فوجی عدالتیں: ’عدلیہ کا کام فوج کے حوالے کیا ہی نہیں جانا چاہیے‘


پاکستان

’ناقص کارکردگی کی وجہ سے مجرم کیفرِ کردار تک نہیں پہنچ پاتے‘

پاکستان میں فوجی عدالتوں کو عام شہریوں کے خلاف مقدمات سننے کے اختیار کی مدت میں توسیع کا معاملہ ایک مرتبہ پھر خبروں میں ہے۔ فوجی عدالتوں کو یہ اختیار دسمبر 2014 میں پشاور میں آرمی پبلک سکول پر دہشت گردوں کے حملے کے بعد بننے والے نیشنل ایکشن پلان کے تحت دو سال کے لیے دیا گیا تھا۔ اپنی آئینی مدت اور اس میں ایک بار کی توسیع بھی مکمل ہونے کے بعد اب ان عدالتوں میں عام شہریوں کے مقدمے چلانے کا اختیار ختم ہو چکا ہے۔

اے پی ایس حملے جیسے سانحے کے بعد تو جنوری 2015 میں ان فوجی عدالتوں کے اختیار میں اضافے کی توجیح یہ پیش کی گئی کہ اس سے دہشت گردی سے متاثرہ افراد کو جلد از جلد انصاف کی فراہمی کو یقینی بنانا ہے۔

انسانی حقوق کے کارکن اور کئی سیاستدان اور وکلا آغاز سے ہی عدالتوں کو اضافی اختیارات دینے کی مخالفت کرتے رہے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ پاکستان تحریکِ انصاف بھی جو کہ اس وقت پاکستان کی حکمران جماعت ہے ماضی میں ان عدالتوں کو ایک عارضی بندوبست قرار دیتی رہی ہے۔

آج جب پاکستان میں سکیورٹی کی صورتحال ماضی کے مقابلے میں کہیں بہتر سمجھی جا رہی ہے تو فوجی عدالتوں کے اختیارات کی مدت میں توسیع کا معاملہ اٹھتے ہی یہ سوال بھی دوبارہ اٹھنے لگے ہیں کہ آیا آج کے پاکستان میں بھی فوجی عدالتوں کی ضرورت ہے اور کیا وہ انصاف کے تقاضے پورے کرتی رہی ہیں؟

اسی بارے میں

فوجی عدالتیں کتنی مؤثر؟

فوجی عدالتیں اور انصاف کے تقاضے

وفوجی عدالتوں کی پہیلی اور ان کا مستقبل

’فوج کا کام انصاف دینا نہیں‘

فوجی عدالتوں کے حوالے سے ایک کثیر رائے یہی ہے کہ ان کی ضرورت کبھی بھی نہیں تھی۔

پاکستان بار کونسل کے وائس چیرمین کامران مرتضی نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں فوجی عدالتوں کی ضرورت نہ کبھی پہلے تھی، نہ آج ہے اور نہ ہی مستقبل میں کبھی ہو گی۔

ان کا کہنا تھا کہ ’آج ہم ایک ترقی یافتہ معاشرے اور صدی میں رہ رہے ہیں اور فوجی عدالتوں کا خیال ترقی یافتہ معاشرے کے نظریے کے خلاف ہے‘۔

انھوں نے کہا کہ ’جس وقت پہلے بھی فوجی عدالتوں کا قیام کیا گیا تھا ہم نے تب بھی اسے رد کیا اور جب ان عدالتوں کی توثیق کی گئی تھی تب بھی مسترد کیا تھا اور اگر اب دوبارہ ان کے قیام ہوا تو ہم اب بھی مسترد کریں گے‘۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان بار کونسل نے فوجی عدالتوں کے قیام کو جب چیلنج کیا تھا تو اس وقت جسٹس ناصر الملک کی عدالت نے فیصلہ دیا تھا کہ فوجی عدالتوں کا قیام جوڈیشل ریویو سے مشروط ہوگا۔ مگر اس فیصلے پر کبھی من وعن عمل نہیں کیا گیا اور کبھی فوجی عدالتوں کا جوڈیشل ریویو نہیں کیا گیا۔

عدالت کی جانب سے فوجی عدالتوں کا ریکارڈ بھی مانگا گیا اور وہ بھی نہیں دیا گیا اور اب ہماری عدالت اس معاملے پر خاموش ہیں۔ ہم میں سے کوئی بھی نہ دہشت گردی کی حمایت کرتا ہے نہ فروغ دیتا ہے مگر ہم قانون کی بالادستی کی بات کرتے ہیں اور ہر جگہ ہر قانون کی بالادستی ہونی چاہے اور اس کا معیار بھی دنیا بھر میں ہے۔ یہ معاملات اس معیار پر نہ کبھی دیکھے گئے نہ پرکھے گئے ہیں۔ کیونکہ اگر کسی ایک بھی بےگناہ کو پھانسی لگ گئی تو ہم سب اس کے ذمےدار ہونگے۔

شمالی وزیرستان سے رکن اسمبلی منتخب ہونے والے محسن داوڑ کا کہنا ہے کہ ’اگر پہلے سے موجود قانونی نظام میں کوئی سقم ہے تو اسے دور کرنے کی ضرورت ہے نہ کہ متبادل نظام لایا جائے۔‘

’فوج کا کام مقدمات نمٹانا نہیں بلکہ ملک کا دفاع کرنا ہے اور فوجی عدالتوں میں کئی مقدمات تو انتہائی مضحکہ خیز رہے۔‘

محسن داوڑ کا کہنا تھا کہ ’صرف شدت پسندوں کے ہی معاملے میں نہیں ہر قسم کے مقدمات میں پراسیکیوشن میں بہتری کی ضرورت ہے۔ کیونکہ عام مجرمان کی اکثریت بھی ہماری عدالتوں سے چھوٹ جاتی ہے اسے بہتر کرنے کی ضرورت ہے۔ اس طرح مسائل کے لیے عارضی حل تلاش کرنا ٹھیک نہیں ہے۔ عدلیہ کا کام فوج کے حوالے کیا ہی نہیں جانا چاہیے۔‘

وکیل عارف جان جو کہ فوجی عدالتوں سے سزا پانے والے ملزمان کا مقدمہ پشاور ہائی کورٹ میں لے جانے والے وکلا میں شامل ہیں ان فوجی عدالتوں کے سرے سے ہی خلاف ہیں۔

ان کا کہنا تھا ’ہم صوبے اور حتی کے پورے ملک کے وکلا اس کی مذمت کرتے ہیں کیونکہ یہ ایک انصاف کا متوازی نظام ہے۔ جب ملک میں پہلے سے سے ہی ایک اچھا عدالتی نظام موجود ہے جس میں انسداد دہشت گردی کی عدالتیں اور خصوصی عدالتیں بھی شامل ہیں تو ایسے میں فوجی عدالتوں کی ضرورت ہی نہیں تھی۔‘

عارف جان کا مزید کہنا تھا ’چونکہ انھیں پارلیمان نے لاگو کیا اور وقتاً فوقتاً ان میں توسیع بھی کی اور بعد میں سپریم کورٹ کی جانب سے ان کے حق میں آنے والے فیصلے کے بعد ہماری امید ہی ختم ہو گئی۔‘

’اگر یہ (حکومت) ان میں توسیع چاہتی ہے تو ان کی کارکرگی کا بھی جائزہ لیا جانا چاہیے۔ کیونکہ پشاور ہائی کورٹ نے بھی 76 کے قریب مقدمات کے فیصلوں کو معطل کیا۔‘

عارف جان کا کہنا تھا ’ان کے لیے جے آئی ٹی ہونی چاہیے جو اپنی سفارشات کے ساتھ رپورٹ متعلقہ ادارے کے حوالے کر دے۔ اور وہ ادارہ مزید تحقیقات کر کے مقدمہ عدالت کو روانہ کریں جہاں انھیں سزا دی جائے یا بری کر دیا جائے۔‘

ملٹری

فوجی عدالتیں حل نہیں

قومی ادارہ برائے انسانی حقوق کے چیئرمین جسٹس علی نواز چوہان کا کہنا تھا کہ ’فوجی عدالتوں کے ہونے یا نہ ہونے کا فیصلہ اگرچہ پارلیمان کے ہاتھ میں ہے لیکن فوجی عدالتیں مسئلہ کا حل نہیں ہیں۔‘

ان کا مزید کہنا تھا ’ہمیں فوجی عدالتوں پر شبہ نہیں ہے لیکن کوئی جائزہ لیتا رہے کہ کوئی قانون جاننے والا یہ دیکھتا رہے کہ وہاں ہو کیا رہا ہے؟‘

جسٹس علی نواز چوہان کا کہنا تھا کہ ’اصل کام یہ ہے کہ کرمنل جسٹس سسٹم کو مضبوط بنانے کے ضرورت ہے، ہاں وہ یہ کر سکتے ہیں کہ وہ فوج کے تربیت یافتہ قانون دان ٹربیونل میں شامل کر دیں لیکن اسے مکمل طور پر فوجی نظام انصاف بنا دینا ٹھیک نہیں اور یہ آئین کے آرٹیکل 10 اے سے متصادم بھی ہے۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’یہ بات طے شدہ ہے کہ عدلیہ اور انتظامیہ الگ الگ ہوں گے اور اگر انہیں یکجا کیا گیا تو یہ آئین کی بنیاد کے ہی خلاف ہو گا۔‘

ان کے مطابق عدلیہ کو بھی نگرانی اور توازن کی ضرورت ہے۔

اس سلسلے میں بیرسٹر کامران مرتضیٰ نے کہا کہ ’میرے خیال میں ان سے متوقع مقاصد حاصل نہیں ہو سکے کیونکہ ان کے قیام کا مقصد دہشت گردی کے واقعات میں کمی لانا بھی تھا لیکن صوبہ بلوچستان جہاں سے میرا اپنا تعلق بھی ہے وہاں ان واقعات میں 23 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ اگر یہ اتنی با اثر ہوتیں تو بلوچستان میں حالات بہتر ہو جاتے‘۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’مجھے کبھی بھی ان کے مقصد پورا کرنے کی سمجھ نہیں آئی ماسوائے کہ پھانسی کو قانونی حثیت دی گئی ہے اور وہ لوگ جن کو سزائیں دینی تھیں ان کے لیے ایک قانونی راستہ اختیار کرنے کی کوشش کی گئی‘۔

فوجی عدالتیں

رواں سال جنوری کے پہلے ہفتے میں فوجی عدالتوں کی دو سال کی معیاد مکمل ہو گئی ہے

فوجی عدالتوں پر اعتراضات ہیں کیا؟

لاپتہ افراد سے متعلق مقدمات کی پیروی کرنے والے کرنل ریٹائرڈ انعام الرحیم کا کہنا تھا ’فوجی عدالتوں سے جن لوگوں کو سزا ہوئی ان میں سے کئی لوگ پہلے سے نظر بند تھے، کئی لوگوں کو دیا جانا والا وکیل ایک ہی تھا، انھیں مقدمے کی مثل بھی نہیں دی گئی۔‘

’اس کے علاوہ گرفتار ملزمان کے لواحقین کو مطلع نہیں کیا جاتا انھیں اخبار سے پتا چلتا ہے کہ ان کے بیٹے کو سزائے موت ہو گئی ہے۔‘

کرنل انعام کا کہنا ہے کہ ’میں ذاتی طور پر اس بات کا قائل ہوں کہ فوجی عدالتی نظام دراصل غیر عدالتی قتل کا نظام ہے۔ یہ بنیادی انسانی حقوق کے خلاف ہے۔ ‘

ان کے بقول پہلے سے دیے جانے والے فیصلوں کے دوبارہ جائزے کی بھی ضرورت ہے۔

وکیل عارف جان کے مطابق فوجی عدالتوں میں ’سب سے بڑا مسئلہ شفاف مقدمے کا ہے جو ہمارے ملک کے آئین کے آرٹیکل 10 اے کے مطابق ہو۔ جسے ہم شفاف مقدمہ کہتے ہیں ان ملزمان کو وہ موقع نہیں دیا گیا۔ وکلا تک رسائی بھی نہیں دی گئی۔ فیس لیس ٹرائل کیے گئے ہیں۔ ان کی بنیاد اعترافی بیانات کو بنایا گیا۔‘

’ایک شخص جو مجسٹریٹ کے سامنے اعتراف کرتا ہے تو فیصلے کے بعد وہ ہائی کورٹ میں اپیل کیوں کرے گا۔ اسے تو مطمئن ہونا چاہیے اپنے خلاف فیصلے پر۔‘

وکیل عارف جان کے مطابق ’ایک تو تمام تک اعترافی بیانات ایک ہی طرز کے تھے اور دوسرا ایک مجسٹریٹ نے یہ بیان ریکارڈ کیے تو اسے یہ اختیار کیسے حاصل تھے کہ وہ فوجی عدالتوں کے معاملے میں دخل دیتا۔ اور کسی بھی مقدمے میں ایسا کوئی ٹھوس ثبوت نہیں تھا جس کی بنیاد پر سزائے موت دی جاتی۔‘

ان کے بقول ’اگر ملک کے سابق جنرل اور چیف ایگزیکٹو رہنے والے شخص (پرویز مشرف) کے خلاف مقدمہ عام عدالت میں چل سکتا ہے تو ان مشتبہ شدت پسندوں کے خلاف مقدمات کیوں نہیں چل سکتے۔‘

جسٹس علی نواز چوہان کہتے ہیں ’میں شدت پسندی پر قابو پانے کے لیے فوج کو مبارکباد پیش کرتا ہوں لیکن جہاں عدلیہ کی بات آتی ہے تو اس کے لیے آپ کو ایسے تربیت یافتہ لوگوں کی ضرورت ہے جو قانون اور نظام عدل کو جانتے ہیں۔‘

فوجی عدالتوں میں سماعت کا خفیہ ہونا شکوک شبہات کی سب سے بڑی وجہ ہے۔ اس بارے میں جسٹس علی نواز چوہان کا کہنا تھا ’ایک پرانا اصول ہے کہ انصاف ہوتے ہوئے دکھائی دینا چاہیے۔ اب اگر یہ دکھائی نہیں دیتا تو وہ کیا انصاف ہوا۔‘

ان کا کہنا تھا ’فوج کے لوگوں کو قانونی تربیت کے بعد سول جج کے ساتھ مل کر کام کروائیں جیسے مارشلا کے دنوں میں ہوتا تھا۔ لیکن فوجی عدالتیں فوج کے لیے بدنامی کا باعث رہیں گی۔‘

کیا اس نظام کا مقصد کوئی خاص دباؤ بنانا تھا؟

رکن اسمبلی محسن داروڑ کا کہنا ہے کہ شدت پسند اس طرح دباؤ کا شکار نہیں ہوتے۔

ان کا کہنا تھا ’ان فوجی عدالتوں نے آج تک کسی بڑے شدت پسند کو گرفتار کیا نہ سزا سنائی۔ ایک احسان اللہ احسان کو یہ پکڑ نہیں سکے جو سرعام آ کر جرائم کی ذمہ داری قبول کرتا ہے۔ فوجی عدالتوں نے اس کا یا کسی دوسرے بڑے شدت پسند رہنما کا کیا بگاڑا؟‘محسن داوڑ نے ایک بار پھر زور دیا کہ ’فوج کا کام ہی نہیں ہے انصاف دینا۔‘

’عدالتی نظام اتنا مضبوط ہو کہ کوئی مجرم بچ نہ پائے۔ لیکن فوجی عدالتںی اس کا حل نہیں ہیں۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32299 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp