دکھ بھرے انکشافات


بجٹ سیشن میں روح کو جھلسا دینے والا پہلا انکشاف یہ ہوا کہ ہمارے عوامی نمائندے ایوان کے اندر شرافت کا لباس بھی تار تار کر سکتے ہیں، اسمبلی میں جمہوریت کا جنازہ نکالنے کے لیے چارپائی بھی لائی جا سکتی ہے اور بجٹ پیش کرنے سے روکنے کے لیے اسمبلی کے دروازوں پر تالے بھی ڈالے جا سکتے ہیں۔ جب عوام کے نمائندے آپس میں گتھم گتھا ہو رہے تھے، تو انٹرنیشنل میڈیا میں خبر شائع ہوئی کہ امریکہ اپنا بحری بیڑا گوادر بندرگاہ کے مدمقابل لے آیا ہے۔

مجھے بے اختیار 1971 ء کا وہ زمانہ یاد آیا جب امریکی ساتویں بحری بیڑے کا بہت چرچا تھا کہ وہ مشرقی پاکستان کی سلامتی کو یقینی بنانے کے لیے خلیج بنگال کی طرف روانہ ہو چکا ہے۔ ہم اس کے پہنچنے کا بے تابی سے انتظار ہی کرتے رہے اور اسی دوران سقوط ڈھاکہ پیش آ گیا۔ پاکستان کی ایک ویب سائٹ نے گوادر بندرگاہ میں لنگر انداز ہونے والے بحری بیڑے کی تصویر بھی پوسٹ کی ہے، البتہ مین اسٹریم میڈیا نے کوئی خبر نہیں دی۔ گوادر بندرگاہ پاکستان کی خوشحالی اور ہمہ پہلو ترقی کا ایک گیم چینجر منصوبہ ہے، اس لیے ہمیں اسے امریکی سائے سے محفوظ رکھنے کا سامان کرنا ہو گا۔

یہ عجیب اتفاق ہے کہ جس روز امریکی بیڑے کی تصویر نمودار ہوئی، اسی روز ہمارے ایک روزنامے نے گوادر بندرگاہ کے بارے میں ایک امید افزا رپورٹ شائع کی۔ اس میں انکشاف کیا گیا تھا کہ سی پیک کے تحت بندرگاہ کا فیز ون مکمل ہو چکا ہے جس میں بارہ کارخانے ہیں۔ ان میں سے چار مکمل طور پر تیار ہو چکے ہیں اور باقی بھی آخری مراحل میں ہیں۔ انٹرنیشنل ائرپورٹ پر کام بڑی تیزی سے ہو رہا ہے اور تین برسوں میں لاکھوں افراد برسرروزگار ہو چکے ہیں۔

ترقیاتی اسکیموں کی تفصیلات اس قدر مسحور کن تھیں کہ مجھے گمان گزرا کہ کہیں کسی بدخواہ کی نظر نہ لگ جائے۔ بدخواہ کی نظر تو بعد میں لگے گی، مگر ہمارے ارباب حکومت کی بے بصیرتی اور غفلت شعاری اپنا رنگ دکھا رہی ہے۔ برسوں پہلے دونوں ملکوں کے مابین ترقیاتی منصوبوں کی ترجیحات طے کرنے کے لیے جائنٹ کوآپریشن کمیٹی (جے سی سی) قائم کی گئی تھی۔ اس کا آخری اجلاس پاکستان کی درخواست پر نومبر 2019 ء میں ملتوی ہوا تھا۔

عوام کے لیے یہ انکشاف کسی طرح صدمے سے کم نہیں ہو گا کہ اس کمیٹی کا ایک بھی اجلاس بعد ازاں منعقد نہیں ہوا جس کے باعث سی پیک کے منصوبے تاخیر کا شکار ہیں۔ اس پر چین کے اندر تشویش کا پیدا ہونا ایک فطری امر ہے۔ یہ بات بھی کم لوگوں کو معلوم ہو گی کہ کراچی سے پشاور تک جدید تقاضوں کے مطابق ریلوے ٹریک بچھانے کے منصوبے پر دونوں ملکوں میں بہت پہلے اتفاق ہو گیا تھا جس کی لاگت چھ ارب ڈالر تھی۔ اب اسے انکشاف کا درجہ دیا جائے یا اپنی بدقسمتی کا نوحہ سمجھا جائے کہ آئی ایم ایف نے چھ ارب ڈالر کا قرضہ دیتے ہوئے پاکستان پر یہ شرط عائد کر دی ہے کہ وہ کسی اور ملک سے قرضہ حاصل نہیں کر سکے گا، چنانچہ ایم ایل ون کا انقلاب آفریں منصوبہ کھٹائی میں پڑا ہوا ہے۔

ان عجیب و غریب حالات میں اس امر کا کھوج لگانا اور قوم کو آگاہ کرنا ضروری ہے کہ گوادر بندرگاہ میں امریکی بیڑے کی آمد کا مقصد کیا ہے۔ یہ اس لیے بھی ضروری ہو گیا ہے کہ سینہ بہ سینہ یہ بات پھیل رہی ہے کہ پچھلے دنوں ایک امریکی مال بردار جہاز سامان سے لدا ہوا کراچی ائرپورٹ پر اترا اور وہاں سے نیا سامان لاد کر واپس چلا گیا۔ ایسے وقت قوم کو اندھیرے میں رکھنا بہت خطرناک ہو گا جب افغانستان میں خانہ جنگی کی آگ سب سے زیادہ پاکستان پر اثرانداز ہونے والی ہے۔

ہمیں امید کرنی چاہیے کہ ہمارے ارباب حل و عقد اپنی تمام تر صلاحیتیں بروئے کار لا کر آنے والی تباہی کے موثر سدباب کو اولین اہمیت دیں گے۔ اب تک تو نعرہ بازی زیادہ اور ذہنوں کو مسخر کرنے والی سفارت کاری کم نظر آتی ہے۔ پاکستان کو افغان طالبان کی قوت کا صحیح اندازہ لگانے، ان کے رویوں میں تبدیلی کا باریک بینی سے مطالعہ کرنے اور علاقائی طاقتوں کا حصار قائم کرنے کے لیے حکمت عملی وضع کرنا ہو گی۔ چین کا فعال کردار صورت حال میں توازن پیدا کر سکتا ہے اور افغان طالبان کے ذریعے امن کے قیام اور استقلال میں بہت معاون ثابت ہو سکتا ہے۔

بجٹ سیشن کے دوران ایک ایسا انکشاف بھی سامنے آیا کہ بڑی دیر تک میرے اعصاب سن ہو کے رہ گئے۔ معلوم ہوا کہ 22 جون 2021 ء کی صبح وفاقی کابینہ کے اجلاس میں وزیرخزانہ شوکت ترین نے اس تجویز کی منظوری طلب کی کہ مقامی اور بین الاقوامی سکوک جاری کرنے کے لیے بڑے بڑے قومی اثاثے گروی رکھ دیے جائیں۔ یہ سارا کام اس قدر رازداری سے انجام دیا گیا کہ ائرپورٹس اور موٹرویز گروی رکھنے کے لیے ہوابازی اور مواصلات کی وزارتیں بھی اعتماد میں نہیں لی گئیں۔

ہمارے ایک معاصر انگریزی اخبار نے ان قومی اثاثوں کی فہرست شائع کی ہے جو پہلے گروی رکھے جا چکے ہیں اور آئندہ بڑی تعداد میں رکھے جائیں گے۔ پرانے زمانے میں ہمارے بزرگ کسی چیز کو گروی رکھنے کو بہت برا سمجھتے تھے کہ اگر قرض وقت پر واپس نہ کیا جا سکا، تو وہ قیمتی شے دوسروں کے پاس چلی جائے گی۔ فہرست پر نظر ڈالی، تو اس میں تمام بڑے ائرپورٹس اور تمام موٹرویز شامل تھیں۔ ان سکوک کے ذریعے 3.5 بلین ڈالر حاصل کرنا مقصود ہیں۔

ان سکوک میں دیندار لوگوں کی دلچسپی پیدا کرنے کے لیے یہ تاثر دیا جا رہا ہے کہ یہ سارا کام شریعت کے مطابق ہو رہا ہے اور سود کے بجائے رقوم کے استعمال کا کرایہ ادا کیا جائے گا۔ مجھے اس خیال سے بڑی وحشت ہو رہی ہے کہ قومی اثاثے گروی رکھے جا رہے ہیں اور قوم اس پورے عمل سے بالکل بے خبر ہے۔ میں اپنا کالم ختم کر ہی رہا تھا کہ ایک اور سر چکرا دینے والا انکشاف ٹی وی پر سنا کہ پچھلے سال کے بجٹ میں وزیراعظم ہاؤس کے لیے ایک ارب روپے بجٹ میں رکھے گئے تھے۔ ہمارے کفایت شعار وزیراعظم کی لا ابالی ٹیم نے مزید آٹھ ارب روپے خرچ کر ڈالے۔ عوام کے ٹیکسوں کے نو ارب روپے۔ ع اب کسے رہنما کرے کوئی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments