محمود اچکزئی کے موقف پر غور کرنا چاہیے


محمود اچکزئی کے بیان پر جو شوروغوغا ہورہا ہے ہمیں اس پر تشویش ہے۔ ہم اچکزئی کے طرف دار وفادار نہیں مگر وہ غلط ہے تو باقی \"hassamسب بھی غلطی کر رہے ہیں۔ معاملات کو عقل دلیل منطق شائستگی سے سلجھایا جا سکتا ہے تو یوں خواہ مخواہ الجھانے کی کیا ضرورت ہے۔ وہ غدار غدار کا دور لد گیا۔ اب نئے عمرانی معاہدوں کی ضرورت ہے۔ فیڈریشن کو مضبوط بنانے کے لئے نئی اکائیوں کا قیام ضروری ہے مگر قوم کو لایعنی مسائل کی سرخ بتی کے پیچھے لگا دیا جاتا ہے پانامہ کا قضیہ اس قدر طویل ہو گیا کہ میاں صاحب لندن کی ٹھنڈے موسموں کی آغوش میں دبک کر بیٹھ گئے اور پیچھے بھونپو چھوڑ گئے جو رات دن اپنی اپنی ڈفلی کے ساتھ اپنا اپنا راگ الاپنے لگے ہیں۔ جسے دیکھو اپنی بین بجا رہا ہے۔ کوئی ادارہ ذمہ داری لینے کو تیار نہیں۔ تاویلیں اور ازکار رفتہ سبیلیں بے کار دلیلیں ہواﺅں میں اڑنے لگتی ہیں جب بھی کوئی بنیادی مسئلہ سر اٹھاتا ہے ہا ہا کار مچ جاتی ہے مصنوعی لیڈر مصنوعی اپوزیشن مصنوعی بیانات ایک طوفان بد تمیزی سر اٹھانے لگتا ہے اور اصل مسئلہ چٹکیوں میں خاک کی صورت اڑا دیا جاتا ہے۔ آپ اور میں اچکزئی کے ہزار مخالف ہوں مگر معاملہ کی تہہ تک پہنچنے کی کوشش تو کریں۔

عوام کو یہ رہنما جو کہیں گے وہ آنکھ بند کرکے بھیڑ بکریوں کی طرح ان کے پیچھے پیچھے چل پڑیں گے۔ صدیوں سے یہی ہوتا آیا ہے۔ عوام اگر اتنے باشعور ہوتے تو کیا بار بار انہی لوگوں کو منتخب کرتے جنہوں نے کبھی ان کے بارے میں نہیں سوچا بلکہ ہمیشہ اپنی جیبیں بھرتے رہے۔ کیا انگریز کے گماشتوں نے کبھی عوام کی تربیت کی۔ کیا بدعنوان اشرافیہ نے کبھی عوام کو صحیح راہ دکھائی کیا ہمیشہ سے بادشاہ سپہ سالار اور پوپ ایک نہیں رہے۔ افریقہ، امریکہ، یورپ، ایشیا، آسٹریلیا برصغیر کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیجئے کیا کبھی یہ تین مقتدر بالادست طبقات عوام کے حق میں رہے۔ پاکستان بننے کے بعد ان تینوں کا جائزہ لیجئے اور پھر سوچئے کیا افغانی اصل مسئلہ ہیں۔

بھٹو صاحب کے دور میں افغانی آنا شروع ہوئے۔ یہ سردار داﺅد کا زمانہ تھا جو افغان بادشاہ ظاہر شاہ کے اٹلی کے دورے پرہونے کے سبب اس کے پورے خاندان کو تہہ تیغ کرکے برسراقتدار آیا تھا۔ اس وقت تو روس افغانستان پر حملہ آور نہیں ہوا تھا۔ اس وقت مجاہدین نے جنم نہیں لیا تھا اس وقت تو اسلام خطرے میں نہیں تھا پھر کیوں افغانستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت کی گئی۔ اس وقت چھوٹے چھوٹے کیمپ لگا کر ساری دنیا کو دکھایا گیا۔ سیاسی مفادات کے لئے ان کیمپوں کے دورے کئے گئے۔ اس زمانے میں ان مہاجرین پناہ گزینوں کا کھلے دل سے استقبال کیا گیا۔ دنیا بھر سے ان کے نام پر امداد وصول کی گئی۔ ضیا الحق نے توحق ہمسائیگی کی انتہا کردی۔ ان سیاسی مہاجروں کوہر قسم کی سہولت دی گئی۔ ان کوکیمپوں کی بجائے شہروں میں بسا دیا گیا۔ احتجاج کرنے والے اپنے عوام کو ہر معاملے میں دبایا گیا۔ انصار مدینہ کی مثالیں دی گئیں۔ یہاں تک کہا گیا کہ اگر تین ساڑھے تین لاکھ مہاجر یہاں رہ بھی جائیں تو کیا فرق پڑتا ہے۔ اب چالیس برسوں میں ان افغان مہاجروں نے یہاں کاروبار بھی کئے۔ شادیاں بھی کیں ان کی اولادوں کی اولادیں بھی ہوئیں۔ اور اب تو یہ افغانی ہماری زبانیں ہم سے اچھی شستگی شائستگی اور روانی کے ساتھ بولتے ہیں۔ اب آپ انہیں کیسے نکال سکتے ہیں۔ کس قانون کے تحت۔ ذرا سوچئے! آپ خود یورپ امریکہ جاتے ہیں۔ قانونی غیر قانونی طریقوں سے۔ اور ایک خاص مدت رہائش کے بعد یاکچھ جائداد کاروبارخرید لینے کے بعدغیر معینہ مدت کا رہائشی اجازت نامہ حاصل کرلیتے ہیں یا وہاں شادی کرنے کے بعد وہاں کی شہریت حاصل کر لیتے ہیں۔ کام کاج نہیں کرتے اور بینیفیٹس کلیم کرتے ہیں۔ مانچسٹرشہر کی ایک چوتھائی آبادی بینیفٹ وصول کرتی ہے جس میں اکثریت ایشیائیوں خاص طور پر کشمیریوں پاکستانیوں کی ہے۔ مگر افغانی وہاں بھی کاروبار کرتے ہیں۔ محنت مزدوری کرتے ہیں۔ اپنے تشخص کو مجروح نہیں کرتے۔ اپنی ثقافت رسم و رواج نہیں چھوڑتے۔ اور ذرا ہمارا طرز عمل دیکھئے۔

 

یہاں چالیس برس میں پاکستانیوں نے ان افغان مہاجرین کا جو استحصال کیا۔ ان کی خواتین اور بچوں کو مال غنیمت سمجھ کر جس طرح استعمال کیا۔ ان کی محنت اور سخت کوشی کا جو حال کیا۔ ان کی عزت نفس کو جس طرح پامال کیا۔ کون نہیں جانتا۔ سب جانتے ہیں ہماری پولیس دکاندار اور عوام انہیں دشمن سمجھ کر بے عزت کرتے رہے بات بات پر طعنے دیتے رہے عصمت فروشی پر مجبور کرتے رہے۔ ان کی خواتین کے لئے گلم جم کی اصطلاح استعمال کر کے ہر آدمی بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے کا خواہش مند رہا۔ اور پھرردعمل میں جرم اگر بڑھا تو واویلا کیوں ؟

افغانی جب آئے تھے تو کتنے معصوم تھے۔ ہم آپ سب اچھی طرح جانتے ہیں۔ اب چالیس برس بعد آپ ایک لشکر کو کیسے نکال سکتے ہیں جس کی اچھی بری تربیت خود آپ نے کی ہے۔ اب چالیس برس بعد قانونی طور پر تووہ پاکستانی شہری ہیں۔ اس سرزمین پر پیدا ہونے والوں کے پاس شناختی کارڈ پاسپورٹ ہیں۔ ان کو آپ کیسے زبردستی واپس بھیج سکتے ہیں ہاں اگر کوئی کسی سنگین جرم میں پکڑا جاتا ہے تو اس کی شہریت منسوخ کرکے واپس بھیجا جاسکتا ہے۔ جیسا کہ ہمارے آپ کے آقا برطانیہ میں ہوتا ہے۔ آپ کے وزیر اعظم سیاسی رہنما تو دن رات برطانیہ کی گود میں بیٹھے رہیں۔ وہاں رہنا اپنا حق سمجھیں جبکہ نہ تو وہ آپ کے ہم مذہب ہیں نہ ہم قوم نہ ہم نسل نہ ہم زبان۔ اور آپ اپنے ہم قوم ہم مذہب ہم زبان ہم نسل بھائیوں کے درپے رہیں کہ انہوں نے آپ کے ملک کو تاراج کردیا ہے۔ ذرا سوچئے آپ کے بزرگ کون تھے۔ ذرا مردم شماری کے مطابق پاکستان کی آبادی کا زائچہ دیکھئے کہ کتنے فی صد آبادی نے قوم کے خانے میں افغان لکھا ہوا ہے کشمیر پنجاب بلوچستان سندھ خیبر پختونخوامیں کتنے لوگوں کے آبا و اجداد افغان ہیں۔ کیا راج پوت افغان نہیں ہیں؟ پاکستان میں الف کس لئے ہے کیا افغانیہ کے لئے نہیں؟ اگر افغانی افغانیہ میں ہیں تو یہ صدیوں کی نقل مکانی کا تسلسل ہے۔ آپ صرف یہ کیجئے کہ رجسٹریشن کیجئے شہریت دیجئے۔ انہیں باقاعدہ قانونی ٹیکس نیٹ ورک میں لائیے۔ چالیس برسوں میں آپ سے یہ کام تو ہو نہیں سکا صرف نعروں پر گذران کررہے ہیں کہ یہ واپس جائیں۔ یہ سب کچھ سنتے سنتے ہمارے کان پک گئے ہیں۔ پشاوریوں سے زیادہ نقصان کس نے اٹھایا ہے جو اپنے ہی شہر میں اقلیت کا مزا لے رہے ہیں اجنبی زبانیں رسم ورواج اجنبی رویے شہر پر قابض ہو گئے ہیں اب تو مہاجرین بھی اقلیت میں ہیں کہ سوات ٹل پاڑہ چنار وزیرستان کے لوگوں نے پشاور پر قبضہ جما لیا ہے کیا کل ان سے بھی کہا جائے گا کہ اپنے علاقوں میں واپس جاﺅ۔ پشاور سے اپنی انوسٹمنٹ اٹھا کر وہاں لے جاﺅں۔ پشاور کا حلیہ بدل چکا ہے جس طرف نکل جائیں آبادیوں کی مارکیٹوں کی پلازوں کی بھرمار ہے کیا یہ مقامی لوگوں کی محنت کا شاہکار ہے۔ ذرا سوچئے اور محمود اچکزئی کے لتے لینا بند کیجئے۔ ایک سنجیدہ طرز فکر ایک قابل عمل پالیسی کی ضرورت ہے اس پر دھیان دیجئے۔

ہماری آنکھ میں تصویر ہے جادو بھری دنیا

ہم اپنے آپ میں گم اور کچھ سوچا نہیں کرتے

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments