کچی عمر کا افسانہ


\"zeffer05\"باوجود بسیار کوشش کے، وہ محبت نامہ لکھنے میں ناکام رہا۔ صدَف اس کی بس اسٹاپ فیلَو تھی۔ بس اسٹاپ فیلَو؟ جی ہاں! تنویر اسکول جانے کے لیے، اسی بس اسٹاپ پر کھڑا ہوتا تھا، جہاں صدَف اپنے اسکول جانے کے لیے، بس کے اِنتَظار میں۔ اونی بستہ گلے سے لٹکاے، گم سم صدف، تنویر کے دِل میں بَس گئی تھی۔ کچی عمر کے جذبَوں کے زیرِ اثر، وہ اپنی ذات کو، صدف کے گلے کا بستہ سمجھتا تھا، تو کبھی اپنے آپ کو، اس مقام پر رکھتا، جہاں صدَف کے گورے چِٹے پانو پڑتے۔ وہ اسے نا دیدوں کی طرح تکتا تھا۔ لیکن آگے بڑھ کر صدف سے بات کرنے کی جرات نہ تھی۔ چناں چہ اس نے اِرادہ کیا، کہ اپنے دِل کا احوال پرچے پر منتقل کر کے پہنچاے۔

\’جان سے پیاری جانو۔۔۔۔ \’اوں ہوں!\’ اس نے فورا ہی رد کردیا۔ جیسے منہ میں بادام کی کڑوی گری آنے کا احساس ہوا ہو۔۔۔ \’جانِ من\’۔۔۔ جانِ من لِکھ کر تھوڑی دیر تذبذب میں پڑا رہا۔ پہلی نظر میں مناسب دکھائی دیا، مگر روایتی سا بھی لگتا تھا۔ وہ کچھ نیا چاہتا تھا۔ کچھ ایسا جو پہلے نہ کہا گیا ہو، جو پہلے نہ لکھا گیا ہو۔ اس نے القابات کے چناو کو موخر کرکے، متن لکھنے کے بارے میں سوچا۔ ممکن ہے، عبارت لکھتے ہوے کوئی پھڑکتا ہوا لقب ذہن میں اتر آے!

\’میں تمھیں روز دیکھتا ہوں، جب تم سفید یونے فارم میں لِپٹی، اپنا بستہ گلے سے لٹکاے، شیشم کے درخت کے نیچے کھڑی، بس کا انتظار کرتی ہو۔ تو مجھے لگتا ہے، تم میرے لیے وہاں ہو، لیکن آنکھ اٹھا کر مجھے دیکھنے سے ڈرتی ہو۔ شاید اِس لیے کہ بس اسٹاپ پر اور بھی لوگ ہوتے ہیں، اور تم چاہتی ہو، تمھارے جی کا حال میرے سوا، کوئی نہ جانے۔\’۔۔ اتنا ہی لِکھ کر، اس نے تحریر کا پانچ چھہ مرتبہ تنقیدی جائزہ لیا، تو اِس نتیجے پر پہنچا، کہ عشقیہ خط لکھنا، اس کے بس کی بات نہیں ہے۔ اِس سے بہ تر ہوگا، وہ موسم کا حال لِکھ کر بھیج دے۔ تنویر نے رومانی خطوط کی باقیات کو چپکے سے چھت پر لے جا کر نذرِ آتش کردیا۔ تا کہ کسی کے ہاتھ، کوئی ثبوت نہ لگے۔

دو دن، تین دن، چار دن، کئی روز اس کا وہی معمول رہا، یعنی اسکول آتے جاتے، صدف کو میٹھی نظروں سے تاڑنا۔ اس کا بستہ بن جانا۔ اس کے قدموں کی دھول ہوجانا۔ بہ راہ راست من کی بات کرنی، مشکل تھی۔ عید کے آنے میں کچھ دن باقی تھے؛ سو اسے عید مبارک کا پیغام دینے کی ٹھانی۔ اِس بار سادے کاغذ پر دِل کی شَبہیہ بنا کر فالتو حصوں کو، قینچی کی مدد سے الگ کِیا۔ اُس پر اَبری کو پھول کی پتیوں کے مانند تراش کر، حاشیہ کھینچا۔ اور چمکیلے ورق سے \’عید مبارک\’ اور اپنے اور صدف کے ناموں کے پہلے حروف \’ایس۔ ٹی\’ کو ابھارا۔ جتنا سنوارسکتا تھا، سنوارا۔ اگلا مرحلہ یہ تھا، کہ کسی نہ کسی طرح صدَف تک یہ فن پارہ پہنچایا جاے، اور غیر کو اِس کا پتا بھی نہ چلے۔ ایک صورت تھی، جب صدف بس پر سوار ہونے لگے۔۔ نہیں نہیں۔۔۔ جب وہ اسکول کے اسٹاپ پر اترنے لگے، تو ایسے میں اُس کے حوالے کردیا جاے۔ ایک یہی موقع ہوتا ہے، جب دروازے میں لٹکے لڑکے، اترنے والوں کو جگہ دینے بس کے ساتھ چِپکے کھڑے ہوتے ہیں۔

دو دِن، تین دِن، چار دِن، کئی روز یونھی ہوتا رہا، کہ وہ سواریوں کے لیے راستہ چھَوڑ کر بس کے گیٹ سے لگ کر کھڑا ہوجاتا۔ سبھی اترتے، صدَف بھی، لیکن عین وقت پر تنویر کی ہمت جواب دے جاتی۔ یوں آج کا کام کل پر ٹل جاتا۔ گھر آ کر وہ اس راز کو بستے سے نکال کر، سرھانے کے غلاف میں چھپا دیتا۔ ڈرتا بھی، کہ کہیں افشا نہ ہوجاے۔ شرمندگی کے مارے، وہ پسینے پسینے ہوجاتا، ایسی صورت میں کیا جواب دے گا، کہ میٹرک کا طالب علم اور۔۔۔۔۔۔۔۔ کل سے عید کی چھٹیاں تھیں، اس نے مصمم ارادَہ کِیا، کہ اگر آج بھی وہ یہ خطِ گل زار، دِل آرا تک نہ پہنچا سکا، تو اِسے تلف کردے گا۔

تنویر اسی طرح دروازہ چھوڑے کھڑا تھا۔ اس کا دایاں ہاتھ، اپنے بستے میں تھا، جس میں دھڑک دھڑک کرتا، خطِ بندَگی لرَز رہا تھا۔ ایک، دو، تین، چار ۔۔۔۔۔۔ صدَف اس کے سامنے سے گزرتے ہوے، لمحہ بھر کے لیے ٹھیری۔ تنویر کا ہاتھ بستے سے باہر نہ نکلا۔ اُس کے کانوں میں صدف کی تمتمای ہوئی سرگوشی پڑی۔ \’بزدِل\’۔۔۔ صدمے کے باعث، وہ زمین سے چپکا رہا۔ اس کے لیے نظریں اٹھانا مشکل ہورہا تھا، ساتھ ہی وہ کاغذ سے تراشے دِل کو اپنی مٹھی میں مسوس رہا تھا۔ صدَف دور جاچکی تھی۔

ظفر عمران

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ظفر عمران

ظفر عمران کو فنون لطیفہ سے شغف ہے۔ خطاطی، فوٹو گرافی، ظروف سازی، زرگری کرتے ٹیلی ویژن پروگرام پروڈکشن میں پڑاؤ ڈالا۔ ٹیلی ویژن کے لیے لکھتے ہیں۔ ہدایت کار ہیں پروڈیوسر ہیں۔ کچھ عرصہ نیوز چینل پر پروگرام پروڈیوسر کے طور پہ کام کیا لیکن مزاج سے لگا نہیں کھایا، تو انٹرٹینمنٹ میں واپسی ہوئی۔ آج کل اسکرین پلے رائٹنگ اور پروگرام پروڈکشن کی (آن لائن اسکول) تربیت دیتے ہیں۔ کہتے ہیں، سب کاموں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑا تو قلم سے رشتہ جوڑے رکھوں گا۔

zeffer-imran has 323 posts and counting.See all posts by zeffer-imran

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments