شام سے امریکی انخلا، کان کھڑے کرلیں


امریکی معیشت کا بڑا انحصار دفاعی صنعت پر ہے، لہذا دنیا بھر میں تنازعات کو فروغ دینے اور برپا ہونے والی جنگوں کے پیچھے اس کا ہاتھ ضرور موجود ہوتا ہے۔ موجودہ صدر ٹرمپ کے اقتدار میں آنے کی وجہ یہ بھی تھی کہ انہوں نے اپنے عوام سے وعدہ کیا تھا کہ ایک بار پھر نہ صرف وہ کھوئی عظمت رفتہ بحال کریں گے بلکہ بڑھتی ہوئی بے روزگاری کا خاتمہ اور معاشی بہتری ان کی اولین ترجیح ہو گی۔ غور کریں ایران کے ساتھ ایٹمی معاہدہ کر کے اسے دانستہ چھوٹ دی گئی تاکہ وہ اپنا میزائل پروگرام اپ گریڈ کرلے اور روایتی اسلحے کی خریداری کی قدغن اس سے ختم ہو جائے۔

یوں اس کی معیشت بھی بہتر ہو گئی اور وہ خطے کے ممالک میں اپنی پراکسیز کے ذریعے مداخلت کے قابل بھی ہو گیا۔ پھر اچانک پوری دنیا کی مخالفت کے باوجود امریکا نے یہ معاہدہ منسوخ کر کے سعودی عرب کو ایران کی قوت کا ڈراوا دیا اور ڈیڑھ سو ارب ڈالر کی اسلحے کی ڈیل پر قائل کر لیا۔ با ایں ہمہ عربوں کے آپسی اختلافات کو بھی یہ کہہ کر ہوا دی کہ قطر ایران سے ملا ہوا ہے لہذا اس کا مقاطعہ کیا جائے مگر ڈیڑھ سو ارب ڈالر کی ڈیل کے محظ ایک ہفتے بعد سعودی اتحاد کو ورغلانے اور اختلافات پیدا کرنے والے امریکا نے قطر کے ساتھ بھی سولہ ارب ڈالر کے دفاعی سودے کیے۔

گئے وقتوں میں اس صنعت کو چلانے کے لیے سرد جنگ کافی تھی مگر، اب گلشن کا کاروبار چلانے کے لیے دہشتگردی کا بہانہ ہاتھ آ گیا ہے۔ نائن الیون کے بعد دہشت گردی ایک بہت بڑا عالمی مسئلہ بن چکی ہے اور اس وقت بہت سے ممالک جو کبھی نہایت محفوظ تصور ہوتے تھے وہ بھی اس سے متاثر ہوچکے ہیں۔ رواں عشرے کے اولین سالوں میں دہشتگردی کی اس لہر نے یورپی ممالک کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا۔ بہت سے نئے دہشتگرد گروپ اور شدت پسند تنظیمیں وجود میں آئیں جن کا اس سے قبل کبھی نام تک نہیں سنا تھا۔

ایسی ہی تنظیموں میں ایک اضافہ داعش یعنی ISIS کا ہے۔ یہ تنظیم چند سال قبل اچانک سامنے آئی، جس کا بیس کیمپ عراق اور شام کے شورش زدہ علاقے ہیں۔ کالم کی تنگ دامنی پیش نظر نہ ہوتی تو مغربی محقیقن کی تحاریر اور مقالوں کے حوالے سے ثابت کرنا مشکل نہیں کہ اسے امریکا نے اپنے مقاصد کے تحت، یعنی مستحکم اسلامی ریاستوں میں شورش برپا کرنے، ِ اسلام کے منفی تشخص کو پروموٹ کرنے اور ایسے یورپی ممالک کو ڈراوا دے کر اپنے ساتھ ملائے رکھنے کے لیے، جنہوں نے مزید امریکی آلہ کار بننے سے انکار کردیا تھا، بنایا۔

اب اچانک امریکا نے ہاتھ اٹھا کر اور پنجے جھاڑ کر کہہ دیا ہے پڑوس کی ریاستیں داعش سے مزید خود نمٹیں، لیکن کچھ لوگ اس انخلا کو بے آبرو ہو کر نکلنے والا معاملہ سمجھ رہے ہیں جو کہ غلط ہے۔ درآں حالیکہ ابھی تک داعش کا اثر وہاں برقرار ہے۔ یہ ایک سوچی سمجھی حکمت عملی تھی، اور اپنے اہداف حاصل کرنے میں امریکا کامیاب رہا۔ مزید ابہام یہ جاننے سے ختم ہو سکتا ہے کہ پڑوس کی تمام ریاستوں میں سینگ پھنسانے کے باوجود داعش نے اسرائیل پر ایک گولی تک کبھی نہیں چلائی۔ یہاں مگر یہ بات بھی ماننے کی ہے کہ اس کو تمام افرادی قوت مسلم ممالک سے ہی میسر آتی ہے اور اس کا ثبوت یہ ہے، جتنے بھی دہشت گردی کے واقعات یورپ میں ہوئے، جن کا الزام داعش پر لگا ان میں ملوث افراد میں زیادہ تر کا تعلق مشرق وسطیٰ کی اسلامی ریاستوں سے ہے۔

کچھ عرصہ قبل کہا جاتا تھا کہ برصغیر پاک و ہند میں داعش کا کوئی وجود نہیں مگر اب یہ اطلاعات آ رہی ہیں کہ پاک افغان سرحدی علاقے تورا بورا میں امریکہ نے سوچے سمجھے منصوبے کے تحت گھیر گھار کر داعش کو جمع کر دیا ہے تاکہ پاکستان اور برصغیر کو ڈی اسٹیبلائزڈ رکھا جاسکے۔ یہاں تک کہ بنگلہ دیش میں بھی داعش کا نیٹ ورک فعال شروع ہو چکا ہے۔ آج سے قبل سرکاری سطح پر ہمیشہ اس تاثر کی نفی ہوئی کہ پاکستان کو بطور ریاست داعش سے خطرات لاحق ہیں۔

چند ماہ قبل مگر پاکستانی آرمی چیف جنرل قمر باجوہ نے پہلی بار اعتراف کیا، داعش سے پاکستان کو خطرات لاحق ہیں اور ہمیں اس سے نمٹنے کے لیے اقدامات کرنا ہوں گے۔ سوال مگر یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ کیا اقدامات ہوں گے کیونکہ صرف بہتر بارڈر مینجمنٹ، موثر انٹیلی جنس شیئرنگ اور اسی طرح کے دیگر روایتی اقدامات سے آپ اس چیلنج سے عہدہ برآ نہیں ہو سکتے، کیونکہ ان اقدامات سے اس خطرہ کا سدباب ممکن ہوتا تو یورپی ممالک اس قدر وسیع ٹیکنالوجی، بے پناہ وسائل اور داعش کے بیس کیمپ سے ہزاروں میل دور سرحدوں کے باوجود دہشتگردی کا شکار نہ ہوتے۔

اگر داعش کے خطرہ سے نمٹنا ہے تو آپ کو اس کی افرادی قوت کی بڑھوتری کو روکنا ہوگا۔ کچھ عرصہ قبل تک یہ سمجھا جاتا تھا کہ صرف مدارس ہی دہشتگردی کی نرسریاں ہیں مگر داعش کے طریقہ واردات نے اس تاثر کو بالکل غلط اور بے بنیاد ثابت کیا ہے۔ یہ بات واضح ہوچکی ہے، داعش سے تعلق رکھنے والے افراد کی بڑی تعداد یونیورسٹیز میں زیر تعلیم نوجوانوں کی ہے۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ آخر وہ کون سے عوامل ہیں کہ ایک پڑھا لکھا اور بظاہر با شعور نوجوان اپنا کیریئر داؤ پر لگا کر عسکریت پر کیوں چل پڑتا ہے؟

یہ ایک بہت لمبا موضوع ہے اور اس پر بہت سے صفحات سیاہ کیے جاسکتے ہیں مگر موضوع کی طوالت کے خوف سے مختصراً ایک بنیادی سبب عرض ہے کہ دنیاوی اداروں میں زیر تعلیم نوجوانوں کے اذہان میں اس وقت بے چینی پائی جاتی ہے اور وہ مذہب کی جانب مائل ہونا چاہتے ہیں مگر نہایت افسوس سے یہ کہنا پڑتا ہے کہ ان کی رہنمائی کے لیے مذہبی جماعتوں کی جانب سے کوئی ایکٹیویٹی نظر نہیں آتی اور اس خلا کو داعش اپنے پروپیگنڈے سے پر کرتی ہے اور اپنے حق میں استعمال کرتی ہے۔

معصوم نوجوانوں کو بتایا جاتا ہے کہ تمہاری تمام محرومیوں کا بنیادی سبب چند لوگوں کی اجارہ داری اور غیر شرعی سیاسی نظام ہے اور اس کے متبادل کے طور پر ان کے دماغ میں نام نہاد خلافت کا نقشہ انجیکٹ کر کے ان کو قریب کیا جاتا ہے۔ واقعی اگر داعش سے اپنے معصوم نوجوانوں کو دور رکھنا ہے تو اس کے لیے غیر سیاسی اور غیر متنازع علما کرام کو آگے آ کر عصری تعلیمی اداروں میں سیمینارز اور لیکچرز کا انعقاد کرنا ہوگا اور نئی نسل کو بتانا ہوگا کہ اسلام میں اپنے حقوق کی جدوجہد کی کیا حدود و قیود ہیں اور آپ کس قدر نظام کو بدلنے کے ذمہ دار اور مکلّف ہیں۔

اس کے ساتھ ان کو اسلام میں حکمرانی کے اصل تصور سے روشناس کرانا بھی ضروری ہے۔ اس کام میں سرکاری سطح پر بھی اپنی ذمہ داری کا ادراک لازم ہے اور اس کام کو شروع سرکاری سرپرستی کے بغیر نہیں کیا جا سکتا۔ ہایئر ایجوکیشن کمییشن کو بھی علما کرام کی مشاورت سے ایسا نصاب تشکیل دینا چاہیے جس میں موجودہ دور کے تقاضوں کے مطابق ینگ جنریشن کے سوالات کا شافی اور مفصل جواب موجود ہو اور لازم ہو کہ ہر سمسٹر میں تمام جامعات کی جانب سے کم از کم ایک لیکچر ایسا ہو جس کا بنیادی کانسیپٹ ہی دہشتگردی، اس کے بنیادی عوامل اور آج کے نوجوان کی ذمہ داریاں ہوں۔ ورنہ کسی دن امریکا یہ کہہ کر چلتا بنے گا، افغان حالات اب علاقائی طاقتیں دیکھ لیں۔ اس صورت آتش و آہن کی فروخت کا امریکی کاروبار تو مزید بڑھ جائے گا مگر خاکم بدہن ہماری قریہ و بازار کی آگ جو بڑی مشکل سرد ہوئی پھر بھڑک سکتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).