ایدھی صاحب اور ہمارے فکری یتیم


\"farnood01\"

اور ملک میں ہوتے تو چوک چوراہوں پہ مجسمے نصب ہوتے۔ بد نصیبی ہی کہیئے کہ عبدالستار ایدھی اس دھرتی پہ پیدا ہوئے جہاں محسنوں کو پسِ مرگ بھی رسوائیاں ہی ملی ہیں۔

غور کیجیئے۔ ہماری ماؤں نے آنکھوں میں خواب سجائے۔ نو مہینے خواب کی رکھوالی کی۔ خواب تعبیر ہوا تو رات اور نیند میں فاصلے پیدا ہوگئے۔ باپ نے پیٹ کاٹا۔ اپنے حصے کے نوالے سے ہمارے معدے تر کیئے۔ ہمارا قد نکلا تو انہی بزرگوں کی ایک کھانسی کی قیمت ہم ادا نہ کرپائے۔ گھروں سے چلتا کردیا۔ یہی بزرگ جو کہیں کے نہیں رہے، ان کے بڑھاپوں کا سہارا ملا تو کہاں ملا؟ کچھ دیر کے لئے تصور کیجئے کہ عبدالستار ایدھی اور بلقیس ایدھی اس دھرتی پہ نہیں ہیں، کیا ہزاروں بزرگ آپ کو کھلے آسمان تلے ایڑیاں رگڑتے نظر نہیں آئیں گے؟

یہ چھوڑ دیں۔ ہمارے اعزا کی وہ لاشیں جو گل سڑ گئیں۔ وہ نعشیں جو لہروں میں گم ہو کر پھول گئیں۔ وہ وجود جو نالیوں میں پھینکے گئے، کیا ہم تلاش کر سکے؟ کیا ریاست تلاش کرسکی؟ جب لاشیں مل گئیں، تو کیا ہم اسے ہاتھ لگانا بھی گوارا کر سکے؟ ہم اس کی سڑاند کی تاب لا سکے؟ تین تین حصوں میں بٹی ہوئی لاشیں ہم قریب جاکر دیکھنے کی ہمت بھی کر سکے؟ جن کے چیتھڑے اڑ گئے، کیا ہم اسے بکھرے ہوئے کانچ کی طرح بھی سمیٹ سکے؟ کوئی بتلا سکتا ہے کہ ان گلی سڑی اور بکھری لاشوں کو احترام کا تقاضا ہوا تو نگاہیں کس طرف\"[epa02912892 اٹھیں؟ وہی عبدالستار ایدھی؟

یہ بھی چھوڑ دیں۔ ہمارے وہ بچے جو ہمارے وجود سے تولد پذیر ہوئے، جب علم ہوا کہ وہ ذہنی معذور ہیں تو ہم نے ٹال دیا۔ اپنے کندھوں سے ننھوں کا یہ بوجھ اتار دیا۔ سوچیئے اور بار بار سوچیئے کہ کتنا عظیم ہوگا وہ بوڑھا درویش کہ جب ایک ماں اپنی سگی اولاد کو بھی چھاتی پہ منہ رکھنے نہیں دیتی تو وہ اپنی شریکِ حیات بلقیس ایدھی کو بھیج دیتا ہے۔ آپ نہیں پال سکتے؟ کوئی بات نہیں ہم پال لیں گے۔

یہ بھی جانے دیتے ہیں۔ ہم کسی کی زلف اور کسی کے نین کے اسیر ہوئے، یہ جائز تھا۔ ہم نے ملاقات کی، یہ بھی جائز تھی۔ ہم گلے ملے، یہ بھی جائز تھا۔ ہم نے رات بسر کی، یہ بھی جائز تھا۔ ہم عشوہ طراز ہوئے ، دراز دستی کی۔ یہ بھی جائز تھا۔ لب لعلیں اور گیسو و رخسار کی بلائیں لیں، یہ بھی جائز تھا۔ سانسوں میں سانسیں مل گئیں بانہوں بانہیں پڑگئیں وصل ہوگیا غسل ہوگیا یہ سب جائز تھا۔ اب بد احتیا طیوں کے نتیجے میں ایک بچہ اس کائنات میں آیا، وہ ناجائز ہوگیا۔ یار سبحان اللہ۔ تین پانچ اور سات سال کی محبتوں رفاقتوں میں صرف ایک ہی چیز ناجائز ٹھہری اور وہ یہ انسان تھا، جس کا اپنے ظہور میں ذرہ بھر بھی کوئی عمل دخل نہیں تھا۔ اسے اختیار ہوتا تو آپ ہی کے آنگن میں اترتا؟

\"edhi5\"

سماج نے اس بچے کیلئے ’ناجائزاولاد‘ کی اصطلاح ایجاد کی اور مولوی اس کیلئے ”ولد الزنا“ کی اصطلاح تراش لایا۔ شعور کا یہی توعالم ہوتا ہے جب ایک بچے کو دشمن کا بچہ کہتے ہوئے بھی اشرافیہ کی روح نہیں لرزتی۔ ایدھی ایک کلاس پڑھے ہوئے نہیں ہیں۔ بلقیس ایدھی بھی تعلیم سے تہی دست ہیں۔ مگر یہ تعلیم سے ہی محروم تھے، علم سے نہیں۔ یہ علم اسی بوڑھے درویش کے قلبِ مضطر پہ اتر سکتا تھا کہ بچہ کبھی ناجائز نہیں ہو سکتا۔ وہ اٹھا، اس نے ہر چوک چوراہے پہ جھو لے نصب کر کے اعلان کر دیا، اپنے کرتوت کو کچرہ کونڈیوں میں پھینکنے کے بجائے اس جھولے میں ڈال دیا کریں۔ آپ جانتے ہیں کہ آج کتنے نوجوان ہیں جو ہمارے لئے تو ناجائز ہیں مگر ایدھی کی ایک نگاہِ حیات نے آج انہیں سماج کا ایک کارآمد فرد بنا دیا ہے۔

طرفہ تماشہ تو دیکھیئے۔ ہم کہ وہ جو قائد اعظم کی تعزیت بھی اس غرض سے کرتے ہیں کہ پتہ چل سکے عدم کو کوچ کرجانے میں ابھی کتنی دیر ہے۔ ہم وہ جو شکیب جلا لی کو ٹرین کی پٹری پہ لیٹتا چھوڑ آتے ہیں۔ ہم وہ جو ذوالفقار علی بھٹو کے اپنے ہی دھج سے مقتل کی طرف جانے کو عبرتناک سزا کہتے ہیں۔ حبیب جالب کو سڑکوں پہ گھسیٹتے رہ جاتے ہیں۔ احمد فراز کا مذاق بناتے ہیں اور زبیدہ آپا کو فن کے بدلے مسلسل رسوائیاں دیتے ہیں۔ پھر ہم پو چھتے ہیں کہ ملالہ یوسفزئی کو نوبل ایوارڈ دینے والی عالمی برادری کو عبدالستار ایدھی کیوں نظر نہیں \"Edhi3\"آیا۔ چھوڑ دیجیئے عالمی برادری کو، آپ سے سوال ہے کہ کیا ایدھی صاحب خود آپ کو بھی کبھی نظر آئے۔؟ دو کمرے اور دو جوڑے میں عمر بسر کر نے والے عظمت کے اس مینار کو ہم نے عمر بھر کی اذیتوں کا کیا صلہ دیا۔ ؟ بس دو ہی چیزیں؟ ایک الزام اور ایک فتوی۔؟ الزام کہ وہ بچوں کی اسمگلنگ کرتا ہے۔ فتوی کہ وہ ملحد ہے، اسے خیرات کی رقم دینا جائز نہیں ہے۔

آپ سن رہے ہیں؟ اگر ہاں، تو پھر یہ بھی سنتے جایئے کہ اس پیرانہ سالی میں بھی بوڑھے درویش کو ہم نے جاتے جاتے دو اذیتیں اور دیں۔ ایک اذیت چند برس قبل کہ سہارے سے چلنے والے اس بزرگ کو آدھا گھنٹہ دیوار کی طرف منہ کر کے کھڑا کیا، اور تجوریاں صاف کر کے لے گئے۔ دوسری اذیت یہ کہ احمد فراز کی طرح وقت سے پہلے اس کی موت کا اعلان کردیا۔ کیا آدمی ہے کہ شکایت ہی نہیں کرتا۔ کیا آدمی ہے صاحب۔ مگر ستم در ستم یہ کہ میرے اس دیس کے سارے قل اعوذییئے، جمعراتیئے، شب براتیئے، وظیفہ خور، چندہ بریگیڈ، مفتے خیراتیئے اور صدقہ ہڑپ جیب کترے صبح سویرے منہ اندھیرے مانگے\"edhi4\" تانگے کے نوکیلے قلم اٹھائے چلے آتے ہیں کہ زندہ ایدھی کا کفن ادھیڑا جا ئے۔ گز بھر کی زبانیں نکالیں اور وہی الزام وہی فتوے دوہرا د یئے۔ گو کہ بر صغیر کا سب سے عظیم انسان اس وقت دل وجاں سلامت ہے، مگر یہ حوروں کے دلال فرماتے پائے گئے کہ ہم ایدھی صاحب کے لیئے دعائے مغفرت نہیں کر سکتے۔ کیوں بھئی؟ کیونکہ وہ دہریہ ہیں۔ چٹل کارتوسوں کو یہ خیال بھی کیسے گزرجاتا ہے کہ ایدھی جیسے انسانوں کی روحیں آپ جیسے ٹیوشن برانڈ فکری یتیمیوں اور اخلاقی مفلسوں کی دعاؤں پہ انحصار کرتی ہیں۔ وہ جو عرش پہ ہے نا، وہ خدا ہے، کسی پسماندہ علاقے کی ڈیڑھ انچی مسجد کا کوئی تنگ نظر امام نہیں ہے۔

ایدھی صاحب کا درد میں کہا ایک جملہ یاد آتا ہے، جو دل میں ترازو ہوگیا۔ بولے اور کیا خوب بولے کہ

’لوگوں میں تعلیم تو آگئی، مگر انسانیت نہیں آئی‘۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments