عید کا چاند ، افریقہ کا بچہ اور تھر کے مور


\"muhammad

آج عید ہے۔ پاکستان کے علاوہ  ان اسلامی ملکوں میں بھی عید منائی جارہی ہے، جہاں کے امیر شہزادوں کا ہر دن عید کے مثل ہوتا ہے۔ وہ اپنی ریاستوں میں اس شان سے رہتے ہیں کہ یہ محسوس ہی نہیں ہوتا کہ یہ بھی اسی مٹی سے بنے ہوئے ہیں جس مٹی سے وہ افریقن بچے بنے ہوتے ہیں جن کی تصویریں جب عالمی نشریاتی اداروں میں شائع ہوتی ہیں، اور وہ تصاویر جب اپنا سفر کرتی ہیں تو جہاں جہاں سے گزرتی ہیں وہاں وہاں ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جیسے کسی نہر میں کوئی صحرہ کا کوئی تودہ گر گیا ہو اور وہ نہر اس تودے کی وجہ سے اپنے ہی پانی میں سوکھ رہی ہو!

جب وہ تصویریں اپنا سفر ختم کر کے ہمارے ملک تک پہنچتی ہیں، تو ہمارے سیدھے انسان ان تصویروں کو کافی دیر تک تکتے رہتے ہیں، اور انہیں کھانا پینا بھول جاتا ہے اور ان کے چہروں پر افسردی چھاجاتی ہے، اور وہ سوچنے پر مجبور ہوجاتے ہیں کہ اس دنیا کو کیا ہوگیا ہے!

ایک طرف تو ان شہزادوں کی تصاویر شائع ہوتی ہے جن کے ہاتھوں کی انگلیاں ختم ہوجاتی ہیں پر سونے، موتی کی انگوٹھیاں ختم نہیں ہوتی ان تصاویر میں ان شہزادوں کے لیے اتنی بڑی بڑی دیگ تیار ہوتی ہیں کہ ایسا لگ رہا ہوتا ہے کہ پوری دنیا کا اناج ان کے ہاتھ لگ گیا ہے اور دوسری طرف افریقا یا ایشیا میں ایک دو نہیں، لاکھوں بچے آج عید کے دن بھوکے ہیں اور بھوک سے مر رہے ہیں!

اور ہم پھر بھی ایک دوسرے کو کہہ رہے ہیں عید مبارک!

بھائی ہم کیوں نہ کہیں کہ عید مبارک !

دنیا کے بچے بھوکے ہیں!

افریقا کے بچے بھوکے ہیں !

ایشیا کے بچے بھوکے ہیں !

غریبوں کے بچے بھوکے ہیں !

میرے بچے تو بھوکے نہیں ہیں اور نہ آپ کے ہوں گے، اس لیے میں بھی کہہ رہا ہوں عید مبارک اور آپ بھی کہیں عید مبارک دنیا کے دکھ \"arabfeast\"میں ہمارا کیا؟دنیا تو اس کے علاوہ بھی بہت کچھ کرہی ہے تو کیا ہم آج عید کا دن بھی نہیں منائیں؟

پر ان تصویروں کا کیا جو اپنا سفر اس دنیا میں ایک مسافر کی طرح بھی نہیں کر پارہی، مسافر کی تو کوئی نہ کوئی منزل بھی ہوتی ہے، پر ان تصویروں کی منزل کیا ہے؟ یہ کہاں سے چلی ہیں؟ اور کہاں جائیں گی؟کس کیمرے نے ان تصویروں کو قید کیا ہے؟ اور کن آنکھوں نے ان کو آج تک دیکھا ہے؟ اگر دیکھا ہے تو کیا اثر لیا ہے؟ کیا کسی بھی آنکھ نے ان تصویروں کو دیکھا ہے تو کیا ان آنکھوں سے اشک بہے ہیں؟ کیا ان تصویروں کو دیکھ کر کسی آنکھ نے احتجاج ریکارڈ کرایا ہے

لیکن ان آنکھوں کا کیا قصور یہ تو دیکھیں گی جو بھی ان کی راہ میں آگیا یہ آنکھیں دکھ بھی دیکھتی ہیں اور سکھ بھی، یہ خالی پیٹ اور اس کے بعد نکلنے والے آنسو بھی دیکھتی ہیں اور بھرا ہوا پیٹ اور اس کے بعد مستی اور خمار بھی۔ ان آنکھوں کا ایک تو قصور سمجھ میں آ رہا ہے کہ یہ دیکھتی کیوں ہیں؟ آنکھیں قصور وار ہیں بھی اور نہیں بھی، ان آنکھوں کا قصور بیان کرنے میں تو شاہ جو رسالو بھرا پڑا ہے آپ شاہ جو رسالو پڑھیں اور دیکھیں کہ لطیف بھٹائی ان آنکھوں کو کیسے قصور وارٹھہرا رہے ہیں، لیکن فیض صاحب ان آنکھوں کی وکالت کرتے نظر آرہے ہیں

تمہارا شہر، تم ہی مدعی، تم ہی منصف

مجھے یقیں ہے، میرا ہی قصور نکلے گا!

پر اس عید کے دن ان تصویروں کا کیا جو مختلف رسالوں، اخبارات، اور اب تو سوشل میڈیا کی زینت بن رہی ہیں، کوئی رسالا اٹھاؤ، کوئی اخبار اٹھاؤ، یا جیسے ہی لیپ ٹاپ آن کرو تو سوشل میڈیا کے ذریعے ان بھوکے تڑپتے اور اپنی اداس نظروں سے اس دنیا کو دیکھتے یہ بچے ہمارے سامنے آجاتے ہیں اور ہمارے پاس اس کے علاوہ اور کیا ہے کہ ہم میگزین یا اخبار ایک طرف رکھ دیں اور اپنے لیپ ٹاپ بند کردیں اگر ہم ایسا نہ کریں گے تو ان بھوکے بچوں کا درد ہمیں مار دے گا، اور جب ہم زندہ ہی نہیں ہونگے تو ایک دوسرے کو کیسے کہہ سکیں گے

\"famine\" عید مبارک!

سوال یہ ہے کہ اسی ملک کے شہزادے اپنے ہاتھوں کی انگلیوں میں اتنی انگوٹھیاں کیوں پہنتے ہیں، وہ اپنے شکار کے وقت اپنے حرم میں اتنا کھانا کیوں لے جاتے ہیں، وہ خودکشی کیوں نہیں کرتے؟ جب کے ایک فوٹوگرافر نے ایک بھوکی بچی کی تصویر لی تھی جس میں ابھی تھوڑی جان تھی اور ایک طرف ایک گدھ اس بات کا انتظار کر رہا تھا کہ جیسے ہی یہ بچہ مرے تو وہ گدھ اسے کھائے اور وہ فوٹوگرافر یہ سب منظر اپنے کیمرے میں قید کر رہا تھا جیسے ہی بچہ بھوک سے مرا تو اک گدھ کا انتظار ختم ہوا اور وہ اس مردہ بچے پر جھپٹ پڑا۔

پھر اس فوٹوگرافر کا کیا بنا؟ اس نے خود کشی کر لی، لیکن آج اس عید کے دن پر آدھی سے زیادہ دنیا کے بچے بھوکے ہیں اور وہ مر بھی رہے ہیں تو کون ہے جو ان کی ایک ہی تصویر لے لے؟ جس سے دنیا نہیں بھی تو وہ شہزادے اور وہ آدمی تو خود کشی کرلیں جنہوں نے ان بھوکے بچوں کے دیس میں جینے کی عیاشی کی ہے، اور وہ بچے صرف اس لیے مر رہے ہیں کہ ان کے حکمران ان بھوکے بچوں کو انسان ہی نہیں سمجھتے۔

پر اس چاند کا کیا جو کل کی پوری رات رویا ہے۔ وہ کیوں نہ روئے جب ٹھٹہ کی مکلی سے لیکر افریقا کے کسی دور دراز علائقے سے ایک ہی صدا آ رہی ہو کہ ہم بھوکے ہیں، ہم جینا چاہتے ہیں، ہمارا قصور کیا ہے؟

تو اس صدا پر بھی چاند نہ روئے! کیونکہ چاند آکاش پہ ہوتا ہے اور آکاش سے سب دکھتا ہے۔ اور چاند یہ کہ رہا ہے کہ وہ سارے بچے جو

\"Wild

بھوکے ہیں وہ سب کونج ہیں جو اپنے ولر (ساتھیوں) سے بچھڑ گئے ہیں اور یہ کونج اڑ نہیں سکتی اس لیے اس دھرتی پر ہین اور دھرتی والوں نے ان کونجوں (بچوں) کا کیا حشر کیا ہے۔

چاند آکاش سے دیکھ رہا ہے کہ افریقا کے گاؤں اور تھر کے صحرا میں بچے بھوک سے مر رہے ہیں اپنے ماؤں کی جھولیوں میں وہ مردہ پھولوں کی طرح پڑے ہوئے ہیں۔ اور ایک نہیں اس دھرتی کے ہزاروں بچے بھوک سے تڑپ رہے ہیں اور نیلے آکاش پر کونج کی طرح پڑے ہوئے ہیں اور ان کا کوئی پرسانِ حال نہیں۔ اور دور آکاش پر چاند اپنے بند اور اداس لبوں سے فیض کی نظم پڑھ رہا ہے

فوٹو گرافر اپنے جدید کیمرے لیے ان علاقوں میں بھٹک رہے ہیں جہاں شہزادے صحرا کی رات کو انجوائے کر رہے ہیں، چاند ماتم کر رہا ہے اور بچے بھوکی کونجوں کی طرح بلک رہے ہیں اور تھر کے پیاسے مور مر رہے ہیں!

عید مبارک!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments