بش، بلئیر اور صدام ۔۔ ظالم کون؟


\"usman

یہ کیسی قوم ہے جس کے حکمران غلطی کرتے ہیں تو ان کے خلاف تحقیقات ہوتی ہیں اور غلطی ثابت ہونے پر حکمران بغیر کسی چوں چراں کےغلطی تسلیم کرتے ہوئے معافی بھی مانگ لیتے ہیں۔

عراق کی جنگ کے حوالے سے سرجان چلکوٹ کی انکوائری رپورٹ کے حوالے سے دنیا میں بہت کچھ کہا جائے گامگر یہ بھی تسلیم کرنا ہوگا کہ مغربی اقوام کی کامیابی کا راز ان کی یہی خوداحتسابی ہے۔ دس لاکھ پاؤنڈزکی خطیر رقم سے 26 لاکھ الفاظ پر مشتمل سرجان چلکوٹ کی تحقیقاتی رپورٹ میں واضح لکھا ہے کہ عراق پر فوج کشی کرنا آخری راستہ نہیں تھا، وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کے خطرے کو بلاوجہ یقینی بنا کر پیش کیا گیا اورناقص خفیہ اطلاعات پر پالیسی مرتب کی گئی۔

ٹونی بلئیر پہلے ہی عراق جنگ کے حوالے سے معافی مانگ چکے ہیں تاہم برطانوی عوام انہیں معاف کرنے کے لیے تیار نہیں، عراق جنگ میں مارے جانے والے برطانوی فوجیوں کے اہل خانہ نے نیوزکانفرنس کرتے ہوئے ٹونی بلئیر کو دنیا کا حقیقی دہشت گرد قراردیا ہے۔

اگر یہ کہا جائے کہ عراق جنگ کا نتیجہ داعش کی صورت میں نکلا تو بالکل غلط نہیں ہوگا مگر کیا یہ کہنا درست ہوگا کہ یہ نتیجہ کسی اچانک ردعمل کا حصہ نہیں بلکہ مکمل منصوبہ بندی کا معاملہ ہے۔

جی ہاں!

مغربی اقوام کی سامراجیت کا ایک سیاہ پہلو یہ ہے کہ وہ تیسری دنیا کو جنگ وجدل میں مبتلا رکھنے کے لیے انتہاپسندانہ قوتوں کو فروغ دیتی ہیں، بھارت میں ہندو انتہاپسندی اور مسلمان ممالک میں اسلامی انتہاپسندی کو فروغ دے کر لڑاؤ اور حکومت کرو کی پالیسی مغرب کی سامراجیت کا ایک تلخ باب ہےاور سرجان چلکوٹ کی رپورٹ نے اسی سرمایہ دارانہ مغربی سامراجیت کو بے نقاب کیا ہے۔

صدام حسین اپنی موت کے نو برس بعد پھر ہیرو بن چکا ہے اور اب اس ہیرو سے وہ لوگ بھی محبت کرتے ہیں، جو اس کے بدترین مخالفین تھے۔

صدام ایک ایسے ظالم کے طور پر بھی یاد رکھا جائے گا، جسے پر بدترین ظلم ہوا اور مظلومیت کی موت ملی یعنی وہ بیک وقت ظالم بھی تھا اور مظلوم بھی، جابر بھی تھا اور مجبور بھی۔

مگر وہ جو بھی تھا، اس کا عراق آج کی صورت حال سے بہت بہتر تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments