وزیراعظم صاحب!مبارک باد ضرور دیں مگر۔۔۔۔۔


وزیراعظم پاکستان نے آسٹریلیا میں تاریخی فتح حاصل کرنے پر بھارتی کرکٹ ٹیم کے کپتان اور عظیم بیٹسمین ویرات کوہلی کو مبارک باددی ہے۔ ان کے اس اقدام کی تحسین و توصیف بھی ہو رہی ہے اور مذمت بھی۔ پاک بھارت تعلقات دونوں طرف ہر دور میں ایک کٹھن اور کانٹوں بھرا راستہ رہے ہیں۔ ہمارے ہاں خاص طور پر سیاست کی بساط اکثر اسی سلگتے ہوئے دیرینہ مسئلے پر بچھائی جاتی ہے۔ پاک بھارت مراسم ہمارے لیے زندگی موت کا مسئلہ بن جاتے ہیں۔

جہاں دونوں طرف مذہب، تہذیب، نظریے، حب الوطنی اور قومیت کی بنیاد پر ایک دوسرے کو صفحہء ہستی سے مٹادینے کے خونخوار قسم کے عزائم پائے جاتے ہوں وہاں پاکستان کے کسی نئے نویلے وزیراعظم کے لیے اس طرح کے بیانات اس کی شہرت اور ساکھ کو بری طرح متاثر کرنے اور زک پہنچانے کا باعث بنتے ہیں۔ مگر۔ کپتان نے حکومت میں آتے ہی حسب روایت و عادت بھرپور یو ٹرن لیا اور نواز شریف کے یار مودی کو یہ ولولہ انگیز پیغام دیا کہ اگر وہ مذاکرات کی بحالی، امن و سلامتی اور کشمیر سمیت دوطرفہ تنازعات کے حل کے لیے ایک قدم آگے آئیں گے تو ہم دس قدم آ گے بڑھیں گے۔ کپتان اور ان کے دست راست سپہ سالار پاکستان نے کرتار پور بارڈر کھولنے میں بنیادی کردار ادا کرتے ہوئے امن کی خواہش والے پیغام کو عملی جامہ پہنانے کی ابتدا کردی۔

کپتان کی بھارت کے ساتھ مذاکرات اور تعلقات کی بحالی کی خواہش کی جس قدر تحسین کی جاٰئے کم ہے مگر یہاں ہم کپتان صاحب اور ان کی ہاں میں میں ہاں ملانے والوں سے بصد احترام یہ پوچھنا چاہتے ہیں کہ اقتدار میں آنے کے بعد وہ کون سی عینک پہن لیتے ہیں جو انہیں اس حوالے سے ہر سمت ہر ہرا دکھاتی ہے؟ کیسا معجون استعمال کرتے ہیں جو ان کی شعلہ نوائی اور زہرافشانی کو گل افشانی میں بدل لیتا ہے؟ وہ کون سی لوری ضمیر کو سناتے ہیں جو اسے اطمینان سے تھپک تھپک کر سلا دیتی اور وہ کون سا ورد ہے جو کشمیر میں ہونے والے مظالم سے فوراً ان کی توجہ ہٹادیتا ہے؟

ابھی کل کی بات ہے کہ کپتان صاحب کنٹینر پر چڑھ کر روزانہ نواز کے یار مودی کو کھری کھری سناتے تھے۔ اس وقت انہیں کشمیر میں بھارتی فوج کے مظالم اور بھارت میں اقلیت کے ساتھ ہونے والا سلوک بھی درد و کرب میں ڈبو دیتا تھا۔ بھارت کی طرف سے پانی چوری کا معاملہ بھی ان کی غیرت و حمیت کو مہمیز دیتا تھا۔ گجرات کے ”قصاب“ کا سفاک اور بے رحم چہرہ بھی وہ کثرت سے دنیا کو دکھانا ضروری سمجھتے تھے۔ بھارت میں نواز شریف کی فیکٹریوں اور وسیع تر کاروباری سرگرمیوں کی یاددہانی بھی وہ ہر روز کرواتے تھے۔

اس وقت انہیں کشمیر جنت نظیر کی عفت مآب بیٹیوں کی تارتار ہوتی عزتوں کی ردائیں بھی صاف دکھائی دیتی تھیں۔ بیلٹ گن سے آنکھوں کے نور سے محروم ہوتے نونہال بھی اچھی طرح نظر آتے تھے۔ چونتیس فیصد نفسیاتی عوارض میں مبتلا کشمیری ماؤں کی حالت زار بھی انہیں خون کے آنسو رلاتی تھی۔ آئے دن کشمیر سے اٹھائے جانے والے مسلم نوجوان اور ان کی ملنے والی مسخ شدہ لاشیں بھی انہیں دن رات بے چین رکھتی تھیں مگر جونہی کپتان صاحب کے سر پر اقتدار کا ہما بیٹھا یہ تمام مظالم پلک جھپکنے میں پسِ پردہ چلے گئے اور انہوں نے بے تابانہ بھارت کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھا دیا۔

صرف یہی نہیں ”تبدیلی“ کی ہوا نے ہماری مقتدر اور فیصلہ ساز قوتوں کو بھی یکبارگی بدل کر رکھ دیا۔ جب نواز شریف کے دور میں مودی خود چل کر امن کی خواہش لے کر پاکستان آیا تو ہمارے اداروں نے اسے ذرا برار اہمیت نہیں دی اور زبانوں کے ساتھ کنٹرول لائن پر ان کی بندوقیں بھی شعلے اگلتی رہیں۔ جب نواز کہتا تھا کہ پاکستان بھارت کو آپس میں لڑنے کے بجائے غربت، افلاس، بیروزگاری اور جہالت کے خلاف جنگ کرنا چاہیے تو وہ مقتدر حلقوں کے دل میں کانٹے کی طرح کھٹکتا تھا مگر آج پاک بھارت دوستی کے حوالے سے وہ کپتان کی ہمسری سے زیادہ اس کی رانمائی کرتے دکھائی دے رہے ہیں۔ بقول شاعر

زمینِ چمن گل کھلاتی ہے کیا کیا
بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے

ہم کپتان صاحب کے اس اقدام کوہرگز بھارت نوازی سے تعبیر نہیں کرتے مگر اتنے بڑے یو ٹرن پر کپتان کو کم ازکم یہ تو بتاناچاہیے کہ وہ اس وقت ٹھیک تھے جب کنٹینر پر سوار تھے یا اب ٹھیک ہیں؟ کوہلی اور بھارتی کرکٹ ٹیم کو عظیم فتح پر مبارک باد ضرور دیں مگر اس حوالے سے کشمیر سمیت ان سنگین، سلگتے ہوئے اور سنجیدہ مسائل کی طرف بھی ضرور توجہ دیں جن کا ذکر وہ دن رات کنٹینر پر کیا کرتے تھے۔ برسبیل تذکرہ اقتدار کی غلام گردشوں میں وہ اگر کلبھوشن یادیو اور برہان مظفر وانی شہید کے نام بھول گئے ہوں تو ہم یاد دلائے دیتے ہیں۔ وانی کے مشن کو پورا کرتے ہوئے انہوں نے مقبوضہ کشمیر کے مظلوم مسلمانوں کو آزادی دلانی ہے اور سیکڑوں پاکستانیوں کے قاتل کلبھوشن کو چوراہے پر پھانسی دینی ہے۔ مبارک باد ضرور دیں مگر کشمیریوں کے زخموں پر نمک پاشی کے بجائے ان پر مرہم بھی رکھیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).