ڈی پی او ماریہ محمود کا ماتھا: دوسرا رخ


 

صبح سے خاتون ڈی پی او پاک پتن کی جانب سے ایک بزرگ تاجر رہنماء کو گرفتار کروانے پر کافی لے دے ہو رہی ہے۔ صبح سے کوئی آدمی ایسا نہیں دکھائی دیا جس نے اس معاملے پر ڈی پی او کا ساتھ دیا ہو سب اس کی مذمت کر رہے ہیں۔ میرا نقطہ نظر کچھ مختلف ہے پہلے اس واقعہ کی خبر پر نظر دوڑاتے ہیں پاک پتن کی تحصیل عارف والامیں پولیس کی کھلی کچہری کے دوران خاتون ڈی پی او نے مبینہ غلط فہمی پر 70 سال کے بزرگ تاجر رہنما کو گرفتار کرا دیا جس پر تاجروں نے احتجاج کرتے ہوئے سٹی تھانے کا گھیراؤ کیا اور لاری اڈہ چوک پر ٹائر جلا کر ٹریفک بلاک کر دی۔

ڈی پی او پاکپتن ماریہ محمود کی تحصیل عارف والا کی میونسپل کمیٹی میں کھلی کچہری کے دوران مرکزی صدر انجمن تاجران 70 سالہ صوفی عبدالرشید نے ڈی پی او سے مقامی پولیس کی شکایت کی جس پر ڈی پی او نے انہیں انصاف کی یقین دہانی کرائی۔ اس موقع پر بزرگ تاجر آگے بڑھے اور خاتون افسر کے سر پر ہاتھ پھیرنے کی کوشش کی جس پر ڈی پی او غلط فہمی کا شکار ہوگئیں اور وہ دھمکیاں دینے پر اتر آئیں۔ اس واقعے کے بعد مقامی پولیس نے تاجر رہنما کومیٹنگ کے بہانے تھانے بلایا اور گرفتار کرکے چوری، کار سرکار میں مداخلت، روڈ بلاک کرنے کا مقدمہ درج کر لیا گیا۔

مرکزی صدر انجمن تاجران 70 سالہ صوفی عبدالرشید کی گرفتاری کی اطلاع ملتے ہی بڑی تعداد میں تاجروں نے پہلے تھانے کا گھیراؤ کیا اور پھر لاری اڈا چوک پر ٹائر جلا کر ساہیوال، بہاولنگر، پاکپتن اور بورے والا روڈ بلاک کر دی۔ اس سارے معاملے کے بعد ڈی پی اوپاکپتن ماریہ محمود اپنا فون بند کرکے گھر چلی گئیں۔ اب چلتے ہیں تصویر کے دوسرے رخ کی جانب پاکپتن کی تحصیل عارف والا میں کھلی کچہری لگی تھی اور ڈی پی او عوام کے مسائل سن رہی تھیں، تاجر رہنماء جو کہ ہر شہر میں عادت کے اعتبار سے ایک جیسے ہی ہوتے ہیں آگے بڑھے اور خاتون ڈی پی او کے سر پر ہاتھ پھیر کر ماتھا چومنے کی کوشش کی۔

فرض کرتے ہیں ماریہ محمود کی جگہ ڈی پی او کالاکلوٹا محمود قاسمی نام کا کوئی ڈی پی او ہوتا تو کیا بابا جی اسی جوش سے ماتھا چومنے کی کوشش کرتے؟ یقینا نہیں کیونکہ بزرگوار کی جانب سے اس سے قبل کسی باوردی افسر کا ماتھا چومنے کی کوئی رپورٹ سامنے نہیں آ سکی۔ باریش بزرگوار کو علم ہو گا کہ نامحرم عورت کو چھونا بھی حرام ہے چہ جائے کہ ماتھا چوم کر شفقت پدری کا ثبوت دیا جائے دوسرا پہلو یہ بھی ہے کہ ڈی پی او باوردی تھیں اور ڈیوٹی پر تھیں ان کا فرض بنتا تھا کہ کسی کی شفقت لیں نہ شفقت دکھانے کی کوشش کریں کیونکہ اس شفقت کے لین دین کے بعد تاجر رہنماء اکثر مقامی تھانوں پر بادشاہ بن جاتے ہیں۔

بزرگ عبدالرشید کی نیت پر کوئی شک نہیں کیا جا سکتا لیکن باوردی ڈی پی او جو کہ ایک خاتون بھی ہیں ان کا ماتھا چومنے کا منظر کچھ دیر کے لئے ہم اپنے گھر لے آتے ہیں کہ کوئی اجنبی بابا جی ہماری بہن بیٹی بیوی کا اسی طرح ماتھا چومنے کی کوشش کریں تو کیا ہم شفقت پدری سمجھ کر سب کچھ ہونے دیں گے؟ یقینا نہیں کیونکہ ہم اپنی بہن بیٹی بیوی پر کسی غیرمرد کی نظر پڑنا بھی برداشت نہیں کر سکتے تو ماتھا چومنا کیسے برداشت کر سکتے ہیں۔

میں اس معاملے میں ڈی پی او پاکپتن ماریہ محمود کے ساتھ ہوں انہوں نے جو کچھ کہا بالکل درست کیا۔ ایک پولیس افسر کو بالکل ایسا ہی کرنا چاہیے وہ محکمہ پولیس کی وردی پہننے کے بعد بھی ایک عورت ہے اور اس سے پہلے بھی ایک عورت تھی اور کوئی عورت مردوں کے اس ہوس زدہ معاشرے میں یہ اجازت نہیں دے سکتی کہ لوگ بازاروں میں اسے پکڑ کر ماتھا چومیں اور پھر کہیں میں آپ کو بیٹی مانتا ہوں یا بہن کہتا ہوں۔ بطور بیٹا، ایک بھائی، ایک باپ اور ایک خاوند جب میں ایسی کسی شفقت پدری کی اجازت نہیں دے سکتا تو ڈی پی او پاکپتن کیونکر اجازت دے؟

ہمارے معاشرے میں تاجر رہنماء ایسی اوٹ پٹانگ حرکتیں اکثر و بیشتر کرتے رہتے ہیں، کبھی گلدستے پکڑے نئے پولیس افسران کے دروازوں پر کھڑے ہوتے ہیں تو کبھی پریڈ کرنے کی ایکٹنگ کرتے ویڈیو سوشل میڈیا پر اپلوڈ کر دیتے ہیں، کبھی ہمارے تاجر رہنماء پولیس کے خلاف احتجاج کرتے ہیں اور دوسرے دن پولیس افسران کی خوشنودی کے لئے تعریفوں کے پل باندھتے ہیں۔ ایسے ہی ایک تاجررہنماء بابا عبدالرشید بھی ہیں جنہیں شاید یاد بھی نہ ہو کہ انہوں نے اپنی بیٹی کے سر پر کب ہاتھ پھیرا تھا یا آخری بار اپنی بیٹی کا ماتھا کب چوما تھا۔ ہمیں ایسے رویوں اور اداکاری کی حوصلہ شکنی کرنی چاہیے زبردستی کسی پولیس افسر کو ماتھا چومنے کی اجازت نہ دینے پر لعن طعن نہیں کرنی چاہیے۔

اسی بارے میں: ماریہ محمود: دبنگ لیڈی پولیس افسر یا نفسیاتی مریضہ؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).