ساتھ ہی دنیا بھر میں دہشت گردی کے لئے اپنے ہمدرد پیدا کرنے کی مہم جاری رکھی۔ یہ بات واضح ہے کہ داعش کسی بھی مرحلے پر ایک ذمہ دار ریاست قائم کرنے میں دلچسپی نہیں رکھتی تھی۔ بلکہ زیر قبضہ علاقوں سے حاصل ہونے والے وسائل کو دہشت اور تخریب کاری میں اضافہ کے لئے استعمال کرنے کا سلسلہ جاری رکھا گیا۔ اسی وجہ سے دنیا بھر کے ملکوں نے مل کر اس گروہ کے خلاف کارروائی کا آغاز کیا۔

شام اور عراق میں دولت اسلامیہ کو شکست کا سامنا ہے۔ 40 فیصد علاقے اس کے قبضے سے آزاد کروائے جا چکے ہیں۔ عراق کی فوج نے چند روز پہلے ہی بغداد کے قرب میں واقع فلوجہ کو داعش سے واگزار کروایا ہے۔ اس شکست کا بدلہ لینے کے لئے دنیا بھر میں خوف اور ہیجان کی کیفیت پیدا کی جارہی ہے۔ داعش نے گزشتہ چند روز میں یکے بعد دیگرے کئی دہشت گرد حملے کئے ہیں۔ اس گروہ نے دنیا بھر میں اپنے ہمدردوں کو اپنے اپنے ملکوں میں حملے کرنے کی ہدایت کی ہے۔ استنبول ائر پورٹ حملے کے بعد ڈھاکہ میں داعش سے وابستہ نوجوانوں کے ایک گروہ نے ایک ریستوران میں 20 غیر ملکیوں کو وحشیانہ انداز میں قتل کیا۔ ہفتہ کو بغداد کی مارکیٹ میں کار بم دھماکے میں مرنے والوں کی تعداد 220 سے تجاوز کر چکی ہے۔ کل سعودی عرب کے تین شہروں میں دھماکے کئے گئے ہیں۔ مسجد نبوی کے قریب ایک سکیورٹی چیک پوسٹ پر حملے میں چار سکیورٹی اہلکار جاں بحق ہو چکے ہیں۔ مسلمانوں کو یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ جو گروہ مدینتہ النبی میں بھی دھماکے کرنے سے نہ چوکے۔۔۔ جو رمضان المبارک کے مقدس مہینے میں روزہ داروں کو ہلاک کرنے کا سبب بنے۔۔۔۔ جو میدان جنگ میں شکست کا بدلہ لینے کے لئے بے گناہ اور معصوم لوگوں کا خون بہانا جائز سمجھتا ہو ۔۔۔۔۔۔ وہ کیوں کر اسلامی نظام لانے کا دعویدار ہو سکتا ہے۔

بدقسمتی سے پاکستان اور دیگر مسلمان ملکوں میں اب بھی ایسے لوگوں کی کمی نہیں ہے جو دہشت گردوں کی کارروائیوں کے لئے دلیل لانے اور انہیں مجبور اور مظلوم ثابت کرنے کی کوششوں میں لگے ہوئے۔ اسی طرز عمل کی وجہ سے مسلمان ملکوں کے خوشحال گھرانوں کے تعلیم یافتہ نوجوان ہتھیار اٹھانے اور خوں ریزی کرنے پر آمادہ ہوتے ہیں۔ ڈھاکہ کے حملہ آوروں کا پس منظر اس حوالے سے نمایاں ترین مثال ہے۔ پاکستان میں پکڑے جانے والے دہشتگردوں میں بھی اعلیٰ تعلیم یافتہ خوشحال گھروں کے نوجوان شامل ہوتے ہیں۔ مسلمانوں کو ان عوامل کو سمجھنے اور دہشتگردوں کی اصلیت سامنے آنے کے بعد بھی ان کی حمایت میں دلیل دینے والوں کی حقیقت جاننے کی ضرورت ہے۔

یہ لوگ دنیا میں فساد برپا کرنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے اسلام اور اسلامی نظام کا نعرہ مسلمان گھروں کے نوجوانوں کو گمراہ کرنے کے لئے بلند کیا ہے۔ بدنصیبی سے یہ اب تک اپنے ہتھکنڈوں میں کامیاب ہیں۔ ان کے پروپیگنڈا کے نتیجے میں فلوریڈا ، پیرس ، برسلز کے علاوہ ڈھاکہ ، کراچی اور لاہور میں بھی نوجوان اسلامی مملکت کے پرفریب نعرے کے نام پر ہتھیار اٹھانے ، ریاست سے جنگ کرنے اور معصوم شہریوں کو مارنے پر آمادہ ہو جاتے ہیں۔ وقت آ گیا ہے کہ ان لوگوں کی سرکوبی کے لئے ، اپنی نوجوان نسل کی حفاظت کے لئے، دنیا بھر میں مسلمانوں کی شہرت بحال کرنے کے لئے اور مقدس ترین مقامات حرمین شریفین کی حفاظت کے لئے، سارے مسلمان یک آواز ہو جائیں۔ یہ فرقے ، گروہ ، ملک ، قبیلے یا علاقے کی لڑائی نہیں ہے۔ یہ فساد برپا کرنے والے گروہ کے خلاف ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑنے اور مل کر اپنے عہد کے اس گمراہ ٹولے کو ختم کرنے کی جدوجہد ہے۔

خدا آج کے یوم سعید کی برکت سے دنیا بھر کے انسانوں کو اپنے حفظ و امان میں رکھے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2750 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments