بنام محمد حسن عسکری۔ نو دریافت خطوط


کسی فرد کی قلبی و نفسی کیفیات اور علمی و ادبی میلانات اور رجحانات سے آگاہی کے لئے اس کے لکھے گئے یا اس کو لکھے گئے خطوط ایک اہم ذریعہ ہیں۔ ہماری علمی اور ادبی تاریخ میں مکاتیب کو نہایت اہمیت حاصل ہے۔ بلا شبہ خط کو تہذیبِ انسانی کی محیر العقول عجائبات میں شامل کیا جاسکتا ہے۔ تحقیق کے باب میں بھی مکاتیب کو بنیادی معلومات کا بہترین ماخذ تصور کیا جاتا ہے۔ کیونکہ خط میں مخاطب فردِ واحد ہوتا ہے جس کے باعث لکھنے والا بلا تکلف ذہن و قلب کی کیفیات رقم کرتا چلا جا تا ہے۔ علامہ اقبالؔ شاعر کے ادبی اور ذاتی خطوط سے اس کے کلام کے پس منظر سے آگاہی کے لیے ضروری قرار دیتے تھے۔

اردو افسانہ و تنقید میں محمد حسن عسکری کی ایک مسلمہ حیثیت ہے۔ وہ مغربی ادب کے طالب اور استاد تھے۔ انہوں نے مشرقی اور مغربی ادب تاریخ کے پس منظر کے ساتھ پڑھا۔ 1930 ء کے بعد اردو ادب میں نئے ادب کی تحریک کے آغاز نے ایک عجیب کیفیت پیدا کی جسے اس کے بعد ہماری ادبی تاریخ میں نہیں دیکھا گیا۔ اس سے پہلے کے ادب پر علی گڑھ کی جمال پرستی کا اثر تھا، اس کے بعد اشتراکی حقیقت نگاری کا رنگ ادب پر غالب آیا۔ پھر نئے ادب نے جدجدیت کا رنگ اختیار کیا۔

محمد حسن عسکری کا قلم ایسی ہی صورتحال میں پروان چڑھا اور رواں رہا۔ عسکری کی ابتدائی دلچسپی فکشن اور افسانہ تھی۔ عسکری کی قلمی زندگی کا آغاز 1939 ء میں ہوا۔ انہوں نے اپنے منفرد اسلوب اور خیال کے سبب ایک افسانہ نگار کے طور پر اپنے مخالفین سے بھی بے پناہ داد سیمٹی۔ عسکری نے ایک خاص زوائے سے اردو کے کلاسیکل اور جدید ادب کے ساتھ معاصر ادبی مسائل کو دیکھا اور برصغیر پاک و ہند کی مذہبی، سیاسی، ثقافتی اور تہذیبی صورتحال کو بھی ناقدانہ نظر سے دیکھا۔

یہیں سے عسکری نے بطور ایک افسانہ نگار اپنے علمی اور ادبی سفر کا آغاز کیا۔ مگر ان کی فطرت میں تجسس اور تشکیک کے عناصر نے انھیں ظاہر کا باطن کھوجنے اور ان کو کسی نقطہ واحدنی سے جوڑنے کی بے پناہ لگن اور تفتیشی تجربات نے ان کے قلم سے اردو ادب کو وہ اثاثہ عطا کیا جسے محمد حسن عسکری کی تنقید کہا جاتا ہے۔

عسکری کی چالیس سالہ ادبی زندگی کا مطالعہ کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ ان کی فکر کا بنیادی موضوع یہ تھا کہ قومی اور بین الاقوامی سطح پر ہم جس ماحول، معاشرے اور فکری دھارے میں رہنے پر مجبور ہیں وہاں ہماری کیا حیثیت ہے؟

عسکری کا قلم جس روانی اور تسلسل کے ساتھ مضامین لکھتا تھا اسی تواتر سے وہ اپنے احباب کو خطوط بھی لکھتے تھے جو خالصتاً ادبی اور علمی اور ذاتی نوعیت کے بھی تھے۔ لیکن یہ خطوط خط برائے خط یا محض تفریح طبع کے لیے کم ہی ہوتے تھے۔ خطوط میں بھی تنقیدی صلاحیتوں اور سنجیدگی کا یہ عالم ہے کہ بعض اوقات تو خط اور تنقیدی مضمون کا فرق بھی ملحوظ رکھنا محال ہوجاتا ہے۔

محمد حسن عسکری کا انتقال 18 جنوری 1978 ء کو کراچی میں ہوا۔ ان کے کتب خانے کا ایک بڑا حصہ بیدل لائیبریری کراچی کو منتقل کردیا گیا تھا۔ صرف چند ذاتی نوعیت کی چیزیں ان کے بھائی لاہور اور راولپنڈی لے آئے۔ ان کی وفات کے تقریباً 38 سال بعد ان کے بھائی جناب حسن مثنیٰ کو پرانے کاغذات میں عسکری کے نام شعراء، ادباء اور علماء کے خطوط ملے، جنھیں انہوں نے ”معیار“ میں اشاعت کے لیے دیا۔ اب انہی خطوط کو سنگ میل پبلیکیشنز لاہور نے یکجا کرکے شائع کیا ہے۔

خطوط کے اس مجموعے میں 45 خطوط ڈاکٹر حمید اللہ کے ہیں۔ اس کے علاوہ منٹو، قاسمی، انتظار حسین، مولانا تقی عثمانی، ڈاکٹر آفتاب احمد اور شمس الرحمٰن فاروقی سمیت 42 شخصیات کے خطوط شامل ہیں۔ اس مجموعے میں جناب عزیز ابن الحسن نے بہت خوبصورتی کے ساتھ عسکری کا تعارف اور ان کے منٹو، قاسمی اور دیگر شخصیات کے ساتھ تعلق کو خوب بیان کیا ہے۔

خطوط کا مطالعہ دلچسپ بھی ہے اور چشم کشا اور معلومات افروز بھی۔ مثال کے طور پر احمد ندیم قاسمی 28 مئی 1942 ء میں لکھے گئے خط میں رائٹرز کانفرنس کا احوال جاننے کی خواہش کرتے ہوئے لکھتے کہ ”جب ہندوستان کے نوجوان ادیبوں کا ایک اچھا خاصا اجتماع ہو تو ہمارے اخبار۔ کم از کم ہمارے پنجاب کے اخبار کس مصلحت کی بنا پر چپ سادھ لیتے ہیں“۔

ڈاکٹر حمید اللہ صاحب اپنے ایک خط میں لکھتے ہیں : ”اردو تفاسیر و تراجم قرآن کے متعلق آپ کی قیمتی معلومات پر سوائے اس کے کیا کہوں کہ جزاکم اللہ احسن الجزاء فی الدنیاؤ دارالبقاء۔ میری اپنی یادداشت کے مطابق اردو کا قدیم ترین ترجمہ قرآن مجہول المولف ہے، دوسرا قدیم محمد باقر فضل اللہ خیر آبادی کا ہے۔ ان کا زمانہ تو مجھے معلوم نہیں لیکن مخطوطے پر تاریخ وقف 1115 ہ تحریر ہے“۔ ڈاکٹر صاحب اپنے ایک دوسرے خط میں لکھتے ہیں کہ ”یہ مفید اطلاع بھی ملی کہ مولانا مفتی محمد شفیع صاحب کی تفسیر کا سلسلہء نسب کیا ہے۔ ویسے اس میں مفتی صاحب قبلہ کے اپنے فوائد اور اضافے بھی ہوں گے“۔ فلسطین کے حالات پر نہایت گرفتہ دل کے ساتھ لکھتے ہیں کہ ماضی کی اصلاح

کے لیے مستبقل کی تیاری کرنی چاہیے۔ محض تعطل میں تو مزید خطرات ہیں۔ یہاں ڈاکٹر حمید اللہ تمام مسلم اہل فکر و علم سے یہ سوال بھی پوچھتے ہیں کہ عیسائی دنیا کیوں مسلمانوں کی دشمن ہوگئی ہے اور کیوں اپنے ”خدا کُش“ یہودیوں کو بھی مسلمانوں پر ترجیح دیتی ہے؟ اور یہودی مٹھی بھر ہونے کے باوجود کیوں عیسائی دنیا میں اس قدر با اثر اور بارسوخ ہوگئے ہیں؟

شمس الرحمٰن فاروقی صاحب اپنے ایک خط میں عسکری کو لکھتے ہیں کہ: ”میں نے سنا ہے کہ ان دنوں آپ نے ابن عربی کا بہت گہرا مطالعہ فرمایا ہے۔ جیلانی کامران نے اپنی کتاب“ نئی نظم کے تقاضے ”میں ابن عربی کے بارے میں لکھا ہے کہ انہوں نے تمام مغربی شاعری کو متاثر کیا ہے، کیا آپ متفق ہیں؟ “

خطوط کے اوپر نقل کیے گئے اقتباسات سے اندازہ ہوتا ہے کہ خطوط کا یہ مجموعہ علمی اور فکری اثاثہ ہے جس سے اہل ذوق یقینا مستفید ہو سکتے ہیں۔

پسِ تحریر: گزشتہ کالم میں میں نباتیات کے ایک پروفیسر صاحب کے لیکچر کا حوالہ دیا تھا، لیکن ان کا مکمل تعارف نہ تھا۔ کراچی سے صدیقِ مکرم جناب تسنیم فاروقی صاحب نے مدد فرمائی اور پروفیسر صاحب کا مکمل تعارف بھیجا۔ ڈاکٹر محمد اسلم پرویز، مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی۔ حیدر آباد۔ انڈیا کے وائس چانسلر اور مفکر قرآن ہیں۔ ان کی سرپرستی میں قرآنی فکر کے حوالے سے دہلی میں ایک ادارہ بھی فعال کردار ادا کررہا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).