لالے کی حِنا بندی


کہا جاتا ہے کہ تلخ ماضی اور اس تلخ ماضی کی یادیں عذاب اورغضب ناک ہوتی ہیں۔ ماضی میں واقع ہونے والے حادثات، نازل ہونے والے مصائب اور تکالیف مستقبل اور حال کے لمحات کو سوگوار کر کے رکھ دیتے ہیں۔ اِن سوگوار اَیام کا مداوا حال اور مستقبل کا خوشگوار سامان قرار پاتے ہیں۔ اگر موجودہ اور آنے والے زمانے کو خوشحالی کی طرف گامزن کرنے کے اقدامات نہ کیے جائیں تو تلخیوں اور تلخ یادوں سے چُھٹکارا اور خلاصی نا ممکن ہو جاتی ہے۔

آج اس خطۂ زمین کہ جہاں ہم رہائش پذیر ہیں کے عوام (دوسرے لفظوں میں حیوانوں ”خصوصاَ بھیڑ بکریوں کے ریوڑ“ کی شکل میں نا اتفاقی کی زندگی گزار رہے ہیں ) ۔ اپنی ذمہ داریوں سے عہدہ بَرا ہونے کی بجائے فرائض سے پہلو تَہی کر رہے ہیں۔ تلخ ماضی سے سبق سیکھنے کی بجائے کاہلی کا شکار ہیں۔ یہ کاہلی در حقیقت غفلت کا دوسرا نام ہے۔ یہاں ”اگر“ سے کام لیا جاتا تو بہتر نتیجہ اخذ ہو سکتا تھا۔ وہ اِس لئے کہ اگر یہ ادراک کر لیا جاتا کہ توانائی کے ذرائع جو اللہ تعالیٰ کی نعمت غیر مترقبہ کا دَرجہ رکھتے ہیں، کو ضائع ہو نے بچایا جاتا۔ تو۔ حال و ماضی میں ہماری ترقی پر ”نا ممکن“ جیسی اصطلاحات غالب نہ آسکتی تھیں۔ اوراس طرح مستقبل بھی روشن ہو جاتا۔

حکمران طبقہ عوا م کو بے وقوف بنانے کے تمام حربے استعمال کرتا ہے۔ ایک حربہ یہ بھی ہے کہ ”بھارت پاکستان کا پانی (دریا) روکے ہوئے ہے۔ جس کے باعث پاکستان میں دریائی پانی شدید قلت اختیار کیے ہوئے ہے“۔ جھوٹ اور سفید جھوٹ ہے یہ۔ جو دریا بھارت سے گزرتے ہیں تو یقینا اُس نے ان قیمتی وَسائل سے استفادہ کرنا ہے۔ لیکن ہر سال جو پانی جوش میں آ کر سیلاب کی شکل اختیار کر لیتا ہے اور پاکستان میں ناقابلِ تلافی نقصان پہنچاتا ہے۔

باغات اور زراعت تباہ کرکے رکھ دیتا ہے۔ شہر کے شہر صفحہ ہستی سے مٹا دیتا ہے۔ مویشی (چوپائے ) گھریلو سازوسامان اور جمع پونجی بَہا کر لے جاتا ہے۔ قیمتی اِنسانی جانیں سیلاب کی نذر ہو جاتی ہیں۔ تعلیمی اِدارے اور ہسپتالیں دریا بُرد ہو جاتی ہیں۔ اِن سیلابوں سے معیشت اس قدر تباہ ہو جاتی ہے کہ بحالی کا عمل نا ممکن ہو جاتا ہے۔ ساکِنانِ وطن دربَدر ٹھوکریں کھانے کے جبر میں خواہشِ حیات سے دست بردار ہو کراہتمامِ مرگ کو ترجیح دیتے ہیں۔ انجام کار یہ بھی خود کُشیوں کے رجحانات و اسباب میں اضافہ ہیں۔ اِن تمام عواقب کو اگر ہمارے منصوبہ ساز مدِ نظر رکھیں تو حکمتِ عملیاں وضع کرتے وقت نقصانات سے نہ صرف بچا جا سکتا ہے بلکہ توانائی کے بہترین اور اعلیٰ قسم کے ذرائع ”پانی“ سے لا تعداد دیگر فائدے بھی حاصل کیے جا سکتے ہیں۔

” دریائی پانی“ جو زراعت کی پیداوار کے حصول کے لئے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔ ہر سال برسات کے موسم میں سیلاب کی شکل میں نقصانات پہنچاتا ہوا سمندر بُرد ہوجاتا ہے۔ سمندر کی نذر ہونے والا یہ پانی قلیل مقدار میں نہیں ہوتا بلکہ لاکھوں کیوسک زرخیز پانی سمندر میں ضائع ہو جاتا ہے۔ جس کا خمیازہ برقی قلت اور نہری پانی کی کمی کی صورت میں ہم بھگت رہے ہیں۔ یہی پانی جو برسات کے موسم میں متعدد نقصانات کا باعث بنتا ہے۔

اگر دریاؤں پر بند باندھ کر جوش میں آتے دریاؤں کو نکیل ڈال دی جائے۔ تو کیا مضائقہ۔ ؟ ”بندوں“ میں ذخیرہ شدہ پانی کو حسب ضرورت استعمال میں لا کر اِس سے زرعی مقاصد بھی حاصل کیے جا سکتے ہیں۔ اور بجلی کی ضروریات نہ صرف پوری کی جا سکتی ہیں بلکہ حاصل شُدہ توانائی دیگر ممالک کو بھی برآمد کی جا سکتی ہے۔ مگر یہاں تو اِن عقل کے اندھے بادشاہوں کو ”مَجنوں نظر آتی ہے لیلیٰ نظر آتا ہے۔ “

ماضی کی تلخیاں اَذہان سے مکمل طور پر مٹ چُکی ہیں کیونکہ بجائے اِس کے کہ ہم اپنی غلطیوں کو دُہرانے کی جرات نہ کریں ذاتی (انفرادی مفادات) حِرص و ہَوس جس کا دوسرا نام بد عنوانی (کرپشن) ہے کو منظور نظر قرار دیتے ہیں۔ اِس کیفیت میں ہم کیوں کر ترقی کریں۔ ؟ ایسے میں اقتدار پر براجمان پنڈت ہر دور میں یہ پروپیگنڈہ کرتے ہیں کہ بھارت پاکستان کے حصے کا پانی بند کیے ہوئے ہے۔ یہ واوَیلا در اصل عوام کو اصل مسائل (انتخابات اور اداروں میں وسیع بد عنوانی اور سیاسی اداکاروں کی کذب بیانی جو وہ ہر وقت فرماتے رہتے ہیں ( کے ذریعے اصل مسائل سے توجہ ہٹانے کی کوشش ہوتی ہے۔

اس پر یہ کہ ہم (عوام) ہیں اندھا یقین کر لیتے ہیں لیکن یہ نہیں دیکھتے کہ ہر سال جو لاکھوں کیوسک شدید فلڈ حملہ آور ہوتا ہے اس کے نقصانات سے کیسے بچا جائے؟ یہ کوئی مشکل اقدامات تو ہیں نہیں۔ جو نا ممکن ہوں۔ کئی ڈیمز ہیں جن کے منصوبے اس وقت زیرِ التوا ہیں۔ اورحکومتی و سرکاری عدم توجہی کا شکار ہیں۔ اس طرح پہاڑی سیلابی ریلے بے تحاشا نقصانات کا باعث بنتے ہیں۔ اس نعمت کو بھی مناسب استعمال میں لا تے ہوئے (چینالائز کر کے ) زراعت کے نظام کو مضبوط کیا جا سکتا ہے۔ اور بجلی جیسی توانائی کے حصول کو ممکن بنایا جا سکتا ہے۔ ساتھ ہی موسمی حالات کو دیکھا جائے تو روشنی کی شدت اور ہوا کی طاقت سے بھی بجلی پیدا کر کے خود کفیل ہو سکتے ہیں۔

شاید یہ بھی ہماری انتہائی سادگی ہے کہ اِن سیاست دانوں کو ہم عقل کے اندھے قرار دیتے ہیں۔ اس سے ہم یہ ثابت کرنے کی کوشش میں ہیں کہ انھیں اقتدار کے اصولوں اور دساتیر سے ناواقفیت ہے۔ جبکہ یہ سیاسی پنڈت تو وسائل اراضی پر اپنی عیاریوں اور مکاریوں کے ذریعے قابض ہیں۔ اور جان بوجھ کر عوام کو ایک ظالمانہ اور استحصالی نظام کے شکنجے میں جکڑ رکھا ہے۔ بار برداری کے طور پر عوام کو استعمال کیا جا رہا ہے۔ یعنی عوام کے خون پسینے کی کمائی سے عیش و عشرت کرنے والے یہ جاگیر دار اور سرمایہ دار (فرعون صفت) سیاستدان لومڑی کی سی مکاری کے مرتکب ہیں۔

میرے نزدیک یہ عیاری کذب بیانی کے زمرے میں آتی ہے۔ ۔ ”کذب بیانی“ وہ جھوٹ جو یہ عوام کے سامنے بلا خوف و خطر بول دیتے ہیں۔ نہ انھیں خوفِ خُدا ہوتا ہے اور نہ عوام کے سامنے شرمندہ ہوتے ہیں۔ ؟ برقی قلت و تعطل ( جس کا دورانیہ ہوشربا حد تک ہوتا ہے یوں کہیے کہ پاکستان بجلی اور پانی کے بغیر ناتواں ہے ) کہ جس کا اس وقت پاکستان کو سامنا ہے انھی سیاست دانوں کی منافقت کی بنا ء پر ہے۔ جنھوں نے محکمے تباہ کر کے رکھ دیے ہیں۔

طویل ترین خود ساختہ لوڈ شیڈنگ پیدا کر کے یہ راگ الاپنا کہ پاکستان میں بجلی کی قلت شدت اختیار کرتی جا رہی ہے۔ محض ڈرامہ ہے۔ جس کا حقیقی واقعات اور زمینی حقائق سے کوئی علاقہ و واسطہ نہ ہے۔ بھارت پر پانی (دریاؤں ) کی بندش کے الزامات بھی اسی سلسلے کی کڑیاں ہیں۔ اس حقیقت بیانی سے یہ مطلب نہ لیا جائے کہ میں بھارتی ایجنٹ کا کردار ادا کر رہا ہوں۔ میرے مقاصد خاص یہ ہیں کہ اعلیٰ حُکام اور منصوبہ سازوں کو مثبت رائے پیش کر سکوں۔ جس کی روشنی میں مناست حکمت عملی وضع ہو سکے۔ جو روشن مستقبل کی ضمانت ہے۔

بھارتی حکام اور اسٹیبلشمنٹ تو پاکستان کی روایتی حریف ہیں۔ انھوں نے دریاوں پر بند بھی باندھنے ہیں اور اضافی پانی (جو برسات میں سیلابی شکل اختیار کر لیتا ہے ) دریاؤں میں چھوڑ بھی دینا ہے۔ خواہ یہ سیلاب پاکستان کو وسیع تباہی سے بھی دوچار کر دیں۔ اِن حالات سے کچھ سیکھنا ہے تو ہمارے با اختیار اداروں اور سرکارکو سیکھنا چاہیے۔ برسراقتدار و اختیار طبقات یہ جانتے ہوئے بھی کہ ان مناسب اقدامات سے پاکستان توانائی کے میدان میں ترقی کا عمل طے کر سکتا ہے۔ دانستہ طور پر عوام کو بجلی، گیس اور پٹرولیم مصنوعات کی مصنوعی قلت اور مہنگائی کے ذریعے کمزور کر رہے ہیں۔ تا کہ ایک عام آدمی تعلیمی و معاشی اور اقتصادی سطح پر غیر مستحکم رہے۔ طبقہ اشرافیہ کا مقابلہ نہ کر سکے اور اُس سے اپنا حق مانگنے کی جسارت نہ کر سکے۔

کالم کے اختتام پر ایک شعر قارئیں کی خدمت میں جسے میں کالم کا نچوڑ قرار دیتا ہوں :۔
مِری مشاطگی کی کیا ضرورت حُسن معنی کو
کہ فطرت خود بخود کرتی ہے لالے کی حِنا بندی


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).